بلوچستان:کان کنوں پر حملہ
بلوچستان میں دکی کے علاقے میں کوئلے کی کان پر دہشت گردوں کے حملہ میں 21 مزدور جاں بحق جبکہ 7 زخمی ہوئے ہیں۔جاں بحق کان کنوں کا تعلق بلوچستان کے علاقوں پشین، قلعہ سیف اللہ ،ژوب،مسلم باغ، موسیٰ خیل اور کچلاک سے ہے، چند جاں بحق مزدور افغان باشندے بھی بتائے جاتے ہیں۔حملہ آوروں نے دستی بموں،جدید رائفلوں اور راکٹوں کا استعمال کیا۔موقع پر موجود مشینری کو نذر آتش کیا گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے دہشت گرد حملے کی مذمت کی ہے۔انہوں نے متعلقہ حکام سے اس کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے جاں بحق کان کنوں کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کیا اور ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے حکومتی عزم کا اعادہ کیا۔ وزیراعظم نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ زخمیوں کے بہترین علاج کو یقینی بنایا جائے۔سید یوسف رضا گیلانی نے بھی ان ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا۔وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے ایک بیان میں کہا کہ ’دہشت گردوں کے خلاف فوری اور موثر کارروائی‘ کا حکم دیا گیا ہے۔انہوں نے ہدایت کی کہ شرپسندوں کو محدود کرنے اور ان کا سراغ لگانے کے لیے علاقے کو گھیرے میں لے لیا جائے۔وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے کہا کہ "دہشت گردوں نے ایک بار پھر غریب مزدوروں کو نشانہ بنا کر ظلم اور جبر کی حدیں پار کر دی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ’’ مجرموں کا ایجنڈا پاکستان کو غیر مستحکم کرنا تھا۔عام غریب مزدوروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ انہیں 'سافٹ ٹارگٹ' سمجھا جاتا ہے۔ دہشت گرد بزدل ہیں۔‘‘ بلوچستان میں تعمیر و ترقی کا عمل صوبے اور دیگر علاقوں سے آنے والے ہنر مندوں و محنت کشوں پر بڑا انحصار کرتا ہے۔قومی ترقی کے دشمن اسی لئے ان ہنر مندوں و مزدوروں کو نشانہ بناتے ہیں۔CPEC توانائی کے شعبہ میں بنیادی ذریعہ کے طور پر کوئلے پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے درآمدی کوئلے اور مقامی پیداوار دونوں پر انحصار کیا جاتا ہے۔ CPEC کے تحت کوئلے سے توانائی کے سات منصوبے مکمل ہو چکے ہیں جبکہ ایک زیر تکمیل ہے۔کوئلے سے توانائی پیدا کرنے والے کل آٹھ منصوبوں میں سے دو بلوچستان میں ہیں، جن میں 1,320 میگاواٹ کا چائنا حب کول پروجیکٹ اور گوادر میں 300 میگاواٹ کا کوئلے سے چلنے والا پاور پروجیکٹ شامل ہے۔ بلوچستان کے ناہموار مناظر میں، کوئلے سے مالا مال اہم مقامات میں قلات، مچھ، گنزہ، ڈگاری، نارواڈھ، سور رینج، شاہرگ، ہرنائی اور دکی شامل ہیں۔یہ علاقے توانائی کی پیداوار کے اہم مرکز کے طور پر ابھرے ہیں۔ پاکستان منرلز ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے اعداد و شمار کے مطابق تین کانوں شاہرگ، سور رینج اور دیگاری سے کوئلے کی پیداوار مجموعی طور پر 348,439 ٹن تک پہنچ گئی ہے۔ یہ پیداوار پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں بلوچستان کے اہم کردار کو ظاہر کرتی ہے، بلوچستان کی معدنی دولت ملک میں ایک کلیدی کھلاڑی کے طور پرصوبائی ترقی کے بیانیے کو تشکیل دیتی ہے۔ پاکستان میں حالیہ دنوں خاص طور پر بلوچستان اور کے پی میں سکیورٹی فورسز، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حفاظتی چوکیوں کو نشانہ بنانے والے حملوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ماہرین اس کی وجہ ملکی معیشت کا دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا بتاتے ہیں۔ماہانہ سکیورٹی رپورٹس کے مطابق، اگست کے مقابلے ستمبر میں دہشت گردی کے حملوں میں 24 فیصد کمی ہوئی، لیکن اگست اور جولائی میں ان میں اضافہ دیکھا گیا۔2023 میں، 789 دہشت گرد حملوں اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں تشدد سے متعلق 1,524 ہلاکتیں اور 1,463 زخمی ہوئے۔ مجموعی طور پر ہلاکتیں چھ سال کی بلند ترین سطح پر ہیں۔تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے 2022 میں حکومت کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ ٹوٹنے اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کے بعد حملوں میں اضافہ ہوا۔کچھ مدت قبل خضدار میں ہونے والے بم دھماکے میں ایک لیویز اہلکار اور مقامی سیاستدان کا بیٹا جاں بحق ہوئے تھے، جب کہ ان کے پک اپ ٹرک کو نشانہ بنانے کے نتیجے میں سیاستدان زخمی ہو گئے تھے۔دو ماہ پہلے خودکار ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں نے پنجگور میں ایک زیر تعمیر مکان پر دھاوا بول دیا تھا جس کے نتیجے میں ملتان سے تعلق رکھنے والے سات مزدور جاں بحق ہو گئے تھے۔ ایک دن بعد، مسلح افراد نے ضلع موسیٰ خیل میں ایک نجی تعمیراتی کمپنی کے کیمپ پر حملہ کر کے وہاں کی مشینری اور گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا تاہم اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔دہشت گردی کے فوری مقاصد پاکستان میں علاقائی تعصب کو ہوا دینا،وسائل کی تقسیم پر غلط فہمیاں پیدا کرنا،قانون نافذ کرنے والے اور سکیورٹی اداروں کی صلاحیت کو متنازع بنانا اور ملک میں عدم تحفظ کی ایسی فضا بنانا ہوتا ہے جس میں بیرونی سرمایہ کاری رک جائے۔بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کا وقت اور طریقہ کار دیکھیں تو صاف عیاں ہوتا ہے کہ بیک وقت کئی قوتیں یہاں بد امنی میں شریک ہیں۔ حالیہ واقعات شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے تناظر میں دیکھے جارہے ہیں۔پاکستان کی معیشت کو مسلسل دہشت گردی ، بد امنی اور عدم استحکام پھیلا کر ترقی سے روکا جا رہا ہے۔یہ صورتحال روائتی گورننس کی جگہ نئے اور جدید طریقہ کار کو آزمانے کا تقاضا کرتی ہے ۔ ایک ایسا طریقہ کار جو تنازعات کو کم کرکے مقامی آبادی کو ریاستی مفادات کے ساتھ جوڑے،معاشی منصوبوں کے فوائد عام آدمی تک پہنچائے اور شکایت کی صورت میں فوری بروئے کار آئے۔قومی یکجہتی کے لئے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔بیرونی عناصر سرگرم دکھائی دیں تو انہیں سختی سے روکا جائے ۔