ایئر مارشل اصغر خان کیس کی فائل داخلِ دفتر
مجاہد بریلوی
ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغرخان کا سال گزشتہ انتقال ہواتو انہی کا لموں میں لکھا تھا کہ ’ایئر مارشل اصغر خان کی زندگی کی فائل بند ہوگئی مگر انہوں نے اپنی زندگی میں 24سال پہلے پاکستانی سیاست میںکرپشن کا جو مشہور زمانہ مقدمہ دائر کیا تھا اس کی فائل اب بھی کھلی ہے‘۔چلیں پاکستان کی سویلین پرائم انوسٹی گیشن ایجنسی ایف آئی اے کو دونوں ہاتھوں سے تالیاں بجا کر خراج عقیدت پیش کیا جائے کہ انہوں نے ببانگ دہل بغیر کسی لگی لپٹی ایپکس کورٹ میں یہ درخواست جمع کرادی کہ مستند اور مضبوط شواہد نہ ملنے کے سبب فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی المعروف ایف آئی اے اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس کیس کی فائل بند کردی جائے۔ منیر نیازی کیا خوب کہہ گئے۔۔۔ کتابِ عمر کا اک اور باب ختم ہوا شباب ختم ہوا، اک عذاب ختم ہوا وطن عزیز میں بہر حا ل یہ کوئی ایسا پہلا کیس یا معروف معنوں میں مقدمہ نہیں جو ریاستی اداروں اور ان کی بے ساکھیوں پر چلنے والی حکومتوں نے بڑے زور و شور سے اپنے اپنے مخالفین پر قائم کیا ہو اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ وہ تاریخ کے ڈسٹ بن میں نہ چلا گیا ہو۔بلوچستان اور اس وقت کے صوبہ سرحد اور ایک حد تک سندھ کے قوم پرستوں پر چلنے والے سازشی مقدمات کی ایک پوری تاریخ ہے۔جنہیں نئے پاکستان کے معماروں کو ہمارے تعلیمی نصاب میں شامل کرنا چاہئے کہ یہ آئندہ نسلوں کے کام آئے کہ اور کچھ نہ کر سکیں تو کم ازکم درس ِ عبرت تو ضرور حاصل کر لیں۔ایئر مارشل اصغرخان کے نام سے منسوب مقدمے کی تفصیل میں جانے سے پہلے ذرا اس بہانے اُن مشہور زمانہ کیسز اور سازشی مقدمات کی بھولی بسری ہوشربا داستانوں کی یادیںتازہ کرلوں کہ جو بعد میں ہمارے ریاستی اور جمہوری اداروں کو کھوکھلا کرنے کا باعث بنیں۔بدقسمتی سے قیام پاکستان کے ابتدا ئی دنوں میں بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی میں ہی اُن کے کھوٹے سکوں نے اپنے اقتدار کے شکنجے کسنے شروع کردئیے تھے۔ان کی اکثریت انگریز کے پروردہ ملازموں ،نوابوں ،سرداروں اورموقع پرستوں پر مشتمل تھی۔اور پھر صرف سال بھر بعد ہی بانی ٔ پاکستان کی وفات کے بعد ان کا راستہ صاف ہوگیا۔مستند مورخین کا کہنا ہے کہ اگربھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی طرح قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی صرف آٹھ،دس سال اور مل جاتے تو نہ صرف یہاں آئینی اداروں کی بالا دستی ہوتی بلکہ وہ 22اورپھر22سو بلکہ22ہزار نو دولتیے بھی نہ ہوتے جنہوں نے آج پاکستان کو ایک ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ دنیا بھر کی انڈیکس میں جس شعبے میں چلے جائیں191ملکوں میں ہمارا ملک 150ویں نمبر کے آ س پاس ہی ہوتا ہے۔کیا تعلیم اور صحت ،کیا کرپشن اور انسانی حقوق کی پامالی۔۔۔آج ہمارے محترم وزیر اعظم عمران خان اور اُن کی ٹیم بڑی پر جوش نظر آتی ہے کہ وہ ہفتوں ،مہینوں میں وطن عزیز کو صف اول میںکھڑا کردے گی۔اُن کی ان نیک خواہشات کا احترام اپنی جگہ مگر خان صاحب یہ قصہ برس دو برس کا نہیں ۔۔۔ 70سے اوپر برس کا ہے۔اور پھر یہ سازشی سویلین ملٹری بیوروکریٹ اور جاگیر دار ،سرمایہ دار اتنے ذہین و فطین ہیں کہ انہیں ہر حکومت میں چاہے وہ کتنی ہی پاکیزگی کا دعویٰ کرے۔۔۔