بعض اوقات سپریم کورٹ کا ایک جملہ لکھنے سے 18،18 سال تک کیس چلتے رہتے :چیف جسٹس
اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہا ہے بعض اوقات سپریم کورٹ کا ایک جملہ لکھ دینے سے 18،18 سال تک کیس چلتے رہتے ہیں،خاندانی معاملات میں حقائق کے تعین کے حوالہ سے ہم ہاتھ نہیں لگاتے ، یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیئے ، اس حوالہ سے سب وکلاء کوبتادیں فیملی کورٹ یازیادہ سے زیادہ ایپلٹ کورٹ حقائق کاتعین کرسکتی ہے ، ہائیکورٹ کو بھی حقائق کاتعین نہیں کرنا چاہیئے ۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل دو رکنی بنچ نے جمعہ کے روز مختلف کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے فائنل اورسپلیمنٹری کاز لسٹ میں شامل 23کیسز کی سماعت 33منٹ میں مکمل کرلی۔ بینچ نے احمد نامی درخواستگزار کی جانب سے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کوٹ ادواوردیگر کیخلاف خاندانی تنازع کے حوالہ سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت جونیئر کیل طاہر محمود نے پیش ہوکربتایا کہ ان کے سینئر وکیل کوٹ ادو سے آرہے ہیں اس لئے کیس کی سماعت کچھ دیر کیلئے ملتوی کردی جائے ۔جب کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی وکیل نے کہا ابھی ان کے سینئر نہیں آئے ، سماعت ملتوی کردیں ۔چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی کاکہنا تھا حقائق کے تعین کے حوالہ سے ہم ہاتھ نہیں لگاتے ، یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیئے ، اس حوالہ سے سب وکلاء کوبتادیں کہ فیملی کورٹ یازیادہ سے زیادہ ایپلٹ کورٹ حقائق کاتعین کرسکتی ہے ، ہائی کورٹ کو بھی حقائق کاتعین نہیں کرنا چاہیئے ، اگرکوئی قانونی سوال ہوتوضرور سپریم کورٹ آئیں،سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں قراردے چکی ہے کہ حقائق کے تعین کے حوالے سے ہائیکورٹ فیملی کورٹ کے فیصلہ میں مداخلت نہیں کرسکتی، اگر وکیل اسلام آباد آئیں تووعدہ کریں وہ موکل سے پیسے نہیں لیں گے ، جس تاریخ کاکہتے ہیں اس پر کیس سماعت کیلئے مقررکردیتے ہیں۔ بینچ نے سلطان محمود کی جانب سے عنایت بیگم کیخلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔درخواستگزار نے عدالت سے استدعا کی کہ وکیل کرنے کیلئے وقت دے دیں۔چیف جسٹس کادرخواستگزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا نیچے ساری کارروائی ہوگئی ہے وکیل کس لئے کریں گے ،ڈگری کااجرا ہو گیا ، وکیل کرنے کا فائدہ نہیں۔ درخواستگزارکے زوردینے پر عدالت نے انہیں وکیل کرنے کیلئے وقت دے دیا۔بینچ نے مختاراحمد باجوہ کی جانب سے پنجاب یونیورسٹی کیخلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔چیف جسٹس کادرخواستگزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا 18جولائی 2022کو آپ کیخلاف فیصلہ ہوگیا ہے ، یہ درخواست غیرمئوثر ہوچکی ہے ۔ وکیل کاکہناتھا ان کے موکل کیخلاف ہائیکورٹ کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے ہیں جن کی وجہ سے ان کاکیس متاثر ہوسکتا ہے ۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا ہم وہ ریمارکس حذف کردیتے ہیں۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھادرخواستگزار کیخلاف دئیے گئے ریمارکس حذف کئے جاتے ہیں ، ٹرائل کورٹ قانون کے مطابق کیس کافیصلہ کرے ۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے پرائیویٹ سیکرٹری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا جہاں میں تیزی سے حکم لکھوائوں اورآپ کوسمجھ نہ آئے توآپ نے مجھے روکنا ہے تاکہ غلطی نہ ہو۔