پہلا ماڈل
محمد عامر خاکوانی
ہمارے ہاں عملی طور پر دو معاشی ماڈل یا تصورات موجود ہیں۔ پہلا کاروباری افراد کی حوصلہ افزائی ، ان کی سرپرستی اور ہر قیمت پر معاشی سرگرمیاں بڑھانے کا ماڈل ہے۔ اس تصور پر یقین رکھنے والوں کے خیال میں کاروباری سرگرمیاں جاری رہنی چاہئیں، ملکی معیشت چلتی رہے، میگا پراجیکٹ لگتے رہیں، ا س سے روزگار ملے گا، ترقی ہوگی جس کے نتیجے میں عام آدمی کو بھی فائدہ پہنچے گا۔پرویز مشرف کے دور میں شوکت عزیز اس تصور کے حامی تھے، وہ اسے ٹریکل ڈائون ایفکٹ کہتے تھے کہ جب معاشی سرگرمی عروج پر ہوگی تو کچھ نہ کچھ نچلے طبقات کو بھی ملے گا۔ پاکستانی سیاست میں مسلم لیگ ن ،(نوے کے عشرے اور اس کے بعد والی)پیپلزپارٹی اس تصور کی بھرپور حامی رہی ہے۔ شریف برادران نے اسے زیادہ بھرپور طریقے سے آگے بڑھایا۔ بنیادی طور پر وہ تاجر اور صنعت کار تھے۔انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ مل لگانے کے لئے کتنے جتن کرنے پڑتے تھے،کاروباری افراد پر قدغنیں ان کے خاندان کو ہمیشہ ناگوار گزرتی رہیں۔نیشنلائزیشن نے انہیں گہرا زخم لگایا، اسی لئے وہ نجکاری، محدود حکومتی کنٹرول اور فری مارکیٹ اکانومی کے حامی رہے۔ شریف خاندان کارویہ ہمیشہ بزنس فرینڈلی رہا۔ مسلم لیگ ن کو سپورٹ کرنے والے اکثر لوگوں کے اس سے ملتے جلتے خیالات ملیں گے۔ بیشتر کاروباری افراد، چھوٹے تاجر اورمعاشی معاملات جوں کے توں چلانے کے خواہش مند لوگ ن لیگ کا مضبوط ووٹ بینک ہیں۔ اس حلقہ فکر کے لوگوں کے نزدیک کرپشن کوئی ایشو نہیں۔ کاروباری لوگ کام ہموار اور تیزی سے چلانے کو ترجیح دیتے ہیں،چاہے اس کے لئے کچھ دینا ، دلانا ہی کیوں نہ پڑجائے۔ ایسا کرنا انہیں کبھی ناگوار نہیں گزرتا، بلکہ ان کے نجی پراجیکٹس میں چند فی صد اس مد کے لئے مختص رکھا جاتا ہے۔ سرکار یعنی بیوروکریسی کو کچھ پیسے لگا دینے سے انہیں اضافی فوائد بھی حاصل ہوجاتے ہیں۔ بجلی، گیس چوری کی سہولت مل گئی، ضوابط و قوانین نرم ہوگئے، ٹیکس بچا لیا، مزدوروں پر لبیر قوانین کا اطلاق نہ کر کے کچھ بچا لیاوغیرہ وغیرہ۔’’ہر سال پانچ چھ سو ارب روپے کرپشن میں ضائع ہو رہا ہے، ملکی دولت لوٹ کر باہر بھیجی جارہی ہے،قرضے بڑھ رہے ہیں، متوازی معیشت سے بیڑا غرق ہوگیا ،گڈ گورننس ہونی چاہیے وغیرہ وغیرہ‘‘… اس طرح کی باتیں اس حلقہ فکر کے لوگوں کے لئے معمولی سی کشش بھی نہیں رکھتیں۔ ان کے خیال میں یہ پارٹ آف دی گیم ہے، اس پر زیادہ دھیان نہیں دینا چاہیے، کاروبار چلتے رہیں گے تو ہر ایک کو کچھ نہ کچھ مل جائے گا۔ن لیگ کی قیادت نے اپنے اس نظریے کو میگا پراجیکٹ بنا کر مزید مستحکم کیا،میٹرو بسیں، اورنج ٹرین ، بڑے بڑے فلائی اوور، انڈرپاسز وغیرہ ، جس سے ایک طرف ووٹر متاثر ہو، دوسری طرف بڑے منصوبوں میں آسانی سے بہت کچھ غتربود کیا جا سکے۔پیپلزپارٹی روایتی طور پر پرومزدور، پرو کسان جماعت رہی ہے، زرداری صاحب کے دور میں وہ سب کچھ تو ختم ہوگیا، مگر ایک نشانی کے طور پر سرکاری محکموں میں ملازم بھرتی کرنے کی پریکٹس جاری رہتی ہے۔ ہر دور میں مختلف محکمے ہزاروں فاضل، غیر ضروری، میرٹ سے ہٹ کر نالائق لوگوں کی بھرتی کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں،بعض (سٹیل ملز، پی آئی اے جیسے )تو سانس بھی نہیں لے پاتے۔