آئینی ترامیم: کوئی حل نکالنے والا ڈھونڈ لیں!
علی احمد ڈھلوں
سیاست میں دلچسپی رکھنے والے یقینا سید شریف الدین پیر زادہ کو بھی جانتے ہوں گے، وہ پاکستان کے ذہین ترین وکیل ، وفاقی وزیر، قانونی مشیر، سفیر اور اٹارنی جنرل رہے۔ اُن کو تو اُن کے حلقہ احباب قانونی ’’حافظ‘‘ بھی کہا کرتے تھے۔انھوں نے 1940ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کے سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیے۔ پاکستان بننے کے بعد وہ ایوب خان کے دور حکومت میں 1966ء سے 1968ء تک وزیر خارجہ رہے۔وہ یحییٰ خان اور ضیا الحق کے دور آمریت میں کم و بیش 9 برس تک اٹارنی جنرل آف پاکستان رہے۔1999ء کے بعد انھوں نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو بھی مختلف مواقعوں پر قانونی مشاورت فراہم کی۔ انھوں نے متعدد اہم کیسز میں حکومت اور اہم سیاسی شخصیات کی وکالت بھی کی۔اُن کا انتقال 2017ء میں ہوا۔ اُن کے بارے میں ایک بات مشہور تھی کہ موصوف کسی نہ کسی طرح ، کسی بھی قانونی پیچیدگی کا حل نکال لیا کرتے تھے۔ موصوف نے جتنا بھی وقت سرکار کے ساتھ گزارا اُس کا 80فیصد انہوں نے ڈکٹیٹرز کو سہولیات فراہم کرتے گزارا۔ وہ جنرل یحییٰ خان کے ساتھ رہے، وہ جنرل ایوب خان کے ساتھ رہے، وہ جنرل ضیاء کے ساتھ رہے، وہ جنرل مشرف کے ساتھ بھی رہے۔جبکہ انہیں مارشل لائوں میں ہر فوجی آمر کی بیساکھی کاکام سرانجام دیتے رہے۔ لہٰذا سرکار کو آج بھی شریف الدین پیرزادہ جیسے وکیل، اٹارنی جنرل، مشیر یا وفاقی وزیر کی ضرورت ہے۔ آج جب سرکار کو آئینی ترامیم کروانی ہیں اور کوئی چارہ نہیں ۔ جب ضیاء دور میں نواز شریف اپنی سیاست کو پروان چڑھا رہے تھے تو اُس وقت شریف الدین پیر زادہ سے بھی مشاورت کیا کرتے تھے، حالانکہ اُس وقت بھی اُن کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ پاکستان میں عدلیہ نے جب بھی کسی حکومت کونظریہ ضرورت کے تحت زندگی بخشی تو ہر بار شریف الدین پیرزادہ کی حکمت عملی اور دلائل اہمیت کے حامل ہوتے اور اکثر کامیاب رہتے۔ شریف الدین پیر زادہ اب چونکہ ہمارے درمیان نہیں ہیں ۔ بات اگر ہو موجودہ آئینی ترامیم کے حوالے سے تو اس وقت عدلیہ میں اچھی خاصی کھچڑی پکی ہوئی ہے، ابھی گزشتہ روز ہی آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا جس کے بعد آئینی ترامیم کی راہ ہموارہوگئی اور اب منحرف رکن کا ووٹ شمار ہوگا۔ اس پر تحریک انصاف احتجاج کا ارادہ رکھتی ہے، مگر اُس کے لیے اسلام آباد کو قلعہ بند کر دیا گیا ہے۔ واپس آتے ہیں آئینی ترامیم کی طرف تو حکومت سے دست بستہ گزارش ہے کہ حضور سیدھا سیدھا وہ کیجیے جو ضیا الحق جیسے حکمرانوں نے کیا تھا، یعنی آئین کو ایک طرف رکھیے اور اپنی مرضی کیجیے۔ ان جھمیلوںسے نکلنے کے لیے سیدھا سیدھا کام کیجیے کہ کسی شریف الدین پیرزادہ کو ڈھونڈ نکالیے۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ آئینی ترامیم میں کچھ باتیں ٹھیک ہیں، مگر یہ وقت درست نہیں ہے۔ ایک آئینی عدالت ہونی بھی چاہیے جو صرف آئینی معاملات کو دیکھے، اس سے ہمارا بہت سا وقت بچ جائے گا، عدالتوں میں زیر التواء مقدمات میں کمی آئے گی، لیکن اس وقت ابہام یہ ہے کہ یہ عدالت کے لیے نہیں، نہ ہی عوام کے لیے بلکہ یہ ’’25اکتوبر‘‘ کے لیے ہو رہا ہے۔ بلکہ اتنے زیادہ مسائل کے بعد تو قاضی صاحب کو خود ہی استعفیٰ دے دینا چاہیے، اور اعلان کرنا چاہیے کہ وہ آئندہ کسی سرکاری عہدے کے مجاز نہیں ہوں گے۔ اور نہ ہی کسی آئینی عدالت کا سربراہ ہوں گا۔ اورپھر یہ بات بھی مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ یہ لوگ سینئر موسٹ سے کیوں بھاگ رہے ہیں۔ حالانکہ ابھی ہم اتنے قابل نہیں کہ ہم بھی امریکا کی طرح ججز کی سلیکشن کرکے اُنہیں عدلیہ کا سربراہ بنا سکیں۔ کیوں کہ ہماری جمہوریت کو میچور ہونے میں ابھی خاصا وقت درکار ہے۔کیا آپ میری اس بات سے اتفاق نہیں کریں گے؟ کہ آئینی ترامیم کے بعد جو بھی جج وزیر اعظم کی طرف سے لگایا جائے گا، وہ ٹھیک ہوگا، یہاں تو وزیر اعظم ہی غلط طریقے سے منتخب ہوکر حکومت کا حصہ بنتے ہیں تو وہ کیسے ممکن ہے کہ عدلیہ کے سربراہ کی تقرری میرٹ پر کرے۔ لہٰذ ااس ترمیم کو رہنے دیں، اور سینئر موسٹ کو ہی آگے آنے دیں۔ یہ بات برملا کہتا ہوں کہ ایکسٹینشن اور بعد از ریٹائرمنٹ نوکری بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ بہرکیف عدلیہ کو چلنے دیں، پہلے ہی ہم انصاف کرنے والے ممالک دنیا بھر میں 144ویں نمبر پر ہیں، اب آگے پتہ نہیں کہاں جانا ہے، عدلیہ کے حوالے سے تاریخ کا ایک بڑا مشہور قول ہے کہ دوسری جنگ عظیم جاری تھی اور جرمن جہازوں کے حملوں سے بہت سا جانی نقصان بھی ہو رہا تھا اور ہسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے تھے ان ابتر حالات میں ایک شخص نے ملکی صورت حال پر پریشانی کا اظہار کیا توچرچل نے پوچھا،’’کیا ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں‘‘۔ اسے بتایا گیا کہ عدالتوں میں جج موجود ہیں اور لوگوں کو انصاف فراہم کر رہے ہیں۔ چرچل نے کہا کہ رب کا شکر ہے، جب تک عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں کچھ غلط نہیں ہو سکتا۔ مشکل حالات میں جج حضرات یا تو تاریخ کو دھراتے ہیں یا پھر تاریخ رقم کرتے ہیں۔لیکن پاکستان میں ہر ایک یہی سوال کر رہا ہے کہ ہمیں کیانصاف ملتا ہے۔ کیا ہماری عدالتیں انصاف دے رہی ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر پاکستانی کے ذہن میں بھی گردش کرتا ہے۔ ہمارے نظام انصاف میں ایک اور خوبی بڑی نمایاں ہے۔ کوئی بااثر آدمی یا کوئی مالدار آدمی عدالت سے رجوع کرے، تو انصاف کے دروازے اس کے لئے فوراً کھل جاتے ہیں۔ چند دنوں میں وہ اپنا مقصد پا لیتا ہے۔لیکن عام عوام کے لیے میں یہی کہوں گے کہ فی الحال عدالتی نظام جام ہے،،، جسے کھولنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ ہوش کے ناخن لیں، اور کم از کم عدلیہ کو ’’سیاسی‘‘ ہونے سے بچالیں، اسی میں سب کی بھلائی ہے! آئینی ترامیم سے بھی زیادہ اس وقت عام آدمی کے بارے مین سوچنے اور اس کی مشکلات کم کرنے اورالتوا میں پڑے زیادہ سے زیادہ مقدمات کو نمٹانے کی ضرورت ہے۔ ملک اس وقت بھاری قرضوںکے بوجھ تلے دبا ہوا ہے ، اس سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ قومی معاملات میں پائے جانے والے سیاسی عدم اتفاق و عدم استحکام کو استحکام و اتفاق میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ خدا را اس طرف توجہ دیجئے تاکہ ملک ترقی کرے ، آج بھی ہم سیاسی لحاظ سے وہیں کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے۔