آہ اسلم انصاری
سعد الله شاہ
کیا سروکار ہمیں رونق بازار کے ساتھ ہم الگ بیٹھے ہیں دست ہنر آثار کے ساتھ کوئی نکتے سے لگاتا چلا جاتا ہے فقط دائرے کھینچتا جاتا ہوں میں پرکار کے ساتھ آج تذکرہ ہے کہ کچھ شاندار یادوں کا کہ وابستہ ہیں اک نہایت باوقار اور باکمال شاعر اور دانشور سے کہ جنہیں دنیا اسلم انصاری کے نام سے ہمیشہ یاد رکھے گی۔ مسکن تو ان کا ملتان رہا جلوے مگر انہوں نے لاہور کے ادبی حلقوں میں بکھیرے۔ان کا پہلا حوالہ جو ہمارے لئے حرزماں بنا وہ ان کی معروف غزل کے اشعار تھے: میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں حادثہ کیا تھا جسے اس نے بھلایا بھی نہیں وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا تونے منہ پھیر کے جس شخص کو بھی دیکھا بھی نہیں ایک ورق ہماری ڈائری میں بھی ہے کہ جب صاحبزادہ خورشید گیلانی کا انتقال ہوا تو ملتان میں ہونے والے تعزیتی ریفرنس میں سید ارشاد احمد عارف‘عمران نقوی اور راقم بھی گئے۔ تب اسلم انصاری صاحب نے ہمیں اپنی رہائش گاہ پر مدعو کیا۔ ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات حافظے کا حصہ ہیں۔ ایک اور یاد یہ کہ جناب خالد احمد نے ہمیں ان کے مشہور شعر کی طرح وہی غزل کہنے کے لئے۔وہ شعر ہے: دیوار خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے میں کوئی تدریسی مضمون نہیں لکھوں گا۔ اسلم انصاری صاحب کے حوالے سے ہمارے پیارے دوست عقیل روبی بہت کچھ بتاتے تھے کہ ان کی دوستی ناصر کاظمی سے ہوا کرتی تھی وہ دور ادب و شاعری کا زیریں دور تھا۔ انہوں نے اردو میں ایم اے کیا لیکن اس سے پیشتر خود انہوں نے بتایا کہ انہوں نے پہلی فارسی غزل انٹر میں کہی تھی اور ان کے استاد تاج محمد خاں نے سنی تو حیران ہوئے اور اس سے بھی زیادہ تعجب خود اسلم انصاری کو ہوا کہ اگلے روز ان کے استاد وہ غزل بلیک بورڈ پر لکھ کر طلبہ کو سمجھا رہے تھے۔ خیر فارسی میں انہوں نے ایم اے کر لیا۔ فارسی میں اسلم انصاری صاحب کا اتنا کام ہے کہ ایران کی ایک یونیورسٹی میں ان کے نام سے ایک چیئر بھی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب گورنمنٹ کالج کے مشاعرہ میں انہوں نے غزل پڑھی تو ان کا تعارف خوشبو کی طرح پھیل گیا۔ خوشیو کا اضافہ میں نے کیا ہے اشعار تھے: نکہت گیسوئے دلدار کہاں بکھری ہے پوچھتا ہوں تو صبا خاک اڑا دیتی ہے کون ہوتا ہے شریک غم ہستی اے دوست ڈالی بھی سوکھے ہوئے پات گرا دیتی ہے میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اسلم انصاری صاحب کا اقبال پر بہت کام ہے اور اس حوالے سے ان کی کئی کتب بھی آ چکی ہیں۔مثلاً اقبال عہد ساز شاعر اور مدبر وغیرہ۔انہوں نے سرائیکی میں بھی کام کیا ان کا سرائیکی میں ایک ناول بھی ہے۔بیٹری وچ دریا۔ وہ تدریس سے وابستہ رہے اور آرٹس کونسل ملتان کے ڈائریکٹر بھی رہے۔انہیں تمغہ امتیاز اور تمغہ حسن کارکردگی مل چکا ہے مگر وہ تو ان تمغات سے بہت آگے کے آدمی ہیں۔ان پر ان ہی کا ایک شعر یاد آیا: شدت تلخی حالات بڑھا دیتی ہے آگہی درد کے شعلوں کو ہوا دیتی ہے ان کے اردو کلیات بھی شائع ہو چکے ہیں فارسی بھی۔میں چاہوں گا کہ ان کا کلام آپ تک پہنچے: کچھ دیر تجھے ہم نے بھلائے رکھا دل نے پہلو میں مگر حشر اٹھائے رکھا ان کی لازوال نظم کی چند سطور دیکھیے: گوتم کا آخری واعظ مرے عزیزو مجھے محبت سے تکنے والو مجھے عقیدت سے سننے والو مرے شکستہ حروف سے اپنے من کی دنیا بسانے والو مرے الم آفریں تکّلم سے انبساطِ تمام کی لازوال شمعیں جلانے والو بدن کو تحلیل کرنے والی ریاضتوں پرعبور پائے ہوئے،سکھوں کو تجے ہوئے بے مثال لوگو حیات کی رمزِ آخریں کو سمجھنے والو، عزیز بچّو، میں بجھ رہا ہوں مرے عزیزو، میں جل چکا ہوں مرے شعورِ حیات کا شعلہ ئے جہاں تاب بجھنے والا ہے مرے کرموں کی آخری موج میری سانسوں میں گھل چکی ہے میں اپنے ہونے کی آخری حد پہ آگیا ہوں تو سن رہے ہو، مرے عزیزو، میں جا رہا ہوں میں اپنے ہونے کا داغ آخر کو دھو چلا ہوں کہ جتنا رونا تھا، رو چلا ہوں اس نظر سے ان کی شاعری کی گیرائی اور گہرائی ہم پر کھلتی ہے۔انہوں نے سچ مچ وہ سفر کیا جو ایک قطرہ نساںمیں قناعت کر کے گہر بننے تک کا کرتا ہے۔ وہ 85سال کی عمر میں رخصت ہوئے یعنی ان کا تخلیقی دورانیہ بہت طویل اور باثمر ہے: آپ بھی پوچھ نہ پائے کہ تمنا کیا ہے ورنہ درماندہ آلام کی دنیا کیا تھی