نقب لگانے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔اسکرین پر اکثر میں محترم عمران خان صاحب کو وزارت عظمیٰ کی آرام دہ گھومتی کرسی پر پاؤں پر پاؤں رکھے کابینہ اجلاسوں کی صدارت کرتے دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ کیا ہمارے محترم وزیر اعظم اپنے ارد گرد بیٹھے ان وزیروں،مشیروں کو جانتے پہچانتے نہیں یا پھر ماضی کے حکمرانوں کی طرح انہوں نے بھی ماضی کے کرپٹ سسٹم کے ان مہروں کو تسلیم کرلیا ہے۔یہ لیجئے ،ذرا اپنے وزیر اعظم خان صاحب سے پرانے روابط کے سبب ذرا زیادہ ہی قلم تیز کربیٹھا۔اور اُن سازشی مقدمات کو صرفِ نظرکرگیا کہ جن کا آغاز قیام پاکستان کے بعد ہی سے شروع ہوگیا تھا۔قیام پاکستان کے بعد جو پہلی دستور ساز اسمبلی قائم ہوئی ۔اُس کی بنیاد انگریزوں کا 1935ء ایکٹ ہی تھا۔آزادی کے نو سال بعد یعنی 1956ء میں پہلے عام انتخابات بھی ہوئے تھے۔مگر اس کی جگہ سویلین ،ملٹری بیوروکریٹس اور جنرلوں کا ٹولہ جو قائد اعظم کی آنکھ بند ہوتے ہی اپنی محلاتی سازشوں کا آغاز کرچکا تھا۔۔۔ اس بات کے لئے قطعی تیار نہ تھا کہ وہ ایک ایسی عوامی پارلیمنٹ وجود میں آنے دے جو آزاد اور بالا دست ہو۔سووطن عزیز میںقیام پاکستان کے 11سال بعد نہ تو آئین بن سکا اور نہ ہی عام انتخابات کے نتیجے میں پارلیمنٹ وجود میں آسکی ۔ہاں ،ایک چیختا چنگھاڑتا مارشل لاء ضرور آگیا۔ ۔ ۔ جس نے ایک دہائی تک جمہوری اداروں اور جمہوریت کو فارغ کردیا۔اور یہ عمل ایک با ر نہیں ،دو سری بار ،یعنی جنرل ضیاء الحق کا دس سالہ مارشل لاء ، بلکہ تیسری بار یعنی صدر جنرل پرویز مشرف کے دہائی اوپر مارشل لاء کی صورت میں ہوا۔ایک مختصر سا وقفہ بھٹو صاحب کا ضرور کہہ سکتے ہیں مگرانکے دور میں بھی حیدر آبادسازش کیس جیساآئین سے بالا تر مقدمہ چلا جس سے جمہوری ادارے تو کمزور ہوئے ہی لیکن ریاستی اداروں کی بالا دستی بھی لوٹ آئی۔جہاں تک ایئر مارشل اصغرخان کے کیس کا تعلق ہے تو اس سے پہلے اس سے بھی زیادہ سنگین نوعیت کے مقدمات بڑے زور شور سے چلے ۔ ۔ ۔ مگر اپنے منطقی انجام کو پہنچے بغیرہی ختم کردئیے گئے۔یوں تو ایک لمبی فہرست ہے۔مگر خاص طور پر میں 1951ء کے پنڈی سازش کیس کا ذکر کروں گا۔ ۔ ۔ کہ جس میں ملوث ملزمان کو پھانسی تک دینے کی سفارش کی گئی تھی ۔مگر بعد میں یہی ملزمان بڑے بڑے حکومتی اداروں میں اہم عہدوں پر فائز ہوئے۔دوسرا بڑا مقدمہ حید ر آباد سازش کیس کا تھا جو بھٹو صاحب کے دور میں چلا مگر اس میں ملوث کالعدم نیشنل عوامی پارٹی کے قائدین نے بھی بعد کے برسوں میں وزیروں ،مشیروں کے تاج پہنے۔سابق مشرقی پاکستان میں اگر تلہ سازش کیس کی بھی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جس کا بڑا مجرم شیخ مجیب الرحمان اُس مقدمے کے ہوتے ہوئے بھی ایک فاتح کی حیثیت سے آزاد کردیا گیا۔ بھٹوصاحب کا مقدمہ بھی جوڈیشل مرڈر کہلاتا ہے۔ ۔ ۔ کہ بعد میں ان کی بیٹی سمیت ان کے وارثان وزارت عظمیٰ سمیت اہم عہدوں پر فائز ہوئے۔اس سارے پس منظر میں اگر ایئر مارشل اصغر خان کا کیس دیکھا جائے تو وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک مختلف مقدمہ ہے۔اورمیر ی ذاتی رائے میں جسےmother of all corruptionsبھی کہا جاسکتا ہے جس میں باقاعدہ اس وقت کے صدر مملکت غلام اسحاق خان ، آرمی چیف جنرل اسلم بیگ ، جنرل اسد درانی پر الزام لگا کہ انہوں نے اپنی مرضی کی منتخب پارلیمنٹ لانے کے لئے سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے تقسیم کئے۔اس کیس کی تفصیلات اتنی ہولناک ہیں کہ جن سے سرسری نہیں گذرا جاسکتا ۔اور اسی لئے اس کو آئند ہ کے لئے اٹھا رکھتا ہوں۔ کہ ایئر مارشل اصغرخان کیس میں بات کروڑوں روپوں تک پہنچی تھی مگر شریفوں اور زرداریوں کے کیسوں میں بات اربوں،کھربوں روپوں تک جا پہنچی ہے۔ (جاری ہے)