2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

آئی ایم ایف کا کرپشن ختم کرنے کا مطالبہ

14-10-2024

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔حال ہی میں پاکستان کے لئے سات ارب ڈالر کا قرض پیکج فراہم کرنے والے عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان میں حکومتی بدانتظامی کی نشاندہی کرتے ہوئیکہا ہے کہ کرپشن کیسز میں سیاسی مقاصد کے لیے ہراساں کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں قومی احتساب بیورو (نیب) کو مزید خود مختار بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ احتساب کے لیے نیب کو مزید موثر بنایا جائے۔ پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے لیے تفتیشی نظام کو بہتر بنایا جائے۔عالمی ادارے نے اپنے تجویز کردہ اقدامات پر عمل درآمد کی مہلت واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ جون 2025 تک کرپشن کے خاتمے کے لیے ایکشن پلان بنایا جائے۔آئی ایم ایف نے رپورٹ میں مطالبہ کیا کہ کرپشن کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کی روشنی میں جائزہ رپورٹ تیار کی جائے، انسداد بدعنوانی کے مقدمات میں حکومتی اداروں کی کمزور قانونی صلاحیت کو بہتر بنایا جائے۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے یہ بھی کہا ہے کہ تمام سرکاری اہلکاروں کے اثاثوں کی معلومات تک رسائی کو آسان بنایا جائے،سرکاری افسران کے اثاثوں کو غیر قانونی طور پر بڑھنے سے روکا جائے اور اہلکاروں کے اثاثوں و آمدن کے گوشوارے منظر عام پر لائے جائیں۔آئی ایم ایف نے مزید کہا کہ فروری تک سرکاری افسران اور ارکان پارلیمنٹ کے اثاثے پبلک کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے، تمام سرکاری افسران کے اثاثوں کو پبلک کرنے کے لیے فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) کو ڈیجیٹل کیا جائے۔آئی ایم ایف کے تجویز کردہ ایکشن پلان کے جواب میں حکومت نے سول سروس ایکٹ میں ترمیم کرکے گریڈ سترہ سے گریڈ بائیس تک کے تمام افسران کے اثاثے ظاہر کرنا لازمی قرار دینے کا اعلان کیا ہے۔حکومت نے بتایا ہے کہ نیب کو موثر بنا کر کرپشن کے خلاف کارروائی نتیجہ خیز بنائی جائے گی۔ دنیا کاکوئی ملک کرپشن سے محفوظ نہیں۔ذاتی فائدے کے لیے سرکاری عہدے کا غلط استعمال حکومت اور اداروں پر لوگوں کے اعتماد کو ختم کرتا ہے، عوامی پالیسیوں کو کم موثر اور غیر منصفانہ بناتا ہے۔کرپشن ٹیکس دہندگان کے پیسے کو سکولوں، سڑکوں اور ہسپتالوں پر خرچ کرنے کی بجائے بااثر افراد کی ذاتی جیب میں منتقل کر دیتی ہے۔کرپشن کی نذر ہونے والی رقم پاکستان جیسے ملک کے لئے بہت سنگین مسئلہ ہے جہاں اس کا حجم پانچ ہزار ارب روپے سالانہ سے کہیں زیادہ ہے۔ بدعنوانی معیشت کو ترقی دینے کی حکومتی صلاحیت کو برباد کر دیتی ہے ۔اس کی وجہ ریاست کے شہریوں کے درمیان مساوی سلوک برقرار نہیں رہتا۔