2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

ایک کالم، کالم نگاروں کی خدمت میں

ظہور دھریجہ
26-11-2018

’’ ایک کالم ، کالم نگاروں کی خدمت میں ‘‘ کے عنوان کا مقصد کالم نگار حضرات میں یہ گزارش کرنا ہے کہ وہ وسیب کے مسائل کی طرف توجہ دیں ۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت نے سو دنوں میں صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا ، 99 دن ہو گئے مگر وہ اپنے اعلان سے آؤٹ نظر آتے ہیں ۔ کھیلوں کی دنیا میں اس کھلاڑی کو نہایت ہی بے نصیب سمجھا جاتا ہے جو 99 پر آؤٹ ہو جائے اور سنچری نہ بنا سکے ۔ جنوبی پنجاب صوبے کے مسئلے پر پہلے وفاقی کمیٹی بنی پھر صوبائی کمیٹی بنائی گئی ، ان دونوں کمیٹیوں کا ایک بھی اجلاس نہ ہوا ، اس کے بعد وزیراعلیٰ نے ایک اور کمیٹی صوبائی ایگزیکٹو کونسل کے نام سے بنا دی ہے ۔ ایک کہاوت ہے کہ جو کام نہ کرنا ہو اسے کمیٹی کے سپرد کر دیا جاتا ہے ‘ اب صوبے کی بجائے سب سول سیکرٹریٹ کا لولی پاپ دیا جا رہا ہے جو کسی بھی لحاظ سے صوبے کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ کالم نگاروں سے اتنی درخواست ہے کہ وہ وسیب کے مسائل کی طرف توجہ دیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سرائیکی صوبے کی تحریک قریباً نصف صدی سے وسیب میں جاری ہے ۔ وسیب کے لوگ نہ تو علیحدگی پسند ہیں اور نہ ہی ملک دشمن ۔ سرائیکی وسیب کے لوگ وفاق پاکستان کا حصہ بننے کے لئے بے تاب ہیں ۔ مگر افسوس کہ ان کی بے تابی کی قدر افزائی نہیں ہو رہی ۔ سرائیکی صوبہ سرائیکی وسیب کے کروڑوں افراد کے علاوہ وفاق پاکستان کی بھی ضرورت ہے کہ 62 فیصد آبادی کا ایک صوبہ اور 38 فیصد آبادی کے تین صوبے ۔ وفاق کے عدم توازن کی وجہ سے صرف وسیب ہی نہیں چھوٹے صوبے بھی نالاں احساس محرومی کا شکار ہیں اور ایوانِ بالا یعنی سینٹ میں پنجاب کا بھی استحصال ہو رہاہے کہ 62 فیصد کو سینٹ میں محض 25 فیصدنمائندگی حاصل ہے جبکہ 38 فیصد 75 فیصد نمائندگی حاصل کئے ہوئے ہے۔ وسیب میں تعلیم ، صحت اور روزگار کے مسائل نے گھمبیر شکل اختیار کر لی ہے ۔ سرائیکی وسیب میں اناج کے گودام بھرے ہیں مگر پیٹ خالی ہیں ۔ بے روزگاری کے باعث وسیب میں خود کشیوں کی شرح سب سے زیادہ ہے ۔ بچے برائے فروخت کے بورڈ بھی وسیب میں سب سے زیادہ نظر آتے ہیں ۔ تعلیمی سہولتیں نہ ہونے اور تعلیمی اخراجات کی استطاعت نہ ہونے کے باعث وسیب کے غریب لوگ اپنے بچوں کو مدارس میں بھیجتے ہیں اور پھر وہ بچے دہشت گردی کی آگ کا ایندھن بنا دیئے جاتے ہیں ۔ وسیب کے پھول جیسے بچے دہشت گردی کی بھینٹ بھی چڑھا دیئے جاتے ہیں اور پھر مقتدر طبقوں کی طرف سے طعنہ بھی دیا جاتا ہے کہ سرائیکی خطہ دہشت گردوں کا سپلائی مرکز ہے ۔ ہماری درخواست ہے کہ دہشت گردی کے ساتھ ساتھ اس کے اسباب پر بھی غور کیا جائے ۔ سرائیکی وسیب میں بہت سے علاقے ایسے ہیں کہ انسان اور حیوان ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں ۔ سرائیکی وسیب کے صحرائے تھل اور چولستان میں آج بھی لوگ پیاس سے مر جاتے ہیں ۔ حکمرانوں نے سرائیکی وسیب کو بیگار کیمپ کے ساتھ ساتھ شکار گاہ بھی بنا دیا ہے کہ چولستان کے بعد تھل اور دمان کے بہت سے علاقے عرب شیوخ اور شہزادوں کو شکار کے طور پر الاٹ کر دیئے ۔ وہ تمام علاقے اب نو گو ایریا شمار ہوتے ہیں ۔ وہ صحرائے چولستان جہاں 17 سال بیٹھ کر عظیم صوفی شاعر خواجہ غلام فرید نے محبت ، امن اور پیار کے نغمے گا ئے ، آج وہ علاقے مقتل گاہ بنے ہوئے ہیں آج وہاں کسی بھی ذی روح کو کوئی چین اور سکون حاصل نہیں ۔ اور نہ ہی ان کی زندگی محفوظ ہے ۔ شکار پر سپریم کورٹ کی طرف سے لگائی گئی پابندی کے باوجود عمل درآمد نہیں ہو رہا ۔ ان عرب شیوخ کے ساتھ حکمرانوں کے ذاتی مراسم ہیں لیکن ہماری ماں دھرتی اجڑ رہی ہے ‘ تباہ ہو رہی ہے ‘ خدارا ! ہماری اس سرزمین کو بیگار کیمپ اور شکار گاہ نہ بننے دیجئے اور اس ظلم کے خلاف آواز بلند فرمایئے۔ وسیب کو سپت سندھو یعنی سات دریاؤں کی سرزمین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے مگر دریاؤں کی سرزمین کے لوگ آج خود پیاسے ہیں ۔ دریائے ستلج کی فروخت کے بعد سرائیکی وسیب میں ایک اور چولستان وجود میں آ رہا ہے ۔ زیر زمین پانی کا لیول بہت نیچے چلا گیا ہے اور زیر زمین پانی کڑوا ہو چکا ہے۔ پینے کے پانی کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں ۔ پینے کے غیر شفاف پانی اور ماحولیاتی آلودگی سے سرائیکی وسیب میں بیماریوں نے سر اٹھا لیا ہے۔ شوگر ملز ، کھاد کے کارخانے ، مظفر گڑھ بجلی گھر وسیب میں موت اور بیماریاں بانٹ رہے ہیں ۔ انسانیت زمین میں دھنستی جا رہی ہے اور ڈاکٹروں کے محلات بلند ہو رہے ہیں ۔ سرکاری ہسپتالوں میں کوئی سہولت نہیں ۔ وزیراعظم نے ملک میں110 ارب روپے کے 39 جدید ہسپتال بنانے کا اعلان کیا ہے مگر تاحال سرائیکی وسیب کے حصے میں ایک بھی ہسپتال نہیں آیا ، ضرورت اس بات کی ہے کہ وسیب کو ان ہسپتالوں میں سے آبادی کے مطابق حصہ ملنا چاہئے ۔ انٹری ٹیسٹ کے نام پر فراڈ ہوتاہے ‘ روجھان کالج اور ایچ ای سن کالج کے طالب علموں کا مقابلہ کرانا انصاف کا قتل ہے ۔ سی ایس ایس میں سندھ اربن اور سندھ رورل کی طرح الگ کوٹہ ہونا چاہئے اور سی ایس ایس میں پنجابی ، سندھی ، پشتو اور بلوچی مضمون کی طرح سرائیکی مضمون بھی شامل ہونا چاہئے کہ اب سرائیکی میٹرک سے شروع ہو کر پی ایچ ڈی تک پڑھائی جا رہی ہے۔ جو سہولت دوسرے مضامین پڑھنے والوں کو حاصل ہے ، وہ سہولت سرائیکی طالب علم کو نہ دینا غیر آئینی ہی نہیں انصاف کا قتل بھی ہے ۔ سرائیکی وسیب کے لئے سی ایس ایس کا الگ کوٹہ نہ ہونے کی بناء پر آج پورے سرائیکی وسیب سے چند لوگ ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں ۔ وسیب کے لوگوں کو محتاج بنا دیا گیا ہے۔ تمام اختیارات باہر کے لوگوں کو حاصل ہیں ۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو محرومی کا زخم ہی جغرافیے بدلنے کا باعث بنا ، اہل قلم سے دردمندانہ درخواست ہے کہ سرائیکی وسیب کا یہ دکھڑا حکمرانوں تک پہنچائیں۔