بات کچھ جنت کی
یوسف سراج
منٹو نے اپنی کہانیوں میں کیا پیش کیا؟ عورت ، جنس ، شراب! یہ کیا بھئی ، یہ بھی کسی دانش ور کے کرنے کے کام ہیں۔ جنس ، شراب اور عورت! کتاب میں کچھ تو بلندی ہونی چاہئے ۔کتاب انسانوں میں جانوروں کے اوصاف پیدا کرنے کے لیے تھوڑی ہوتی ہے۔ کتاب کو شعور سے خطاب کرنا چاہئے۔شعور عطا کرنا چاہئے۔ کتاب میں ارفع انسانیت اور رفیع اصولوں کی بات ہونا چاہئے۔ منٹو کو تو کچھ لوگ بڑا ادیب مانتے ہیں۔ تو کیا ایک بڑے ادیب کو کچھ بہتر نہ سوجھنا چاہئے تھا۔ یعنی کچھ ذرا سا مختلف بھی؟ نہیں نہیں ،میرے یار ایسا نہیں ۔ منٹو نے تومعاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھااو رجو محسوس کیا، وہی لکھ دیا۔ اعتراض کرنا ہے تو ایسا کرنے والے انسان پر کیجئے۔ تنقیدکرنا ہے تومعاشرے پر کیجئے، معاشرے کی سوچ پر کیجئے۔ منٹو نے جو لکھا، اس میں اس کا کیا قصور ۔ اس نے تو بس ہاتھ میں آئینہ پکڑا اور معاشرے کو ا س کا چہرہ دکھا دیا۔تو گویا یہ چیزیں انسانی جبلت میں موجود ہیں؟ ہاں ہیںورنہ منٹو کیوں لکھتا ۔ اس میں کیا شک ہے۔ دیکھتے نہیں، خودکو لبرل ، ترقی پسند اور ماڈرن کہنے والاانسان بھی، جاہلیت کی اس لت سے جان نہیں چھڑا سکا۔علم ودانش کے فروغ اور ترقی کی رفعت کے باوجودوہ انھی چیزوں میں ملوث ہے۔ یہ چیزیں آج بھی ’ انسانیت‘ کے لیے لذت اور خوش کامی کی معراج جانی جاتی ہیں۔ آپ اعلیٰ سطحی کوئی بھی پارٹی دیکھ لیں۔ آپ انسانیت کا لکھا لٹریچر پڑھ لیں۔ادب کا حاصل اور نچوڑ دیکھ لیں۔یہی کچھ تو وہاں پیش کیا جاتاہے۔ فلم میں آڑٹ میں۔ اور کیا وہاں تلاوتیں سنائی جاتی اور مسجد دکھائی جاتی ہے۔ اچھا ویسے کیا معاشرے میں کچھ اچھائی بھی تو ہوگی۔ کوئی ایک آدھ جنس کو خدا نہ سمجھنے والابھی تو منٹو کو ملا ہوگا؟ حلال پر اکتفا کرنے والا ، اس کی نمائندگی کرتاکوئی ایک افسانہ ، کوئی ایک کہانی ؟ اچھا خیر اسے چھوڑئیے۔ منٹو نے معاشرے کو وہ حصہ دکھایا، جو وہ دکھانا چاہتاتھا۔ دوسروں نے دوسرا حصہ ، بہتر حصہ بھی دکھایا، وہ بھی بہرحال موجود تھا۔ ہمیشہ موجود ہوتاہے ۔ شر اور خیر دونوں اس دنیا میں ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ کبھی ایک غالب تو کبھی دوسرا غالب ۔ بہرحال منٹو نے وہی لکھا ،جو ا س کے قلم اور ذہن پر چھایا ہوا تھا، ایک قلمکار وہی لکھتا ہے ، جو اس کے دل سے نکلے اور دل سے وہی نکلتاہے ، جودل میں انڈیلا گیا ہو۔ دل میں وہی موجود ہوتاہے ، دماغ کی ہنڈیا میں جو ہر وقت پکتا رہے۔ خیر، یہی بات اگر کتاب نے کر دی ۔ جی ہاں الہامی کتاب نے۔ اگرچہ اس طرح نہیں کی ،جس طرح آپ کرتے ہیں۔ جس طرح کی غلاظت کے طور پر ، معاشرتی غلاظت کے طور پرمنٹو نے کی تھی ، تو بھئی کیوں آپ مضطرب ہو اٹھے۔ اگرمنٹو کے ہاں یہ چیز ادنیٰ اور گھٹیا شکل میں انسان کو مرغوب چیز ہو سکتی ہے، انسانی نفسیات کے لیے متاثر کن چیز ہو سکتی ہے، اس منٹو کے ہاں جو بہرحال محدود عقل والی مخلوق ہے ۔تو کیا ا س نفسیات کا علم ایک خالق کو نہیں ہونا چاہئے، ایک سخت زندگی گزار کر ، ایک مشکل امتحان پا س کر کے آنے والے انسان کے لیے انسان کی پسندیدہ چیز بہترین شکل میں پیش کرنا کیا خد اکے لیے معیوب بات ہے۔ کیا ایک خالق کو انعام دینے کے لیے کسی سے اجازت لینے کا پابند ہونا چاہئے؟ سوال اٹھانا گناہ نہیں، مگر سوال سے کچھ علم اور عقل بھی جھلک جائے تو کچھ حرج بھی نہیں۔ اسلام عیسائیت نہیں۔ جہاں پوپ خدا بن بیٹھا تھا اور سوال اٹھانے والے گردن زدنی قرار پاتے تھے۔ اسلام پر اعتراض اٹھائے گئے ، کتابیں لکھی گئیں اور کتابیں ہی جواب میں لکھی گئیں۔ ہندو اعتراض کرتے ہیں۔ عیسائی پادری اعتراض کرتے ہیں۔اہلِ علم اس کا جواب دیتے ہیں۔ حال ہی میں شیخ احمد دیدات اور ڈاکٹر ذاکر کا نام اسی ضمن میں معروف ہے۔اور لوگ بھی ہیں۔ مگر سوال اور تضحیک میں، سوال اور دوسروں کے جذبات مشتعل کرنے میں فرق ہوتا ہے۔یہ ساری دنیا احمق نہیں، جیسا کہ کچھ لوگ باور کر بیٹھے ہیں۔ یہ لوگ وہی سمجھتے ہیں ، جو لکھا جاتاہے۔ کتاب کا جنھیں شوق ہے ۔ او ر علم کا جنھیں ذوق ہے۔ وہ ایک کتاب اگر نہیں پڑھ لیتے، خود انسان کے موضوع پر انسان ہی کے لیے جو اتاری گئی ، تو کیا خاک کتاب دوستی ہے۔ پھر تو بس جعلی دعویٰ ہے اور کچھ نہیں۔ کتاب آپ نے نہیں پڑھی ۔ ایک کلپ آپ نے سنا اور اعتراض کتاب پر جڑ دیا۔ کتاب اگر پڑھی ہوتی ۔ تو ایسی بات کرنا ہی کیوں پڑتی۔ مصیبت ہی دراصل یہی ہے ۔ اعتراض ہمیشہ وہی کرتے ہیں، کتاب جنھوں نے پڑھی نہیں ہوتی۔ کتاب وہاں وہی پڑھ سکے گا ، جسے یہاں کتاب پڑھنا آتی ہے۔ ایک سطر میں ورنہ مسئلہ حل ہو گیا ہوتا۔وہ سطر اگر پڑھی ہوتی توکیا اعتراض باقی رہتا؟ کیا سوال برقرار رہتا؟ سوال یہ تھا ہی نہیں ۔ یہ وہی جبلت ہے ، بار بار جو عود کر آتی ہے ۔ آدمی کبھی کشمکش میں ہوتاہے ۔ بہتر ہوتا ہے ۔ طبیعت کو ذرا ساوہ تب تھام لے ۔ اب مگر ٹویٹر کی تیلی ہاتھ میں آگئی ہے تو آ گ لگا دی جاتی ہے ۔ کہا گیا، مولوی کا کلپ آجاتاہے۔تو کیا مولوی کی نفرت میں ہم ردِ عمل کے بندے بن کے رہ جائیں گئے؟ آدمی کو اپنے پاؤں کھڑے ہونا چاہئے۔ حور سے آپ کو شکوہ کیاہے؟ حور جنت میںآدمی کی رفیق ِ سفر ہے ، جیسے یہاں معزز خواتین ، قابلِ قدر خواتین ہماری شریک ِ سفر ہیں۔جن کے بغیر آدم کا جنت میں اور ہمارا یہاں دل نہیں لگتا ۔ وہ ایک ایسی زندگی ہے جو اس زندگی سے قطعی الگ ہے۔ کسی ایک کو دوسرے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، کوئی نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا۔ جیسے قرآن نے کہا ، شہیدوں کی زندگی کو تم نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ایسا تم میں شعور نہیں۔ یہ جنت اک اور عالم ہے۔ سو آپ کو خواتین کی تحقیر نہیں کرنی چاہئے۔ وہ دنیاکی ہوں یا جنت کی۔ دوستوں کو دوستی نبھانی چاہئے ، مگر یوں نہیں کہ دوست کی مدد کرنے کے بجائے خود ہی ڈوب جانے کی کوشش فرمانے لگیں۔ جنت تین بار اگر کوئی مانگ لے تو خود جنت آدمی کی خواہشمند ہو جاتی ہے۔ کچھ کلمات مگر ایسے زہریلے ہوتے ہیں کہ ایک بات بھی آدمی کو جہنم میں گر ا دیتی ہے۔ ہمیں دوسروں سے ہمدردی ہونی چاہیے ، ہمیں ان کی مدد کرنی چاہئے، مگر عدل اور انصاف کے ساتھ۔ خدا کو منہ دکھانا ہے۔ ذہن ا بھی یکسو نہیں۔ جلدی جلدی میں یہ لکھ دیا ہے۔ ضرورت پڑی تو بات تفصیل سے بھی کر دی جائے گی۔ شدت پسندی مگر بری ہی چیز ہے ، خواہ یہ مذہبی ہو یا مذہب سے آزادی کی شدت پسندی ۔