کرپشن بالا دست طبقے کا ہتھیار بن جاتی ہے جبکہ نچلے طبقات استحصال کا شکار ہو جاتے ہیں۔مضبوط اور شفاف اداروں کی تعمیر کا سیاسی عزم کرپشن کے خلاف اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارہ کرپشن کے خاتمے کے لئے رکن ممالک کو مدد دیتا ہے ۔پاکستان کو بھی یہ تعاون فراہم کیا جاتا رہا ہے لیکن حکومتی سطح پر ارادہ نہ ہونے سے یہ تعاون مفید ثابت نہ ہو سکا۔مالیاتی مانیٹر کے طریقہ کار میں مالیاتی اداروں اور پالیسیوں پر روشنی ڈالتے ہیں، جیسے ٹیکس ایڈمنسٹریشن یا پروکیورمنٹ کے طریقوں اور یہ دکھاتے ہیں کہ وہ کس طرح بدعنوانی سے لڑ سکتے ہیں۔آئی ایم ایف نے 180 سے زیادہ ممالک کا تجزیہ کرنے کے بعد قرار دیا ہے کہ زیادہ بدعنوان ممالک کم ٹیکس جمع کرتے ہیں، کیونکہ لوگ ان سے بچنے کے لیے رشوت دیتے ہیں، بشمول کک بیکس کے ۔ اس کے علاوہ، جب ٹیکس دہندگان کو یقین ہے کہ ان کی حکومتیں بدعنوان ہیں تو ان کے ٹیکس ادا کرنے سے بچنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔جائزے بتاتے ہیں کہ مجموعی طور پر، سب سے کم بدعنوان حکومتیں جی ڈی پی سے 4 فیصد زیادہ ٹیکس ریونیو ی مدمیں اکٹھا کرتی ہیں، ان ممالک کے مقابلے میں جہاں معاشی ترقی کی اسی سطح پر بدعنوانی کی بلند ترین سطح ہے۔چند ممالک نے اصلاحات متعارف کروا کر اس سے بھی زیادہ آمدنی حاصل کی۔ مثال کے طور پر جارجیا نے بدعنوانی کو نمایاں طور پر کم کیا اور ٹیکس کی آمدنی دوگنی سے بھی زیادہ ہوگئی۔ 2003 اور 2008 کے درمیان جی ڈی پی کے 13 فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔ 1990 کی دہائی کے وسط سے بدعنوانی سے لڑنے کے لیے روانڈا کی اصلاحات کا نتیجہ نکلا اور ٹیکس محصولات میں جی ڈی پی کے 6 فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔ OECD انسداد بدعنوانی کنونشن کے تحت 40 سے زائد ممالک پہلے ہی اپنی کمپنیوں کے لیے بیرون ملک کاروبار حاصل کرنے کے لیے رشوت دینا جرم بنا چکے ہیں۔کوئی ملک جارحانہ طور پر منی لانڈرنگ مخالف سرگرمیوں کو بھی آگے بڑھا سکتا ہے اور غیر ملکی مالیاتی نظام میں بدعنوانی کی رقم چھپانے کے بین الاقوامی مواقع کو کم کر سکتا ہے۔بدعنوانی پر قابو پانا ایک چیلنج ہے جس کے لیے بہت سے محاذوں پر ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہے، لیکن ایک ایسا چیلنج جو بہت زیادہ منافع دیتا ہے اس کا آغاز سیاسی عزم سے ہوتا ہے، سالمیت اور احتساب کو فروغ دینے کے لیے اداروں کو مسلسل مضبوط کرنا اور عالمی تعاون مربوط بنانا۔پاکستان معیشت کی بحالی کے لئے سر توڑ کوششیں کر رہا ہے۔عسکری قیادت سیاسی قیادت کو سپیشل انوسٹ منٹ فیسلی ٹیشن کونسل کی شکل میں معاونت فراہم کر رہی ہے۔ ملک میں نیب جیسا ادارہ ہے۔حکومت کو آگے بڑھ کر صرف میرٹ پر انسداد بد عنوانی کا نظام رائج کرنا ہے،طاقتور بد عنوان کو سزا دینا ہو گی ۔اس کے بعد معیشت ترقی کرے گی اور کئی دوسرے بحران بھی خود بخود دم توڑ جائیں گے۔