آزادی کا ہیرورائے احمد خان کھرل
عبداللہ طارق سہیل
تحریک آزادی کے عظیم ہیرو رائے احمد خان کھرل کا یوم شہادت ہفتہ 21 ستمبر کو منایا گیا ۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ 1857ء کی جنگ آزادی کے موقع پر انگریزوں نے دہلی اور دیگر علاقوں میں ِحریت پسندوں کو بڑی تعداد میں قتل کر دیا تو اس کا اثر وسیب میں بھی ہوا ۔ رائے احمد خان کھرل کا تعلق قصبہ جھامرہ سے تھا ، انگریز دشمنی ان کے خون میں شامل تھی ۔اسسٹنٹ کمشنر برکلے نے کھرلوں ، فتیانوں اور دیگراقوام کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں کرائیں اس پر رائے احمد خان کھرل میں سخت اشتعال پیدا ہوا اس نے تمام برادریوں کے سرداروں کو اکٹھا کیا ۔ ایک سپاہ تیار کی اور گھوڑوں پر سوار ہو کر گوگیرہ جیل پر حملہ آور ہوئے،اس موقع پر انگریزوں سے شدید جنگ ہوئی اس جنگ میں چار سو کے قریب انگریزی فوجی مارے گئے ۔رائے احمد خان کھرل نے قیدی چھوڑا لیے۔ انگریز گورنمنٹ کی بنیادیں ہل گئیں ۔ ہندوستان کے انگریز ایوانوں میں تھرتھلی مچ گئی اور اس تشویش نے برطانیہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ انگریزوں نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے سب سے پہلے گوگیرہ کی ضلعی حیثیت ختم کی اور احمد خان کھرل کا مقابلہ کرنے کیلئے انگریزوں نے مخبر ،جاسوس اور غدار تلاش کئے ۔ چونکہ انگریزوں کی ہمت جواب دے گئی تھی وہ ان بہادروں کا دوبدو مقابلہ نہ کر سکتے تھے۔ اسی بنا ء پر انگریز کے جاسوسوں ، مخبروں اورحمایتوں نے اپنا کام دکھایا اور سب سے پہلے احمد خان کھرل کے خاندان کے لوگ گرفتار کرائے گئے اور احمد خان کھرل کو پیغام بھجوایا گیا کہ تم ہتھیار پھینک دو ورنہ تمہارے تمام خاندان کو گولیوں سے اُڑا دیا جائے گا اور جھامرہ کو آگ لگا دی جائے گی۔احمد خان کھرل نے ہتھیار پھینکنے سے انکار کر دیا ۔ انگریزوں نے مقابلے کے لئے لاہور سے اسلحہ بارود اور کرنل پلٹین کی قیادت میں پوری رجمنٹ کو گوگیرہ منگوا لیا ۔ لاہور سے سپاہ اور اسلحہ بارود کے آتے ہی گھمسان کی لڑائی شروع کر دی گئی ۔ جھامرہ اور آس پاس کے علاقوں پر آتشیں اسلحے کا استعمال کیا گیا جس سے ہر طرف آگ کے شعلے بڑھک اُٹھے۔ 21ستمبر1857ء کو احمد خان کھرل نے شہادت پائی۔ احمد خان کھرل کی شہادت کے بعد انگریز فوج کو تخت لاہور سے جشن منانے کا حکم جاری ہوا ۔ انگریز افسر برکلے فتح کا جشن منانے کیلئے جنگل عبور کرکے گوگیرہ چھائونی کی طرف جا رہا تھا کہ احمد خان کھرل کے ساتھی مراد فتیانہ نے اس پر اپنے ہمراہیوں کے ساتھ حملہ کر دیا اور کوڑے شاہ کے قریب راوی کے بیٹ میں برکلے اور ان کے ہمراہیوں کو قتل کر دیا ۔ اس سے انگریزوں کی نیندیں حرام ہو گئیں اور انگریزوں نے انتقامی کارروائیوں کیلئے پنجاب سپاہ کے ساتھ ساتھ وسیب کے زمینداروں ، جاگیرداروں اور گدی نشینوں کی خدمات حاصل کیںاور رائے احمد خان کھرل کے حامی چن چن کر انگریزو ںکے حوالے کئے جاتے رہے اور اس کے بدلے میں انعام و اکرام اور جاگیریں حاصل کی جاتی رہیں۔ برکلے کو بھی گوگیرہ میں دفن کیا گیا مگر آج اس کی قبر کا نشان نہیں ہے جبکہ رائے احمد خان کھرل کی قبر پر سینکڑوں لوگحاضری دیتے ہیں ۔رائے احمد خان کھرل اور مراد فتیانہ کا جہاں ذکر ہوا وہاں احمد خان کھرل سے غداری کرنے والے اور انگریزوں کی مدد کرنے والے جاگیرداروں اور گدی نشینوں کا بھی ذکر ہو گا وہاں اس بات کا بھی تذکرہ ہو گا کہ آزادی کیلئے جو شہید ہوتے ہیں وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کہ قاتل برکلے کی قبر کے نشان تو گوگیرہ میں باقی نہیں رہا مگر گوگیرہ کو آزادی کی جو سزا ملی وہ اب بھی برقرار ہے ۔ انگریزوں نے گوگیرہ کو ضلع سے یونین کونسل تک پہنچایا ۔ آزادی کے بعد بھی گو گیرہ یونین کونسل ہی ہے ۔ یہ صرف گوگیرہ کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ اس طرح کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔ ایک مثال میرے اپنے شہر خان پور کی ہے کہ خان پور ضلع تھا اور خان پور کو ریاست بہاول پور کا برمنگھم کہا جاتا تھا ۔ خان پور میں مولانا عبیداللہ سندھی نے ریشمی رومال تحریک شروع کی تو خان پور کو تحصیل اور رحیم یار خان کو ضلع بنا دیا گیا ۔ انگریز سے مزاحمت کی سزا ملتان کو بھی کہ انگریزوں نے ملتان کی صوبائی حیثیت ختم کی ۔گورے انگریز کا اقتدار ختم ہو گیا مگر حریت پسندوں کی سزا معاف نہیں کی گئی ۔آزادی کی تاریخ نئے سرے سے لکھنے کی ضرورت ہے ۔ حکمرانوں کی تاریخ جھوٹی ہے ۔اور نصاب میں بھی جھوٹ پڑھایا جاتا ہے ۔ غداروں کو ہیرو اور ہیروز کو غدار بنا دیا گیا ہے ۔ رائے احمد خان کھرل کی کہانی بھی ایسے ہے ۔ انگریز دور میں اسے غدار کہا گیا ، رائے احمد خان اور اس کی سپاہ کو جانگلی قرار دیا گیا۔ رائے احمد خان کھرل کو قتل کرنے والے اور رائے احمد کھرل کے خلاف مخبریاں کرنے والے آج بھی معزز بنے ہوئے ہیں ۔ اسمبلیوں میں بھی موجود ہیں اور ہرحکومت کے بڑے عہدوں پر بھی ہمیشہ سے موجود چلے آ رہے ہیں ۔پنجاب کے اس فرزند کی یاد میں جھوک سرائیکی کی طرف سے ہر سال یوم شہادت کی تقریب منعقد ہوتی ہے۔ آج کی تقریب میں بھی اہل دانش اظہار خیال کریں گے۔تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انگریزوں کو سب سے زیادہ مزاحمت پنجاب سے ملی،وسیب کے بعد پھر سندھ میں پیش آئی ۔ وسیب میں مولانا عبیداللہ سندھی اوروسطی پنجاب میں رائے احمد خان کھرل ہیرو کے طور پر سامنے آتے ہیںجبکہ سندھ میں سرائیکی زبان میں ’’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈٖیسوں‘‘ کا نعرہ بلند کرنے والے ہوشو شیدی کا نام سرفہرست ہے ۔ تحریک آزادی کے عظیم ہیرو رائے احمد خان کھرل 1803ء میں گوگیرہ میں پیدا ہوئے ۔ اس قبیلہ کو کھرل شاخ گوگیرہ نے آباد کیا ۔