بدامنی کی آکاس بیل
سعدیہ قریشی
ہم میسر و موجود چیزوں کی قدرو قیمت کا اندازہ کم ہی کرتے ہیں۔ مگر جب وی شے دسترس میں نہ رہے‘ میسر نہ رہے تو پھر ہم پر اس کی قیمت کھلتی ہے۔ جیسے صحت کی قدر بیماری کے دنوں میں ہوتی ہے۔ دھند آلود یخ بستہ دنوں میں جب دھوپ میسر نہ ہو تو پھر اس کی سکون آور گرمائش کا اندازہ ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی امن کی اہمیت اور قدرو قیمت کا اندازہ ہمیں بدامنی کے دنوں میں ہوتا ہے۔ جب ریاست کی رٹ معطل ہو۔ جب سڑکوں چوراہوں اور چوکوں پر بلوائیوں کا قبضہ ہو۔ گھر سے نکلنا یا پھر کام کی جگہ سے واپس گھر پہنچنا محال ہو جائے۔ جانے پہچانے راستے۔ اجنبی ہو کر آپ کو راستہ دینے سے انکاری ہوں۔ مذہب کا لبادہ اوڑھے ڈنڈا برادر مخلوق نتائج سے بے پرواہ ہو کر کچھ بھی کر گزرنے پر آمادہ ہو۔ راستوں پر قبضہ جمائے یہ مخلوق نہ کسی مریض کی بیماری کی پرواہ کرے نہ کسی بزرگ کے بڑھاپے کی۔ نہ مائوں کی گودیوں میں بلکتے سہمے بچوں کا خیال ہو۔ نہ کام کاج‘ تعلیم کی راہ پر نکلی ہوئی بہنو ں بیٹیوں کا لحاظ بس وحشت اور جنون کا ایک سودا ان کے دماغوں میں سماہا ہو۔ ایسے میں گو اپنے ہی شہروں بس یرغمال اور اپنے ہی چوکوں چوراہوں پر بے بس ہو جاتے ہیں۔ اپنی ہی بستیاں پرائی لگتی ہیں۔ ان حالات میں اندازہ ہوتا ہے کہ امن و امان میں زندگی کے شب و روز کرنا کتنی بڑی خوش نصیبی ہے۔! بدامنی میں اپنے شہر کے چہرے سے پہچان غائب ہو جاتی ہے۔ راستوں پر وحشت کا رقص ہوتا ہے اور اگر امن کا زمانہ ہو تو اجنبی بستیاں بھی اپنائیت سے گلے لگاتی ہیں شہر ماں کی طرح مہربان ہوتا ہے۔ زندگی امن کی فضا میں پھیلتی پھولتی ہے۔ بدامنی تو آکاس بیل کی طرح زندگی سے زندگی کا رس نچوڑ لیتی ہے۔ معصوم بچے جنہیں بلووں ‘ ہنگاموں جلائو گھیرائو کے اس کار وحشت کچھ لینا دینا ہوتا وہ بھی سہم جاتے ہیں کبھی سوچیں کہ بچوں کی معصوم نفسیات پر کیا اثر ہوتا ہو گا جب سکول میں معمول کے مطابق کلاسیں لیتے‘ کلاس ورک کرتے ہوئے انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ شہر کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ اس لیے آپ کو چھٹی دی جا رہی ہے۔ گھروں میں والدین کو دھڑا دھڑ موبائل پیغامات پہنچتے ہیں کہ براہ مہربانی اپنے بچے کو سکول سے آ کر لے جائیں کیونکہ شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں۔ اور شہر میں مامور امن و امان نافذ کرنے پر مامور انتظامیہ اس قابل نہیں ہے کہ شہر کے حالات کو کنٹرول کر سکے۔ اس صورت حال میں آپ کا بچہ سکول میں غیر محفوظ ہے۔ اور پھر عین ممکن ہے کہ آپ جس راستے سے اپنے بچے کو سکول سے لینے آتے ہوں اس راستے پر بلوائیوں کا قبضہ ہو جائے اس لیے بہتر یہی ہے کہ اپنے بچے کو فوراً سکول سے آ کر لے جائیں۔ 13اکتوبر 2018ء کو بالکل یہی صورت حال تھی بچے جب گھروں کو افراتفری میں واپس لائے گئے تو وہ سوال پوچھتے تھے کہ آخر ایسا کیا ہو گیا ہے۔ دانیال جس عمر میں ہے وہ سپرہیروز کی کہانیوں پر مبنی ایسی ویڈیوز اور کارٹونز دیکھتا ہے جس میں ہیرو۔ وطن اور اینی می (enemy)کی تکون موجود ہوتی ہے تو اس کا سب سے پہلا سوال یہی تھا کہ کسی اینی می نے ہمارے شہر پر اٹیک کر دیا ہے اب میں فائٹ کروں گا اس کے بعد صاحبزادے سپائڈر مین کے کاسٹیوم پہن کر باقاعدہ ان دیکھے دشمنوں سے لڑائی کے لیے تیار تھے اور بار بار ایک یہ سوال کہ آپ مجھے بتائیں لڑائی کہاں ہو رہی ہے۔؟