بینچ نے مشتاق احمد کی جانب سے مسمات عنایت مرحومہ کے لواحقین اوردیگر کیخلاف زمین کے تنازع پر دائر درخواست پر سماعت کی۔چیف جسٹس کاکہنا تھا ریونیو حکام قانون کے مطابق فیصلہ کریں،درخواست 27روز تاخیر سے دائر کی گئی ہے ۔ درخواستگزار کے وکیل نے کہا عدالت تحریری حکمنامے میں ہمیں متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کی ہدایت جاری کردے ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا میں ایک واقعہ سنا تا ہوں،میں ایک کیس میں رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف ا پیل سن رہا تھا،توپتہ چلا کہ ایک وکیل کے کہنے پر سپریم کورٹ نے ایک جملہ لکھ دیا کہ ٹرائل کورٹ قانون کے مطابق فیصلہ کرے ، اس پر مقدمہ بازی شروع ہو گئی جو 18سال تک جاری رہی، بعض اوقات سپریم کورٹ کا ایک جملہ لکھ دینے سے 18, 18 سال تک کیس چلتے رہتے ہیں،جب ریونیو افسر کو پتہ چلے گا کہ سپریم کورٹ کاحکم ہے تو پھر نیا کام شروع ہو جائے گا، اپنے حکم نامے میں ایسی کوئی آبزرویشن نہیں دیں گے جس سے دوبارہ نیچے مقدمہ شروع ہو جائے ۔جسٹس شاہد بلال حسن نے کہا ہمارے لکھے بغیر بھی جب متعلقہ فورم سے رجوع کر سکتے ہیں۔ پہلے فیصلہ لکھواتے ہوئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھوایا کہ متعلقہ فورم قانون کے مطابق فیصلہ کرے تاہم بعد میں چیف جسٹس نے متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کی آبزرویشن دینے حکم حذف کرادیا اورکہا کہ ہم ایسی کوئی آبزرویشن نہیں دیں گے ۔ بینچ نے سلیم جاوید کی جانب سے عدنان خان اوریگر کیخلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا نام معروف ہیں، کیس کسی اوربینچ کے سامنے سماعت کیلئے مقررکیا جائے جس میں ہم دونوں میں ایک جج نہ ہوں۔ بینچ نے محمد فیضان خان کی جانب سے یمنیٰ شعیب اوردیگر کیخلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کیس 22دن تاخیر سے دائر کیا گیا، قانون سے لاعلمی کیس تاخیر سے دائر کرنے کی وجہ نہیں بن سکتی، جہیز کے سامان کا معاملہ ہے ، سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں قراردے چکی ہے کہ حقائق کے تعین کے حوالے سے ہائیکورٹ فیملی کورٹ کے فیصلہ میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔بینچ نے مسمات سونیا بی بی، فاطمہ شہزاد، مریم سلطانہ، منزہ بی بی، نورین بی بی،حاجرہ بی بی اور گلشن فاطمہ کی جانب سے کیسز کے ایک عدالت سے دوسری عدالت ٹرانفسر کے حوالے سے دائر درخواستیں سماعت کیلئے منظور کرلیں۔ بینچ نے سیدہ خدیجہ بتول کی جانب سے ایم ایس سمسارہ کوچر ہائوس پرائیویٹ لمیٹڈ لاہور اوردیگر کیخلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا ٹرائل کورٹ سپریم کورٹ کاحکمنامہ ملنے کے دوماہ کے اندر کیس کافیصلہ کرے ۔ بینچ نے ایم ایس شفیع سپورٹس وئیر ، سیالکوٹ کی جانب سے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج سیالکوٹ اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔درخواستگزار کے وکیل نے استدعا کی کہ ہائیکورٹ کو کیس کاجلد فیصلہ کر نے کی ہدایات جاری کی جائیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا میرا مسئلہ یہ ہے کہ ہائیکورٹ کو کہتے ہوئے مجھے مناسب نہیں لگتا کیس کیس کافیصلہ کسی مقررہ وقت میں کریں،رجسٹرار ہائیکورٹ سپریم کورٹ کا حکمنامہ کیس سننے والے جج کے سامنے رکھیں۔ عدالت نے درخواست نمٹادی۔