ایک ہی کتاب میں گم
محمد عامر رانا
تاریخ میں ایسا کم ہی ہوا ہے کہ پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت ایک ہی کتاب میں گم ہو گئی ہو۔ گزشتہ حکومتیں عسکری قیادت کے ساتھ ایک صفحے پر آنے کے لیے جدوجہد کرتی رہی ہیں اور بہت کم ایسا ہوا کہ ایک صفحے پر آنے کے بعد دونوں اطراف نے اکٹھے ایک صفحہ بھی پلٹا ہو۔ یہ عمران خان کی کرشماتی شخصیات ہے یا پھر عسکری قیادت کا ان پر اعتماد کہ جنرل ہیڈ کوارٹرز میں آٹھ گھنٹے طویل بریفنگ ہوئی اور اگلے ہی روز نئی حکومت کی خارجہ پالیسی کی سمت متعین ہو گئی۔ عسکری قیادت کی راہنمائی سے یقینا وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کے حوصلے بلند ہوئے ہونگے اور ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہو گا۔ اس اعتماد میں اضافے کا اظہار تو عمران خان کی صحافیوں کے ساتھ ملاقات کے دوران اسلام آباد میں فرانسیسی سفارتخانے سے آنے والی ٹیلی فون کال سے ہو گیا تھا جو وزیر اعظم کی فرانسیسی صدر سے ملاقات طے کرنے کے لیے کی گئی تھی۔ معلوم نہیں یہ وزیر اعظم کی ادا تھی یا ان کے عملے نے انہیں غلط بریف کیا کہ صدر خود لائن پر ہیں لیکن خان صاحب نے کال ایسے جھٹک دی جیسے آم کھاتے ہوئے درمیان میں مکھی آ جائے اور بندہ اسے اڑانے کے لیے ایسے ہاتھ جھٹکے جیسے وہ آم کی لذت ہی اڑانے کے لیے آئی ہو۔ پاکستانی دفتر خارجہ اور ان کے نئے وزیر ایسا ہی کچھ بھارتی وزیر اعظم کے خط اور امریکی وزیر خارجہ کی کال کے ساتھ بھی کر چکے ہیں جس سے یقینا دنیا میں یہ تاثر گیا ہے کہ پاکستان میں ایسی مضبوط حکومت آ گئی ہے جسے اب دنیا کی ضرورت نہیں ہے۔ کیڑے نکالنے والے گو کیڑے نکالتے رہیں گے لیکن نئی حکومت کی خارجہ پالیسی کی سمت درست ہو گئی ہے۔ عسکری قیادت کی بریفنگ سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ سول اور ملٹری قیادت میں ذمہ داریوں کا تعین ہو گیاہے اور حکومت خارجہ اور سلامتی پالیسی کے لیے عسکری قیادت سے راہنمائی لیتی رہے گی۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ سابقہ حکومتوں نے ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی تھی اور خارجہ تعلقات پر دنیا کو ایسا تاثر دیتے تھے کہ جیسے ان کے ہاتھ پائوں بندھے ہوں اور اس میں اس پالیسی کا ماخذ کوئی اور ادارہ ہو۔ اس سے عالمی سطح پر پاکستان کی سبکی تو ہوئی ہی تھی لیکن سول ملٹری تعلقات میں بھی تنائو پیدا ہوتا رہا اور بعض دفعہ تو تنائو کی شدت میں اتنا اضافہ ہوتا رہاہے کہ یہ تعلقات بالکل خاتمے کے قریب پہنچتے رہے ہیں لیکن یہ عسکری قیادت تھی جو ہمیشہ رسی ڈھیلی چھوڑتی رہی ہے۔ نئی حکومت کے ساتھ ابھی رسی اور تنائو والا رشتہ استوار نہیں ہوا جی ایچ کیو میں سول قیادت کی آٹھ گھنٹے بریفنگ سے بالکل یہی لگتا ہے سول قیادت دنیا میں عسکری قیادت کی سبکی نہیں کرائے گی اور ہر پالیسی اور مسئلے کی ذمہ داری خوش دلی سے قبول کرے گی۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ایسی ہی بریفنگ کے لیے آب پارہ بلایا گیا تھا وہ اپنی کابینہ کے اراکین کو ساتھ لے کر جانے کے بجائے اپنے بھائی اور بھائی کے چودھری دوست کو ہمراہ لے گئے تھے چار گھنٹے طویل ملاقات کے بعد باہمی امور پر اتفاق پا گیا تھا لیکن پھر یہ ہوا کہ حکومت نے دہشت گردوں سے مذاکرات کا اعلان کر دیا اور ایسا تاثر دیا کہ اس مسئلے پر سب ادارے ایک صفحے پر ہیں۔ عسکری قیادت کو یہ تاثر آپریشن ضرب عضب شروع کر کے ختم کرنا پڑا۔ ویسے غور کرنے والی بات ہے کہ اگر 2013ء میں ہی عمران خان کی حکومت بن جاتی تو وہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کرتی؟ اور اگر ایسا ہوتا تو عسکری قیادت کا ردعمل کیا ہوتا؟ ویسے تحریک انصاف نے سابقہ حکومت کے ان امن مذاکرات کی نہ صرف حمایت کی تھی بلکہ اپنی انتخابی مہم میں اقتدار میں آنے کے بعد ایسے ہی اقدامات کا وعدہ بھی کیا تھا۔ عمران خان کو جب اقتدار ملا ہے تو دہشت گردی کا جن بوتل کے اندر جا رہا ہے اس کی دم باہر ہے وہ بھی زور لگا کر اندر کر ہی دی جائے گی۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ عسکری اور سول قیادت کے درمیان وجہ نزاع ایک اور مسئلہ کم ہو گیا ہے۔ اب مسئلہ افغانستان ہے‘ مسئلہ امریکہ ہے‘ مسئلہ بھارت ہے اور چین جو کہ مسئلہ تو نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جانا مسئلہ ضرور ہو گا۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو عمران خان نے اپنی کامیابی والی تقریر میں کھلی سرحدوں کی بات کی تھی اور افغانستان میں اسے اتنی پذیرائی ملی کہ صدر اشرف غنی پہلے سربراہ مملکت بن گئے جنہوں نے عمران خان کو منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔ اگرچہ پاکستان افغانستان کے ساتھ باڑ پر تیزی سے کام کر رہا ہے تاکہ دنیا کا یہ گلہ دور کیا جا سکے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ہیں اور وہ افغانستان میں جا کر حملے کرتے ہیں لیکن جب سے آٹھ گھنٹے کی بریفنگ ہوئی ہے افغانستان کے مسئلہ پر بھی ملٹری اور سول قیادت میں ہم آہنگی پیدا ہو گئی ہے۔ رہا امریکہ تو ٹرمپ کے آنے کے بعد اس کی دنیا میں آبرو ہی کیا ہے اس کے لیے تو ایران ہی کافی ہے اس لیے امریکی سٹیٹ سیکرٹری کی آمد سے قبل نہ صرف ایرانی وزیر خارجہ کا ان کے اپنے دور میں پاکستان کے اٹھارہویں دورے پر پرتپاک استقبال کیا گیا بلکہ ایران اور دنیا کے بڑوں کے ساتھ جن میں بڑی یورپی طاقتوں کے علاوہ چین اور روس بھی شامل ہیں ‘کے نیو کلیئر معاہدے کی حمایت کی ہے ۔اس معاہدے سے امریکہ دستبردار ہو گیا ہے اور پاکستان کی اس حمایت سے واشنگٹن میں یقینا ایک پیغام پہنچا ہو گا کہ پاکستان میں تبدیلی آ چکی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایران کے بھارت کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں اور چین بھی اس کا بڑا تجارتی پارٹنر ہے جہاں تک بھارت کا اثرورسوخ ہے تو اس کے لیے سعودی عرب ہے اور سعودی عرب کے ساتھ ہمارے پرانے برادرانہ دوستانہ تعلقات ہیں اور ہر موقع پر اس نے ہماری مدد کی ہے لیکن سعودی عرب امریکہ کے ساتھ ہے۔ یہ خارجہ تعلقات شیطان کی پھرکی کی طرح ہوتے ہیں جن کی حرکیات کو سمجھتے سمجھتے حکومتیں کیا سے کیا ہو جاتی ہیں اس لیے تحریک انصاف کی حکومت کا یہ فیصلہ کہ وہ عسکری قیادت کے ساتھ اس مسئلے پر ایک ہی کتاب میں گم ہو جائے بظاہر درست معلوم ہوتا ہے۔ اس حکومت کے سامنے ویسے بھی بڑے بڑے چیلنجز ہیں گورننس ٹھیک کرنا ہے ‘کرپشن کو اس کی جڑوں سے اکھاڑ پھینکنا ہے اور سب سے بڑھ کر معیشت بحال کرنی ہے۔ جہاں تک معیشت کی بحالی کا تعلق ہے تو وزیر اعظم نے اپنی سربراہی میں ایک اٹھارہ رکنی اعلیٰ اختیاراتی اقتصادی مشاورتی کونسل تشکیل دے دی ہے جس میں حکومتی اہلکار‘ وزیر مشیروں کے علاوہ اندرونی اور بیرونی ماہرین بھی شامل ہونگے جو وزیر اعظم کو ہر ماہ مشورے دیا کرینگے۔ اس مشاورتی کونسل کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ وہ ایک ایسی پالیسی وضع کرے جس میں وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات اور اس کے عالمی اثر و رسوخ سے بچ بچا کر عالمی مالیاتی اداروں خصوصاً آئی ایم ایف سے تعاون حاصل کرے اور یہ کام اس طرح ہو کہ امریکہ دیکھتا رہ جائے اور جب کام ہو جائے تو چیختا رہے کہ پاکستان کس طرح مالی تعاون لے گیا۔ اس کا دوسرا ہدف بیرونی سرمایہ کاری کو لانا ہو گا اور وہ بھی اپنی شرائط پر اور تیسرا یہ کہ سی پیک چلتا رہے اور کسی طرح چین مان جائے کہ قرضوں کی وقتاً فوقتاً ری شیڈولنگ کرتا رہے۔ سال میں ایک دو بیل آئوٹ پیکیج بھی دیتا رہے تو کیا بات ہے۔ یہ کرشمہ چاہیے جو ایک کرشماتی شخصیت ہی دکھا سکتی ہے اور اس کے تو ہاتھ پائوں بھی کھلے ہیں اور عسکری قیادت کے ساتھ ایک صفحے میں گم ہے۔ بس یہ کرشمہ ہوا ہی چاہتا ہے۔