ا سٹیٹ لینڈ کی ناقدری
ڈا کٹر طا ہر رضا بخاری
وقف لینڈ کی حفاظت کے لیے محکمانہ لیڈ رشپ نے، ایک موثر پیش قدمی کی، تو ایک موقر جریدے نے ادارتی نوٹ کے ذریعے حوصلہ بڑھایا۔ ہمارے دیس میں قبضہ مافیا بڑا مضبوط ہے، بالخصوص سٹیٹ لینڈ یا وقف لینڈ کو شیرِ مادر سمجھتے ہیں۔ ان کے سامنے ادارے بے بس ہیں۔ اوقاف کی نوٹیفائیڈ لینڈ 74964ایکڑ ہے۔ شومئی قسمت جس میں سے آج تک محض25 ہزار سے استفادہ ہوسکا اور یہ پریکٹس نصف صدی سے جاری ہے۔،ڈی جی خان اور دربار حضرت سخی سرورسے ملحق 30 ہزارایکٹرسے زائد اراضی حدبراری نہ ہونے کے سبب، 50سال سے محکمانہ نیٹ میں شامل نہ ہوسکی، الحمدللہ! ایک طویل ایکسرسائزکے نتیجے میں سرخروئی ہوئی، اور اب لاٹ بندی کے بعد نیلام عام کا سلسلہ جاری ہے۔ سرکاری زرعی اراضیات پر طاقتور طبقہ کئی عشروں سے اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے قابض ہے، جس زمین کا ٹھیکہ مارکیٹ میں ایک لاکھ روپے فی ایکڑ ہے، وہ انہوں نے محض دس ہزار، پندرہ ہزار روپیہ پر لے رکھاہے، اوّل تو قواعد کے مطابق ''نیلام ِ عام ''ہی نہیں ہونے دیا جاتا اور اگر بفرض ِ محال محکمہ یا ادارہ ہمت اور جرأت کرکے یہ مرحلہ سَر کر بھی لے، تو زمین کا قبضہ نہیں چھوڑتے اور مختلف عدالتی چارہ جوئیوں میں الجھا دیا جاتا ہے ۔ یوں نئے لیز ہولڈر کو زِچ کر کے کمپرومائز پر مجبور کردیتے ہیں، اسی اثنا میں یکم جولائی سے نئے ٹھیکے کی مُدّت کا آغاز ہوجاتا ہے اور پُرانا ٹھیکے دار نئے مستاجر کو زمین کا قبضہ نہیں دیتا اور نئی فصل بھی کاشت کرلیتا ہے، تو ایسے میں ادارے کا فرض ہے کہ وہ اس ناجائز کاشت کا تدارک کر ے، ریونیو کے قواعد کے تحت سال میں دو مرتبہ ''معائنہ فصل '' یعنی گرد اوری کا اہتمام لازم ہے، فصل خریف کی گرداوری یکم اکتوبر جبکہ فصل ربیع کی گرداوری کا اہتمام یکم مارچ سے ہوتا ہے۔ ناجائزکاشت کے ضمن میں یہ نکات اہم ہیں:۔٭۔زرِتاوان کے لیے منیجر حلقہ پہلے محکمہ مال سے گرداوری حاصل کرے اور اپنے مراسلہ کے ساتھ لف کر کے متعلقہ ڈپٹی کمشنر کو بھیجے۔ ڈپٹی کمشنر، ایڈیشنل کمشنر (ریونیو)کو مارک کرے گا۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر(ریونیو)زرِتاوان کے آرڈر کرتے ہوئے،اسسٹنٹ کمشنر کو ارسال کرے گا۔ اسسٹنٹ کمشنر متعلقہ تحصیلدار اور گرداور حلقہ کو کارروائی کے لیے بھیجے گا۔ ٭۔فصل کی قُرقی کے لیے منیجر حلقہ ڈپٹی کمشنر کو تحریر کرے گا۔ ڈپٹی کمشنر، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (ریونیو)کو مارک اورایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (ریونیو)متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر کو کارروائی کے لیے بھیجے گا۔ اسسٹنٹ کمشنر، تحصیلدار اور گرداور حلقہ کو کارروائی کے لیے مارک کرے گا۔گرداور حلقہ اس موضع کے نمبر دار کو فصل کی سپرداری کرے گا۔ نمبر دار اور پٹواری حلقہ فصل کو فروخت کر کے رقم داخل خزانہ کروائے گا۔ ٭۔اگر کوئی شخص وقف رقبہ ناجائز کاشت کررہا ہے اور موجودہ پٹہ دار کو قبضہ حوالے نہ کررہا ہے تو منیجر حلقہ تحصیلدار مال اور متعلقہ پولیس اسٹیشن کو تحریری طورپر ساتھ لے کر جائے گااور ناجائزکاشت کنندہ سے بذریعہ پولیس فورس قبضہ حاصل کرتے ہوئے موجودہ پٹہ دارکے حوالے کرنے کا پابند ہے۔ ٭۔مقدمہ بازی کی آڑ میں ناجائز کاشت کے سلسلہ میں محکمہ اوقاف کا وکیل عدالت کو درخواست کرے گا کہ وقف رقبہ محکمہ اوقاف کی ملکیت ہے۔ یہ شخص مقدمہ بازی کی آڑ میں محکمہ کو لاکھوں روپے کا نقصان پہنچا رہا ہے۔ لہٰذا اس سلسلہ میں معزز عدالت کمشن مقرر کرسکتی ہے۔ کمشن،معزز عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کرسکتا ہے،کہ وقف رقبہ محکمہ اوقاف کی ملکیت ہے۔ یہ شخص ناجائز کاشت کررہا ہے اور ریونیو کی مدّ میں سرکاری خزانے کو نقصان پہنچا رہا ہے۔اس تمام کارروائی کے لیے متعلقہ ایڈ منسٹریٹر اور منیجر اگر ذاتی دلچسپی نہ لے گاتو محکمہ مال کے آفیسران اور عملہ بھی کاغذی کارروائی تک ہی محدود رہیں گے اور مراسلہ جات فائلوں کی زینت بنے رہیں گے۔ برصغیر میں سرکاری سطح پر زمینوں کے انتظام و انصرام کی تاریخ کا آغاز شیر شاہ سوری سے ہوتا ہے۔ شیر شاہ نے صوبائی حکومتوں کو منظم کیا، انتظامی سہولت کے تحت ضلعی حلقہ بندیوں کا اہتمام اور تحصیلو ں کی تشکیل کا بندوبست کیا۔ ایک تحصیل متعدد دیہاتوں پر مشتمل ہوتی، جس کے انتظام و انصرام کے لیے چوکیدار، پٹواری اور نمبردار فائز کیے۔ نمبردار کو دیہات میں اہم مقام حاصل تھا، باہمی تنازعات کے فیصلے پنچائتوں کے ذریعے ہوتے۔ جلال الدین محمد اکبر کو اپنے عہد کے ریونیو ایکسپرٹ دستیاب تھے، جس میں مظفرخان، راجہ ٹوڈرمل اور شہاب الدین بطور خاص قابل ِذکر ہیں، اس عہد میں ٹوڈرمل کا '' بندوبست اراضی '' معروف ہوا، جو اورنگ زیب کی وفات تک رائج رہا۔ انگریز دور 1860ء میں، اس شعبے پر کام کا آغاز ہوااور سال 1900ء میں پہلا بندوبست اراضی معرض ِعمل میں آیا، جو 1940ء میں جامع اندازاور موثر طریقے سے نافذ ہوا۔یہ تقریباً ًہمارے ملک میں رائج ہے۔ برطانوی حکومت نے جب ریونیو ریفارمز کا آغاز کیا تو اس کی چالیس کتابیں تیار کروائیں۔ سب سے پہلی ''شرط واجب العرض ''تھی، جو اس ضمن میں اہم اور بنیادی اہمیت کی حامل تھی۔ اس دستاویز میں ہر گاؤں کو ایک ''ریونیوسٹیٹ'' قراردے کر، اس کی مکمل تفصیل درج کی گئی۔ اس عہد میں محکمہ مال نے حیرت انگیز طریقے سے زمین کے ایک ایک چپّے کی پیمائش کی۔ پنجاب کے ضلع گڑ گاؤں، کرنال سے لے کر ضلع اٹک کے دریائے سندھ تک، اس احتیاط اور عرق ریزی سے یہ مشق مکمل کی گئی کہ درمیان میں آنے والے ندی، نالے، دریا، سڑکیں، راستے، جنگل،پہاڑ، کھائیوں، آبادیوں وغیرہ کا بھی اندراج ہوا۔ ہر گاؤں، قریہ اور شہر کے اندر زمین کے جس قدر بھی ٹکڑے، جس بھی شکل میں موجود تھے، ان کو خسرہ نمبران، کیلہ نمبران وغیرہ الاٹ کیے، ہر نمبر کے گرد چاروں طرف پیمائش کرم (ساڑھے پانچ فٹ فی کرم)کے حساب سے درج ہوئی۔اس پیمائش کو ریکارڈ بنانے کے لیے ہر گاؤں میں فیلڈ بُک تیار کی گئی، جب حد موضع (ریونیو سٹیٹ)قائم ہوگئی تو اس میں خسرہ نمبران ترتیب وار درج کر کے، ہر نمبر کی چاروں اطراف سے جو کرم کے حساب سے زمین برآمد ہوئی، درج کر کے اس کا رقبہ مساحت (Mensuration)یعنی پیمائش اراضیات کے فارمولے کے تحت وضع کرکے، اس کا اندراج کردیا۔فیلڈ بُک میں ملکیتی،خسرہ نمبران کے علاوہ سڑکوں، عام راستوں، بند وغیرہ جملہ اراضی کو بھی نمبر الاٹ کر کے، ان کی پیمائش تحریر کی گئی، اس دستاویز کی تیاری کے بعد، اس کی سو فیصد پڑتال کا کام افسران بالا نے کیا۔ اس کا نقشہ آج بھی متعلقہ تحصیل اور ضلع کے محافظ خانوں میں موجود ہے، جس کی مدد سے پٹواری، گاؤں کا نقشہ (لٹھا) تیارکرتا ہے۔ یہ دستاویز، آج اتنی اہم اور موثر ہے کہ آپ لاکھ اپنا شجرہ، نسب یا قوم تبدیل کرلیں، بس ذرا تحصیل یا ضلع کے ''محافظ خانے''تک رسائی کی دیر ہے، آپ کے دادا، پردادا تک کا شجرہ برآمد ہوجائے گا۔ ''محافظ خانہ'' ڈسٹرکٹ کورٹس میں ہوتا ہے۔ وہاں جا کر آپ1872ئ، 1880ء یا 1905ء کا ریکارڈ بندوبست مہیا کریں۔ انگریزدور کے ان سالوں میں مردم شماری ہوئی، اس کو مقامی سطح پر لوگوں کی ذات پات سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ہرگاؤں میں ایک پنچائیت بیٹھتی، جس میں گرداور، پٹواری، نمبردار، ذیلدار اور چوکیدار وغیرہ موجود ہوتے۔ گاؤں کے اجتماع میں ہر گھر کی اراضی کے ساتھ ان کی ذات پوچھی جاتی اور پھر باآواز ِ بلند اس کا اعلان ہوتا، جم ِ غفیر سے اس کی تصدیق کے بعد، بندوبست میں اس کا اندراج ہوجاتا۔