آرٹیکل 63 اے : چند ضروری باتیں
آصف محمود
پارلیمان قانون بناتی ہے تو اس کے پیش نظر صرف وقتی مفاد ہوتا ہے اور عدلیہ اس کی شرح کرتی ہے تو وہ بھی وقتی مفاد کو دیکھ کر کرتی ہے۔ چنانچہ ایک طرف تضادات کا عالم یہ ہے کہ 14 ویں ترمیم میں نواز شریف صاحب نے خود یہ اصول طے کیا تھا کہ کوئی رکن قومی اسمبلی کسی بھی معاملے میں قیادت کی مرضی کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتا ۔ آج ان کی جماعت کا مطالبہ ہے کہ اراکین کو مرضی کے مطابق اور پارٹی قیادت کی ہدایت کے خلاف ووٹ کی اجازت ہونی چاہیے۔ دوسری جانب عدلیہ ہے جسے خوب معلوم تھا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد پارٹی ہدایت کے خلاف ووٹ دینے کی اجازت ہے البتہ اس کی ایک قیمت ہے کہ ووٹ دینے والا اسمبلی کی نشست سے محروم ہو جائے گا لیکن اس کے باوجود عدلیہ نے فیصلہ کر دیا کہ ایسا ووٹ گنا ہی نہیں جائے گا۔ یہ آئین کاآرٹیکل 95 معطل کرنے ا ور آرٹیکل 63 اے کو ری رائٹ کرنے والی بات تھی۔ اس فیصلے نے آئین کی 17ویں اور 18ویں ترمیم کے متعلقہ حصے کو منسوخ کر دیا۔ بنیادی سوال یہ تھا کہ اراکین اسمبلی کیا اپنی مرضی سے ووٹ دے سکتے ہیں؟اس سوال کا پہلا جواب نواز شریف صاحب نے 14 ویں ترمیم کی صورت میں دیا۔اس قانون کے مطابق کسی بھی معاملے میں اراکین پارلیمان پارٹی ہدایات سے ہٹ کر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے تھے، اور اگر کوئی رکن ایسا کرتا تو پارٹی کا سربراہ اس کے خلاف سپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کو ریفرنس بھیجتا۔ سپیکر اور چیئرمین پابند تھے کہ دو دنوں میں معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجواتے اور الیکشن کمیشن سات دنوں میں متعلقہ رکن کو نااہل قرار دینے کا پابند تھا۔ سپیکر، چیئرمین سینیٹ اور چیف الیکشن کمشنر کے پاس پارٹی سربراہ کے حکم سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ پارٹی سربراہ کی ایسی آئینی آمریت قائم کر دی گئی کہ وہی شکایت کنندہ، وہی مدعی، وہی منصف۔ پھر بھی اگر کوئی کسر باقی رہ گئی تھی تو ذیلی دفعہ چھ میں یہ لکھ کر پوری کر دی گئی کہ کسی عدالت، حتی کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو بھی ایسے معاملے کی سماعت کا کوئی اختیار نہیں ہو گا اور نہ ہی وہ ایسے کسی معاملے میں کوئی حکم جاری کر سکیں گی۔ پھر وقت بدلا ، مشرف صاحب آ گئے ، اس سوال کا دوسرا جواب انہوں نے 17ویں ترمیم کے ذریعے دیا کہ اراکین پارلیمنٹ صرف تحریک اعتماد، تحریک عدم اعتماد یا قائد ایوان کے انتخاب کے موقعے پر پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتے اور نہ ہی ان مواقع پر پارٹی ہدایات کے برعکس غیر حاضر رہ سکتے ہیں۔ ایسا کرنے کی صورت میں ان پر ڈیفیکشن کلاز لگے گی اور وہ نااہل ہو جائیں گے۔ سترہویں ترمیم میں آئین میں ایک تبدیلی یہ بھی کی گئی کہ ڈیفیکشن کے تحت کسی رکن کے خلاف ریفرنس بھیجنے کا اختیار پارٹی سربراہ سے لے کر متعلقہ ایوان میں پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کو دے دیا گیا۔ اس کے بعد اٹھارویں ترمیم آئی جو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی مشترکہ کاوش تھی۔ اس میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ نواز شریف والے فارمولے کی بجائے پرویز مشرف والا فارمولا بہتر ہے۔ یعنی صرف تین مواقع پر پارٹی ہدایت کے خلاف ووٹ دینا منع ہے اور دیا گیا تو اسمبلی سے ڈی سیٹ ہو جائیں گے۔ اس ترمیم کے ذریعے آرٹیکل تریسٹھ اے میں صرف ایک تبدیلی کی گئی کہ ریفرنس بھیجنے کا اختیار پارلیمانی پارٹی کے سربراہ سے لے کر ایک بار پھر واپس پارٹی سربراہ کو دے دیا گیا۔ یعنی اختیارات کی اتنی سی منتقلی بھی گوارا نہیں تھی۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد اس آرٹیکل میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی ۔ اس وقت کی آئینی پوزیشن یہی ہے اور یہ بہت واضح ہے اور اس آئین سازی کی تاریخ کی روشنی میں کوئی ابہام نہیں۔ وہ یہ کہ اراکین پارلیمنٹ صرف تحریک اعتماد، تحریک عدم اعتماد یا قائد ایوان کے انتخاب کے موقعے پر پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتے اور نہ ہی ان مواقع پر پارٹی ہدایات کے برعکس غیر حاضر رہ سکتے ہیں۔ ایسا کرنے کی صورت میں ان پر ڈیفیکشن کلاز لگے گی اور وہ نااہل ہو جائیں گے۔ یہی معاملہ عدالت کے سامنے آیا تو اس نے کہا اس صورت میں ووٹ گنا ہی نہیں جائے گا۔ یہ بات آئین میں کہیں نہیں لکھی تھی۔ اس سے آئین کے کم از کم دو آرٹیکل معطل ہو گئے۔ یہ آئین ری رائٹ کرنے کی ہی بات نہیں تھی ، یہ اسے معطل کرنے والا معاملہ تھا۔ معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے ہے اس لیے میں اس پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا ورنہ یہ نکتہ قابل بحث تھا اور ہے۔ جج کا کام یہ ہے کہ وہ آئین کے مطابق فیصلہ کرے۔ یہ اس کا کام نہیں کہ وہ فیصلہ کرتے وقت خود سے سوچ لے کہ آئین کو یوں ہونا چاہیے تھا۔ آئین کیسے ہوناچاہیے تھا ، یہ الگ معاملہ ہے اور اس کا تعلق پارلیمان سے ہے عدالت سے نہیں۔ جج آئین ساز نہیں ہوتا ۔ نہ ہی وہ آئین ری رائٹ کر سکتا ہے نہ اسے معطل کر سکتا ہے۔ ووٹ نہ گننے کی بات کر کے یہی کیا گیا۔کیو نکہ ا س فیصلے سے آئین کا آرٹیکل 95 غیر فعال ہو گیا۔ آرٹیکل 95 کا تعلق عدم اعتماد سے ہے۔ اگر پارٹی ہدایت کے خلاف ووٹ نہیں دیا جا سکتا تو عدم اعتماد کا تو معاملہ ہی ختم کر دیا گیا۔ آئین کی شرح جب سارے آئین کے تناظر میں کی جائے تو معاملہ واضح ہے ۔ تین مواقع پر پارٹی ہدایت کے خلاف ووٹ نہیں دیاجا سکتا ،ا ن میں سے ایک عدم اعتماد ہے ، لیکن اگر کوئی ووٹ دے گا تو ڈی سیٹ ہو جائے گا۔ یہ عدم اعتماد میں پارٹی کے خلاف جانے کی قیمت ہے۔ اب اگر اس کا ووٹ ہی نہ گنا جائے تو پھر تو بات وہی 14 ویں ترمیم والی ہو گئی۔ پھر 17 ویں اور 18 ویں ترامیم کہاں گئیں؟ سیاسی وابستگی اور سیاسی گروہوں کے مفاد کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا یہ وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں( جیسے کل مسلم لیگ ن خود 14یں ترمیم لائی اور آج اسی اصول کے خلاف کھڑی ہو گئی ہے)۔ قانون اور آئین کے ایک طالب علم کے طور پر میرے پیش نظر سوال یہ ہے کہ کیا عدالت ایسا ووٹ شمار ہی نہ کرنے کا حکم سنا کر آئین کی 17 ویں اور 18ویں ترمیم کو کالعدم قرار دے سکتی ہے؟ نظر ثانی کیس میں اسی کا فیصلہ ہو گا اور یہ بہت اہم فیصلہ ہو گا۔ جو بھی فیصلہ آئے اسے سیاسی وابستگی سے ہٹ کر آئین اور جورسپروڈنس کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔سیاسی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں ، جورسپروڈنس کے تقاضے پامال نہیں ہونے چاہییں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ابھی بھی حکومتی اتحاد کا مسئلہ اس کا مفاد ہے ، آئینی مبادیات کی تصحیح نہیں، بالکل ایسے ہی جیسے تحریک انصاف کا مسئلہ بھی اس کا مفاد ہی رہا ہے ، آئینی مبادیات نہیں۔