اس سے دو فائدے ملتے ہیں، ایک تو ارکان اسمبلی ملازمتیں فروخت کر کے کچھ مال بنا لیتے ہیں،مقامی سطح پر دو چار چمچے کڑچھے بھی اکاموڈیٹ ہوجاتے ہیں، اکادکا کارکن کو بھی جگہ مل جاتی ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ ہر باران کے بعد آنے والی حکومت اس بلاجواز، غیر ضروری اور غلط بھرتی کو ختم کردیتی ہے ، چند سال بعد پیپلزپارٹی کو دوبارہ آنے کا موقعہ ملے تو مزے سے ان تمام برطرف شدہ افراد کو پچھلی تنخواہوں کے ساتھ بحال کر دیا جاتا ہے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ کروڑوں ، اربوں روپے اس میں اڑ جائیں گے۔ اوپر بیان کی گئی باتیں مفروضہ نہیں بلکہ ایک باقاعدہ سکول آف تھاٹ ہے۔ پاکستان میں اچھے خاصے لوگوں پر مشتمل ایک حلقہ یہی سوچ رکھتا ہے اور اسی بنیاد پرووٹ دینے کا فیصلہ کرتا ہے۔ ہمارے ایک صحافی دوست جو سوشل میڈیا کے معروف بلاگر ہیں، وہ اس نظریے کے نہ صرف حامی بلکہ پرزور موید ہیں۔وہ ہمیشہ یہ کہتے ہیں ،’’ کرپشن کی باتیں چھوڑ دیں ، بہت ہوگئی ، سرمایہ داروں کو کام کرنے دیں،اس سے ملک ترقی کرے گا۔ احتساب، لوٹی دولت واپس لانے ، چوروں کو پکڑنے والی باتوں سے کاروباری لوگ ڈر جائیں گے، سرمایہ باہر چلا جائے گااور ملکی معیشت ڈوب جائے گی۔ ‘‘اپنے بلاگز میں وہ ہمیشہ ان ارب پتی سیاست دانوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ، جنہوں نے کمال ہوشیاری سے مال بنایااور انتظامیہ اور سرکاری اداروں کو الو بنانے میں کامیاب رہے۔ ایک خاص قسم کے مسرت آمیز ولولے سے پچھلے دنوں انہوں نے اطلاع دی کہ فلاں سیاستدان کے ڈرائیور نے بھی کروڑوں کما لئے اور کوئی اسے پکڑنہیں سکا، وہ باہر نکل گیا اور سرکاری ادارے سر پیٹتے رہ گئے۔ اس پر لوگوں نے انہیں مشورہ دیا کہ ممکن ہے آپ کے لئے یہ خوشی کی خبر ہو،لیکن اس کا یوں برملا اظہار مناسب نہیں۔ ویسے بظاہر تو اس تصور میں کوئی برائی نہیں۔ ظاہر ہے کاروباری طبقے کے لئے ماحول سازگار بنانا چاہیے،نئی انڈسٹری لگانے کی حوصلہ افزائی ہو، ضابطے آسان کئے جائیں، ون ونڈو آپریشن ہو، ٹیکس مشینری بزنس کلاس کو تنگ نہ کرے۔ حکومتی مداخلت کم ہوکہ کاروبار تیزی سے پھل پھول سکے۔ یہ کلاسیکل کیپیٹل ازم ہے، جس کے تحت منڈی کی معیشت کو اپنے قواعد خود مرتب کرنے دئیے جائیں، حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں، جن کا کام ہے انہیں کرنے دے، ان کے لئے سہولتیں پیدا کرے اور پھر تیز رفتار معیشت کے ثمرات پورا معاشرہ اٹھائے۔ امریکہ اور یورپ کے بیشتر ممالک، بھارت وغیرہ میں بھی یہی تصورات ہی کارفرما ہیں۔ ایک بڑا فرق مگر مہذب مغربی دنیا اور ہمارے جیسے ترقی پزیر ممالک کے دونمبر یا جعلی کیپیٹل ازم میں موجود ہے۔ امریکہ ، یورپ وغیرہ میں کاروباری افراد کو بھرپور سپورٹ ، سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں، مگر ٹیکس کے معاملے میں کسی سے رو رعایت نہیں روا رکھی جاتی۔ طاقتور افراد اپنے سرمایے کی قوت سے ٹیکس چوری نہیں کر سکتے۔وہ رشوت دے کر انتظامیہ کو مفلوج اور قوانین کے ساتھ کھلواڑ نہیں کر سکتے۔وہاں ادارے مضبوط ہیں، وہ آٹومیٹک سسٹم سے ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہیں۔ ایسے ریگولیٹری ادارے موجود ہیں جو بڑے کاروباری کارٹلز پر نظر رکھتے ہیں اور انہیں ملی بھگت سے نرخ نہیں بڑھانے دیتے۔ اشیائے خورونوش (بریڈ، انڈے، دودھ ، مکھن وغیرہ)کے نرخ برسوں بلکہ عشروں تک ایک ہی رہتے ہیںتاکہ غریب آدمی بھی تھوڑے پیسوں سے اپنے کھانے پینے کی چیزیں لے سکے۔اسی طرح یہ تصور تک نہیں کہ خراب یا ناقص چیزیں بنا کر اندھا دھند منافع کمایا جاسکتا ہے۔ جعلی یا دو نمبر ادویات کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔پاکستان میں اس کے برعکس ہوا۔ یہاں کاروباری لوگ سیاست میں آ کر زیادہ طاقتور بن گئے، ان کا استحصال شدید اور وسیع تر ہوتا گیا۔جب حکمران لوٹ مار کریں گے تو پھر بیوروکریسی اس عمل کو انتہائی حد تک لے جائے گی،بدقسمتی سے ایسا ہی ہوا۔ادارے دانستہ کمزور رکھے گئے تاکہ طاقتور لوگوں کا احتساب نہ ہوسکے۔ ٹیکس چوروں کو تحفظ دیا گیا،متوازی معیشت کو فروغ ملا، بلیک منی بڑھتی گئی، منی لانڈرنگ کے ذریعے اسے باہر بھیج کر وہاں جائیدادیں، خفیہ اکائونٹس بنائے گئے۔مختلف محکموں اور اداروں میں اپنے من پسند، بیشتر نالائق اور کرپٹ لوگ بھرتی کئے گئے، انہیں غیرمعمولی رفتار سے ترقی دی گئی اوریوں پورے نظام کو ہائی جیک کر لیا گیا۔ پولیس، انتظامیہ، عدلیہ، تعلیم، صحت،ایف آئی اے، سٹیٹ بنک ، الیکشن کمیشن…غرض کوئی طاقتور ادارہ ایسا بچا نہیں، جہاں جڑیں مضبوط اور گہری نہ کی گئی ہوں۔ صرف ایک ادارہ ایسا بچا، جس کے مضبوط اور ناقابل شکست انٹری سسٹم اور سول اثر ورسوخ سے پاک ٹرانسفر، پروموشن نظام نے اسے تباہ ہونے سے بچایا۔ یہی وجہ ہے کہ اس حلقہ فکر اور نقطہ نظر کے لوگوں کی نظر میں سب سے ناپسندیدہ حیثیت اسے ہی حاصل ہے۔یہ خیال کہ ان کے بے پناہ ، بے محابہ اختیارات کے آگے صرف یہی ادارہ بند باندھ سکتا ہے، ورنہ تو مزاحمت کی کوئی قوت باقی نہیں رہنے دی گئی۔ پاکستان کی بیشتر روایتی سیاسی قوتیںخاص کر مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، اے این پی،وغیرہ اس پہلے ماڈل کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ دینی جماعتوں میں سے جماعت اسلامی اس تصور کی اعلانیہ مخالف ہے، حالات کا جبر اسے اس حلقے کے ساتھ کھڑا ہونے پر مجبور کر دے تو الگ بات ہے۔مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کا یہ ایشو نہیں،وہ ہمیشہ اپنے مدارس اور مسلکی مفادات کے ساتھ کچھ ذاتی مفادات کا تڑکہ لگاکرسرکار سے کچھ اینٹھنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ بلوچ ، پشتون قوم پرستوں کے اپنے اپنے چورن ہیں، انہیں بیچنے کی کاوش میں رہتے ہیں۔ ق لیگ، فنکشنل لیگ، ایم کیوا یم وغیرہ کو بھی اس تصور سے کوئی اختلاف نہیں۔ یہ سب بھی اسی ماڈل پر یقین رکھتے ، اسی سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔شخصیات کے ٹکرائو اور سیاسی حالات کے جبر نے انہیں تحریک انصاف کے ساتھ کھڑا کر دیا ہے۔ پاکستان میں تحریک انصاف وہ واحد بڑی سیاسی جماعت ہے جو اس ماڈل کے برعکس دوسرے معاشی ترقی اور گورننس کے ماڈل سے متاثر اور اسے نافذ کرنا چاہتی ہے۔اس ماڈل کے خدوخال پر اگلی نشست میں گفتگو کریں گے۔ آج کل ملک میں جاری انتشار اور گومگو کی کیفیت کو سمجھنا تب زیادہ آسان ہوجائے گا۔