انہیں ماتھے پہ بوسہ دو
عمر قاضی
سی سی ٹی وی کی وہ ریکارڈنگ تو کورٹ میں پیش کی جائے گی جس میں ایک ماں اپنے دو بچوں کے ساتھ کراچی کے مہنگے ریستوران کے دروازے سے داخل ہو رہی ہے مگر وہ مناظر دیکھنے کا کسی کو حوصلہ نہیں جب زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ماں ہسپتال میں زیر علاج تھی اور اس کے سامنے دو ننھے منے پھول کفن کے سفید کپڑے میں لپیٹ کر لائے گئے۔ وہ ماں جس کی چیخوں سے ہسپتال کا وارڈ لرز رہا تھا اس ماں کو بچوں کا باپ دھیرے سے کہہ رہا تھا ’’عائشہ! صبر کرو ۔ اب اپنے بچوں کی پیشانی پر بوسہ دو۔ ان کو اجازت دو کہ یہ جہاں سے آئے تھے؛ وہاں چلے جائیں‘‘ غم کی مورت بنی ہوئی ایک ماں صرف یہ کہے جا رہی تھی ’’نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔نہیں! میں اپنے بچوں کے بغیرزندہ نہیں رہ پاؤں گی‘‘ اب ایک ماں کو اپنے دو بچوں کے بغیر زندہ رہنا پڑے گا۔ ایک ماں اس گھر میں رہے گی جس گھر میں جا بجا ان دو معصوم پھولوں کی تصویریں آویزاں ہیں۔ کسی تصویر میں وہ ہنس رہے ہیں۔ کسی تصویر میں وہ محبت بھری آنکھوں سے اپنی ماں کو دیکھ رہے ہیں۔ کسی تصویر میں وہ ایسے خاموش بیٹھے ہیں جیسے وہ کھلونے ہوں۔ اب ایک ماں کو ان دو کھلونوں کے بغیر جینا ہوگا، جو کھلونے خدا نے عائشہ نامی عورت کو حسین ترین تحفے کی صورت میں عطاکیے تھے۔ ان دونوں بچوں میں والدین کی جان تھی۔ ان کے دم سے ان کی کائنات روشن تھی۔ اب وہ کائنات تاریک دھوئیں سے بھر گئی ہے۔ اب ان والدین کی زندگی کی زمین سونی ہے اور ان کے جیون کا آسمان اندھیرا ہے۔ اب وہ والدین ایک ایک پل اذیت کے ساتھ گزاریں گے۔ جب بھی ایک ماں کو الماری سے اپنے پھول جیسے بچوں کے کپڑے ملیں گے تب وہ ان کپڑوں کو چومتی اور چیختی رہے گی۔ اب وہ دنیا میں چلتے پھرتے لاشے کی طرح نظر آئے گی۔ وہ عورت جب بھی کہیں جائے گی تب پاس بیٹھی ہوئی عورت کو بتائے گی اس کے دو بچے تھے ۔ اٹھارہ ماہ کا احمد اور پانچ برس کا محمد۔ دونوں معصوم فرشتوں کی طرح دیکھتے اور ستاروں کی طرح مسکراتے تھے۔ دونوں میرے آنگن میں پھولوں کی مانند مہکتے تھے۔ یہ کہتے ہوئے عائشہ کی آنکھیں بھر آئیں گی اور وہ دوپٹے سے اپنا چہرہ چھپا کر سسکیاں بھرنے لگے گی اور کہنے لگے گی ’’اے بہن! اب میرا گھر سُونا ہے۔ اب میرے گھر میں بچوں کے ہنسنے اور رونے کی آوازیں نہیں آتیں۔ اب میرا گھر بہت خاموش ہے۔ اتنا خاموش کہ اس خاموشی سے میرا دل بیٹھ جاتا ہے‘‘ وہ ماں اب ہر ماں کو بتائے گی کہ ’’بہن! اپنے بچوں کو کبھی ہوٹل پر کھانا مت کھلانا۔ بھلے وہ ضد کریں۔ بھلے وہ روئیں۔ چیخیں۔ چلائیں۔ ان کی ایک بھی بات مت سننا ۔ ورنہ۔۔۔ورنہ۔۔۔ورنہ وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوجائیں گے۔ اسی طرح جس طرح محمد اور احمد خاموش ہوگئے۔ وہ دونوں اب میرے گھر میں نہیں دو چھوٹی چھوٹی قبروں میں رہتے ہیں۔ میں ان کی قبروں سے لپٹ جاتی ہوں۔ میں ان قبروں سے کافی دیر تک باتیں کرتی ہوں۔ مجھے ہمیشہ اس بات کا احساس رہتا ہے کہ کہیں ان کو اندھیری قبر میں ڈر نہ لگے۔ وہ چھوٹے ہیں۔ بہت چھوٹے ہیں۔ اتنے چھوٹے بچے ماں کے بغیر کس طرح رہیں گے‘‘ مگر اب دو بچے ماں کے بغیر اور ایک ماں دو بچوں کے بغیر جدائی کی آگ میں جلتی رہے گی۔ کراچی کے مہنگے علاقے زمزمہ میں موجود ریستوران کے حوالے سے جو تحقیق ہوگی اس کے نتیجے سے ہم اس وقت بھی آگاہ ہیں۔ ایسے واقعات آگ کی طرح جل اٹھتے ہیں اور ایسے واقعات کی بنیاد پر قائم مقدمات آگ کی طرح بجھ جاتے ہیں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے تحقیقات کے لیے احکامات تو جاری کیے ہیں مگر اس نے ابھی تک ’’سندھ فوڈ اتھارٹی‘‘ کے افسران سے کچھ نہیں پوچھا۔ وہ افسران پہلی بار منظرعام پر آئے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں مسلم لیگ فنکشنل کی ایم پی اے نصرت سحر عباسی نے گزشتہ روز جو کہا سچ کہا۔ نصرت سحر نے ایوان میں آواز بلند کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’زہریلا کھانا کھانے کے باعث مرجانے والے دو بچوں کی ذمہ داری اس سندھ فوڈ اتھارٹی پر بھی عائد ہوتی ہے جو گزشتہ دس برس سے فعال نہیں ہوسکی ہے‘‘ نصرت سحر کا مطلب یہ تھا کہ حکومت سندھ نے دس برس گزرنے کے باوجود بھی اس محکمے کو فعال نہیں کیا جس محکمے کی نوعیت بہت حساس ہے۔ پورے صوبے میں لاکھوں ہوٹل اور ریستوران ہیں۔ کراچی کی گلی گلی میں فاسٹ فوڈ سینٹرز قائم ہیں مگر ان پر کسی کی نظر نہیں۔ کیا یہ جرم کی انتہا نہیں ہے کہ جس ریستوران کے زہرآلود کھانے سے دو بچے موت کے گھاٹ اترے ہیں اس ریستوران کے گودام سے 2014ء کا گوشت برآمد ہوا ہے۔ جس ریستوران میں چار برس پرانا گوشت پکایا جائے اور وہ گوشت مصالوں سے چٹ پٹا کرکے لوگوں کو کھلایا جائے ان ریستورانز پر نظر نہ رکھنے والی حکومت کو کون سی سزا دی جائے؟ سندھ حکومت کے جیالے ہر روز چیختے اور چلاتے ہیں کہ 18ویں ترمیم کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ سندھ حکومت سے پوچھا جائے کہ 18ویں ترمیم کی وجہ سے ان کے حصے میں جو محکمے آئے ان محکموں کو سندھ کی حکومت کس طرح چلا رہی ہے۔ یہ 18ویں ترمیم کا کمال تھا جس کے باعث سندھ فوڈ اتھارٹی قائم ہوئی مگر اس اتھارٹی نے سوائے چند افسران کو دفاتر اور گاڑیاں دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا گیا۔ سندھ حکومت کو بھی اس مقدمے میں بلایا جائے اور ان سے پوچھا جائے کہ جب تم ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تو پھر زیادہ محکمے اپنے ہاتھ میں لینے کے واسطے کیوں چلاتے ہو؟ سندھ حکومت کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور اس کا احتساب کیا جائے کہ جو محکمے ان سے نہیں چلتے وہ بھی اپنے دسترس میں لینے کے لیے کیوں چلاتے ہیں؟ انہوں نے چیخ کر اور چلا کر جو محکمے اپنے کنٹرول میں رکھے ہیں ان کو چلانے کی ان کے پاس کوئی اہلیت نہیں۔ کراچی میں دو کمسن بچوں کی موت پر ایک اعلیٰ عدالتی کمیشن قائم کیا جائے اور وہ کمیشن صرف اس بات کا پتہ نہ لگائے کہ کراچی اور سندھ کے سارے شہروں میں کون سے ہوٹل صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہیں بلکہ وہ کمیشن یہ بھی معلوم کرے کہ گزشتہ دس برس سے ’’سندھ فوڈ اتھارٹی‘‘ کیا کر رہی تھی؟ اس نے اگر لیبارٹری قائم نہیں کی تو اس کا سبب کیا ہے؟ یہ بات ایسی ہے جس بات پر سپریم کورٹ کو سوموٹو لینا چاہئے اگر عدالت بہت ساری مصروفیات میں الجھی ہوئی ہے تو وفاقی حکومت کو آگے آنا چاہئیے۔ اس بات پر گورنر سندھ کو سرگرم ہونا چاہئیے۔ گورنر سندھ کو اس دکھیاری ماں کی عیادت کرنی چاہئیے جو ماں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھی اور اس کے سامنے دو جگر کے ٹکڑوں کی لاشیں لائی گئیں اور اس ماں سے کہا گیا ’’صبر کرو۔ اپنے بچوں کا آخری دیدار کرو۔ ان کو اجازت دو۔ ان کے ماتھے پہ بوسہ دو‘‘۔