اس کے بعد مسلسل سکول 3دن سے بند ہیں۔ مارکیٹیں بند رہیں۔ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر جلائو گھیرائو سے کوئی نہ آ سکا نہ جا سکا سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم صاحب تو ان احتجاجیوں کو دو چار تڑیاں لگا کر اور چھوٹا سا طبقہ کہہ کر چین سدھار گئے۔ پھر پورے تین روز تک ریاست کہیں دکھائی نہیں دی۔ ریاست اپنی تمام تر طاقت اور انتظامی مشینری کے ساتھ چھوٹے سے طبقے کے سامنے بے بس دکھائی دی اور اگر ریاست بے بس نہ ہوتی کیا تعلیمی ادارے اور پرائیویٹ دفاتر تین روز تک بند رہتے۔؟ ایک احتجاجی طبقہ اٹھتا ہے اور ریاست کے نظام کو مفلوج کر دیتا ہے دھرنوں‘ احتجاج اور جلائو گھیرائو سے اپنے موقف کو ریاست پر مسلط کرنے کا کلچر بھی تحریک انصاف ہی کا دیا ہوا ہے اور اپوزیشن کے دور میں وہ ایسے احتجاجوں کو عین اپنا جمہوری حق سمجھتے تھے شہر کو بند کرنا اور ملک کو بند کرنا کی دھمکیاں اکثر کنٹینر سے آیا کرتی تھیں۔ ہم نے ایسے بہت دھرنے اور احتجاج جھیل لیے ہیں۔ اس میں سارا نقصان عوام کی املاک کا ہوتا ہے ہر احتجاج اور دھرنا بالآخر مذاکرات اور کچھ لو اور دو کے کلیے پر ختم ہو جاتا ہے اس بار بھی یہی ہوا لیکن جو رقص جنوں سڑکوں پر رہا۔ جو لوگوں کی گاڑیاں جلائی گئیں۔ موٹر سائیکلوں کو آگ لگائی گئی۔ توڑ پھوڑ ہوئی راہ گیر زخمی ہوئے۔ اس نقصان کو کون پورا کرے گا۔؟اس لیے یہ ضروری ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اس پر قانون سازی کرے کہ احتجاج اور دھرنے چلیے مان لیجیے کہ شہریوں کا جمہوری حق ہے۔ لیکن کام کے لیے شہر کے دخلی اور خارجی راستوں پر اکٹھ پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ اسی طرح موٹر ویز جی ٹی روڈ پر احتجاج غیر قانونی قرار دیا جائے۔ لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں احتجاجی جلسوں کے لیے ایسی جگہیں مخصوص کر دی جائیں جہاں اگر لوگوں کا اکٹھ بھی ہو تو شہریوں کے معمولات زندگی متاثر نہ ہوں۔ اس پر فوری اور موثر قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ روزبروز احتجاجی ٹولے کے ہاتھوں پورا ملک یرغمال بننے سے بچا رہے۔ ان حالات میں جب احتجاجئے شہروں کے نظام کار کو معطل کر کے‘ عملاً ریاست کی رٹ کو معطل کر دیتے ہیں تو پوری دنیا میں پاکستان کی سخت بدنامی ہوتی ہے۔ بدامنی کے انہی دنوں میں مولانا سمیع الحق کا بہیمانہ قتل بھی انتہائی افسوسناک سانحہ ہے۔ یہ بالکل ایسا لگتا ہے کہ جب ملک میں قانون کی گرفت کمزور پڑ جاتی ہے ملک چند سو لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوتا ہے تو ان حالات سے دشمن قوتیں بھی فائدہ اٹھاتی ہیں۔ مولانا کا قتل ایسی ہی کوئی کڑی لگتی ہی۔ بہرحال مولانا سمیع الحق ایک بھر پورس یاسی اور مذہبی خدمات پر مبنی زندگی گزار کر اپنے رب کے حضور سرخرو ہوگے۔ دین کی خدمت بھی کی اور سیاست میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ صد شکر کہ اب حالات نارمل ہیں۔ راستے راہگیروں کو پہچانتے ہیں۔ چوراہے بانہیں پھیلائے راستے دشنے پر آمادہ ہیں اور شہر کسی ماں کی طرح مہربان ہے۔زندگی امن کی فضا میں پھلتی پھولتی ہے۔ بدامنی تو ایک آکاس بیل ہے۔ شہر کے شجر پر چڑھ جائے تو زندگی کو خزاں رسیدہ کر دیتی ہے!