آئینی ترمیم اور سود : حقیقت کیا ہے؟
آصف محمود
اطراف میں رجز پڑھے جا رہے ہیں کہ اب چونکہ مولانا نے آئینی ترمیم میں یہ بات شامل کروا لی ہے کہ 2028ء تک سود کا خاتمہ کیا جائے گا اس لیے اب مقررہ مدت میں سود ختم ہو جائے گا اور اور ایسا نہ ہوا تو حکومت کے خلاف عدالت سے رجوع کر کے اسے پابند کروایا جائے گا کہ آئین کے مطابق حکومت سے عمل کرواتے ہوئے سود کا مکمل خاتمہ کروائے ۔خیال خاطر احباب اپنی جگہ لیکن حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ترمیم آئین کے باب نمبر 2 میں کی گئی ہے۔یعنی عملی طور پر اس ترمیم کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔ یہ باب نمبر 2 کیا ہے ، پہلے اس کو سمجھ لیجیے۔یہ اقوال زریں کا ایک مجموعہ ہے ، اور آئین کا حصہ بھی ہے لیکن خود آئین کے مطابق اس حصے پر عمل کرنا ضروری نہیں ۔ اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں آئین شکنی کا مقدمہ نہیں بن سکتا۔اسے آپ چاہیں تو آئین کا کمتر حصہ قرار دے سکتے ہیں۔ اس کی خلاف ورزی یا پامالی پر آرٹیکل 6 نہیں لگ سکتا۔ آرٹیکل 6 تو کیا اس حصے کی خلاف ورزی یا پامالی پر 6 روپے کا جرمانہ بھی نہیں ہو سکتا ۔ آئین کے اس پر عمل کرنا ہے یا نہیں اور کس حد تک کرنا ہے اس کا فیصلہ متعلقہ اتھارٹی کرے گی۔ اور جو فیصلہ وہ کر دے وہی درست ہو گا۔ آئین کے اس حصے کی مجال نہیں کہ کسی اتھارٹی کے فیصلے کی حیثیت کو جانچ سکے۔ آئین کے اس حصے کو اتھارٹی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ معمولی سا قانون بھی بنتا ہے تو اس پر عمل در آمد لازمی ہوتا ہے۔ عمل نہ کرنے کی صورت میں نتائج بھگتنا ہوتے ہیں ۔لیکن آئین کے اس حصے کے بارے میں خود آئین کے اندر ہی لکھ دیا گیا ہے کہ اس پر عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں کچھ بھی نہیں ہو گا۔آئین کا آرٹیکل 30 بڑا دل چسپ ہے۔ اس میں چند اصول وضع کیے گئے ہیں۔ پہلا اصول یہ ہے کہ اگر حکومت یا اس کا کوئی ادارہ ، کوئی افسر کوئی ایسا کام کرتا ہے جو آئین کے باب نمبر 2 میں دیے گئے اصولوں کے مطابق نہ ہو تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکے گا۔کوئی یہ نکتہ نہیں اٹھا سکے گا کہ یہ کام آئین کے باب نمبر 2 میں دیے گئے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ ریاست کے کسی شعبے ، کسی اتھارٹی ، کسی افسر کے خلاف اس بنیاد پر کوئی قانونی کارروائی نہیں ہو گی کہ اس نے آئین کے باب نمبر 2 میں دیے گئے اصولوں کے مطابق کام نہیں کیا ۔کوئی عدالت ایسا کوئی مقدمہ نہیں سن سکے گی۔ اس طرح کے مقدمے ناقابل سماعت ہوں گے۔ ان کی سماعت نہیں کی جائے گی۔ جب یہ اصول طے ہو گئے کہ ان پر عمل در آمد کی کوئی خاص ضرورت نہیں اور ان پر عمل نہ کرنے کی صورت میں کسی قانونی کارروائی کی کوئی گنجائش نہیں تو پھر ’’ اکابرین‘‘ نے ایوان میں بیٹھ کر بڑی فراخدلی سے 73 کا آئین بنایا اور باب نمبر 2 کو اقوال زریں سے بھر دیا ۔ ذرا چند اقول زریں پڑھیے اور سر دھنیے: ارشاد ہوا کہ ایسے اقدامات کیے جائیں گے جن سے پاکستان کے شہری انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی قرآن و سنت کے مطابق ڈھال سکیں اور قرآن و سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔ فرمایا گیا کہ قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم لازمی ہو گی۔ لکھا گیا کہ عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔اعلان ہوا کہ زکواۃ ، عشر ، اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کیا جائے گا۔اور یہ بھی فرمایا گیا کہ سود ( ربا) کو جتنی جلد ممکن ہو ختم کیا جائے۔ جب طے ہو چکا کہ عمل ہی نہیں کرنا اور عمل نہ کرنے پر کوئی سزا ہی نہیں کوئی کاروائی ہی نہیں تو ’ اکابرین‘ نے کمال فراخدلی سے مذہبی ، سماجی ، تہذیبی اقوال زریں سے اس باب کو بھر دیا ۔ یہ باب نمبر2 آئین ساز اکابرین کا 1973ء میں دیا گیا اسلامی ٹچ ہے تا کہ نیم خواندہ معاشرے کو یہ یقین دلایا جاسکے کہ ہم نفاذ اسلام کے لیے کتنے مخلص ہیں۔ عوام کو انکل یعنی ماموں بنانے کے بعد آئین ساز اکابرین بقلم خود نے وہیں آئین کے اندر لکھ دیا ہے کہ ان اقوال زریں پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس باب میں سود کی ممانعت کی بات پہلی بار شامل نہیں کی گئی ۔ یہ بات وہاں پہلے سے ہی موجود ہے اور آرٹیکل 38 ڈی میں لکھا ہے کہ جلد از جلد سود کا خاتمہ کیا جائے گا ۔ ’ ایز ارلی ایز پاسبل ‘‘ ۔یہاں ایک اور اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اس باب میں آرٹیکل 38 ڈی میں پہلے ہی یہ لکھا ہوا کہ جتنی جلدی ممکن ہو، سود کا ختم کیا جائے گا تو اب اس کے خاتمے کے لیے 2028 ء تک کی مزید آئینی مہلت عطا فرمانا کہاں کی حکمت ہے؟ اس شق کے اضافے سے اپنے کارکن کو تو مطمئن کیا جا سکتا ہے لیکن دلیل کی دنیا میں اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ نہ ہی کوئی ضرورت ۔ جلد از جلد کو مزید چار سال سے بدل کر اس پر رجز پڑھنا ، یہ ہماری ہی سیاست کے کمالات ہیں ۔ ناقابل عمل اقوال زریں میں جلد از جلد لکھا ہو یا 2028ء لکھا ہو ، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ باب نمبر 2 میں اگر یہ بھی لکھ دیا جاتا کہ 4 دن بعد سود ختم کر دیا جائے گا تب بھی اس کی کوئی اہمیت نہ ہوتی۔ اہمیت تب ہوتی جب یہ بات آئین کے کسی ایسے باب میں لکھی جاتی جس پر عمل در آمد نہ ہونے کی صورت میں کم از کم کسی قانونی چارہ جوئی کا تو امکان ہوتا ۔ مولانا نے اگر اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ چیز شامل کروانا ہی تھی تو اسے باب نمبر 2 کی بجائے کہیں اور شامل کروا لیتے تا کہ اس کی کوئی حیثیت تو ہوتی۔ یہ بات آرٹیکل 2 میں بھی شامل کی جا سکتی تھی اور باب نمبر 9 میں بھی ۔ باب نمر 9کا تو عنوان ہی ’’ اسلامی احکام ‘‘ ہے ۔ سود کے خاتمے کی بات اگر ا باب میں شامل کروا لی جاتی تو اس کی کچھ اہمیت اہمیت ہوتی۔اس آئینی ترمیم کے موقع پر مولانا فضل الرحمن کا کردار غیر معمولی ہے ۔تاہم چیزوں کی ترتیب درست رہنی چاہیے اور بات جتنی ہو اتنی ہی کہنی چاہیے۔ ٭٭٭٭