2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

ایک نقطہ ِنظر

اشرف شریف
24-09-2024

میری ایک صاحب سے بڑی دیر سے سلام دعا ہے۔وہ مجھے سلام نہیں کرتا اور میں اسے دعا نہیں دیتا مگر ہماری دوستی کی گاڑی چل رہی ہے۔کافی دنوں سے ہمارے مابین کچھ تلخی در آئی ہے۔اس کی وجہ ہمارے نزدیک اس دوست کا جذباتی ہونا اور ایک شعبے کو حد سے زیادہ مقدس سمجھنا ہے۔ہوا یوں کہ دوران گفتگو میں نے جدید تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے عدل کے شعبے کی پرائیوٹائزیشن کی تجویز دے دی۔وہ دوست پہلے تو آگ بگولہ ہو گئے اور اس موضوع پر مزید بات کرنے سے انکار کر دیا۔میں نے اسے سمجھانے کے انداز میں بتایا کہ یہ کوئی انہونی تجویز نہیں اور دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں اس کا تجربہ ہو بھی چکا ہے اور ہو بھی رہا ہے۔اس کے خوشگوار نتائج برآمد بھی ہوئے ہیں۔ یوں اس کا غصہ تھوڑا سا ٹھنڈا ہوا اور وہ بات سننے کو تیار ہوا۔میں نے اسے بتایا کہ نجکاری کا بنیادی مقصد شعبے کی کارکردگی کی بڑھوتری اور اس کی افادیت میں اضافہ اور کام میں تیزی بنیادی نقطہ ہے اور کہا کہ عدلیہ کی نجکاری ایک پیچیدہ اور متنازعہ مسئلہ ہے۔ اس کے حق میں اور خلاف کچھ دلائل دیے جا سکتے ہیں۔ پہلا نقصان تو یہ ہے کہ انصاف اور غیر جانبداری کو یقینی بنانے کے لیے عدلیہ کی آزادی بہت ضروری ہے۔سو نجکاری اس آزادی پر سمجھوتہ کر سکتی ہے۔ دوئم عدلیہ ایک عوامی ادارہ ہے، جو عوام کو جوابدہ ہے۔ نجکاری عوام کے اعتماد کو ختم کر سکتی ہے۔ سوئم نجکاری پسماندہ یا کم آمدنی والے افراد کے لیے انصاف تک رسائی کو محدود کر سکتی ہے اور چہارم نجی مفادات عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ وہ میری بات کاٹتے ہوئے بولا دیکھا میں نہ کہتا تھا اب تم خود اس کی گواہی دے رہے ہو۔میں نے اسے توقف کرنے کو کہا اور کہا اس کے مثبت پہلو بھی تو دیکھ لو۔اب وہ تھوڑا سا گھبرا گیا۔میں نے کہا کہ نجی شعبے کی مہارت عدالتی کارکردگی کو بہتر بنا سکتی ہے اور بیک لاگ کو کم کر سکتی ہے۔دوسرا نجی عدالتیں مخصوص شعبوں میں مہارت حاصل کرسکتی ہیں جیسے تجارتی یا دانشورانہ املاک کا قانون یعنی انٹلیکوئچل پراپرٹیز۔ تیسرا نجکاری تنازعات کے حل کے نئے نئے اختراعی طریقے متعارف کروا سکتی ہے اور چوتھا نجکاری عوامی عدالتوں پر بوجھ کو کم کر سکتی ہے۔میں نے کہا یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ کچھ ممالک نے پبلک اور پرائیویٹ عناصر کو ملا کر ہائبرڈ ماڈل نافذ کیے ہیں جیسے نجی ثالثی تجارتی تنازعات کے لیے رضاکارانہ ثالثی کی خدمات۔جیسے ثالثی مراکز ثالثی خدمات کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ۔جیسے خصوصی عدالتیں مخصوص شعبوں کے لیے پبلک پرائیویٹ تعاون، جیسے املاک دانش وغیرہ۔ میں نے اسے بتایا کہ ایسی نجکاری ملائیشیا سنگا پور فرانس اور جرمنی میں ہو چکی ہے۔باقی ممالک کا شاید تمہیں شک ہو مگر مہاتیر محمد ہم سب پاکستانیوں کا جانا پہچانا چہرہ ہے۔اس کی عزت کی جاتی ہے اور تمہارے دل میں بھی اس کا احترام ہے۔ مہاتیر محمد کے اقدامات بین الاقوامی ثالثی اور تنازعات کے حل کے لیے ملائیشیا کو ایک مرکز کے طور پر فروغ دینے پر مرکوز تھے۔ اس نے لنکاوی انٹرنیشنل ڈائیلاگ میں ایک ہائبرڈ کورٹ کے قیام کی تجویز پیش کی۔ ملائیشیا کی حکومت نے 1978 میں بھی کوالالمپور ریجنل سینٹر فار آربٹریشن قائم کیا جسے بعد میں ایشیائی بین الاقوامی ثالثی مرکز کا نام دیا گیا۔ وہ میرے موقف سے تنگ آ گیا اور کہنے لگا کہ یہ سب کون کرے گا؟۔میں نے جواب دیا: حکومت ِوقت اور کون؟۔یہ سب کچھ آزمائشی طور پر کسی خاص علاقے یا ضلع میں ایک مخصوص مدت کے لئے کیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ پیریڈ میں اگر اس کے خاطر خواہ نتائج نہ نکلیں تو اسے مسترد کیا جا سکتا ہے۔یہی نہیں دوسرے محکموں کے بارے میں انہی خطوط پر سوچا جا سکتا ہے۔ابھی میں نے سادہ سادہ باتیں کیں تو وہ پریشان ہو گیا۔ حالانکہ وہ تمام شعبوں کی کارکردگی اور ان کی اندرونی حالت سے واقف ہی نہیںگواہ بھی تھا۔بدمزہ سا ہو گیا تو میں نے اپنی سرگزشت بیان کی کہ شاید میں بات کی ترسیل بہتر طور پر سکوں اور اسے بتایا کہ ہمارے ادارے کی پرائیوٹائزیشن کا عمل شروع ہونے سے پہلے مغرب سے گوروں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔وہ گورے ہمارے پاس بیٹھتے، ہمارے دفتروں کی کارکردگی چیک کرتے ،ہمارے سوالات کے جوابات دیتے۔ادارے کی پرائیوٹائزیشن کا بنیادی مقصد ادارے کی کارکردگی اور منافع میں اضافہ تھا۔جب ان سے پوچھا کہ اس پرائیوٹائزیشن کی آڑ میں ملازمین کو ملازمت سے فارغ کر دیا جائے گاتو گورے نے تحمل اور شان بے نیازی سے جواب دیا کہ اگر آپ کے گھر میں دو نوکر ہیں اور وہ کام کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ اوپر آپ کی آمدنی اس قدر نہیں کہ ان کی تنخواہ ادا کی جا سکے تو آپ کیا کریں گے؟۔کیا آپ انسان دوستی یا ہمدردی کی وجہ سے اپنے گھر کا نقصان کرتے رہیں گے یا گھر کے ان ملازمین کو فارغ کر دیں گے اور کسی ایکٹو ملازم کو ترجیح نہیں دیں گے؟اس نے مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو میں عرض کی کہ جو ادارے پرائیوٹائز ہو چکے ہیں ان کے دفاتر کا چکر لگا لیں اور واپسی پر پھر عدالتوں میں دھکم پیل کو دیکھ آنا۔وہ ادارے آرڈینینسوں پر نہیں کارکردگی پر چلتے ہیں۔ اب بھی تسلی نہیں ہوئی تو عرض کروں کہ اسی مغرب کے ممالک جن کی طرف ہماری قوم ہجرت پر تیار ہے وہاں اس قسم کی عدالتیں اب بھی کام کر رہی ہیں۔ان ممالک میں چچا سام کا ملک اور گوروں کے ملک کے نام سے کون واقف نہیں۔