بلوچستان کا پہلامحسن
آصف محمود
دہشت گردوں نے کوئٹہ کو لہو سے نہلا دیا تو دل کو کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں۔ کیا آپ اس شخص کا نام جانتے ہیں جس نے بلوچستان کے حقوق کے لیے سب سے پہلے آواز اٹھائی؟ اس شخص کا نام محمد علی جناح تھا ، قائد اعظم محمد علی جناح۔یہ وہ وقت تھا جب ایجنٹ گورنرجنرل رابرٹ سنڈیمن بلوچستان آیا تو وہاں کے سردار وں نے اس کی بگھی سے گھوڑے نکال لیے اور ان کی جگہ خود جت گئے اور ریلوے سٹیشن سے ریذیڈنسی تک بگھی کو کھینچتے ہوئے لے گئے۔ایک قائد اعظم تھے جو اس وقت بلوچستان کے حقوق کی بات کر رہے تھے ، باقی تو انگریز کی بگھی میں جتے ہوئے تھے۔ قائد اعظم کے 14 نکات تو آپ ہم سب نے پڑھے ہوں گے لیکن کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ اس میں لکھے اس نکتے کا کیا مطلب تھا کہ ’’ بلوچستان میں آئینی اصلاحات نافذکر کے اسے دوسرے صوبوں کے برابر درجہ دیا جائے‘‘؟ بلوچستان کے حقوق کی بات قائد اعظم کا دیرینہ مطالبہ تھا۔ مارچ 1927 میں ہندو مسلم اتحاد کے لیے جو پانچ نکاتی فارمولا مسلم لیگ نے پیش کیا اس کا دوسرا نکتہ ہی بلوچستان سے متعلق تھا اور لکھا تھا کہ بلوچستان میں آئینی اصلاحات نافذ کی جائیں ، یہ سرزمین بے آئین نہیں رہنا چاہیے ۔اس کا حق ہے کہ اسے دوسرے صوبوں کی طرح حقوق دیے جائیں۔ دسمبر 1928 میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس میں بھی یہی مطالبہ شامل کیا گیا اور پھر قائد اعظم نے اپنے چودہ نکات میں بھی اسی مطالبے کو شامل کیا۔ قائد اعظم کو یہ مطالبہ کیوں کرنا پڑا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں قدیم زمانوں کا ظالمانہ نظام نافذ تھا۔ جہاں کسی انسان کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ بس نواب اور وڈیرے تھے اور انگریز سرکار ان کی سرپرست تھی ، اس سرپرستی کی وجہ سے انہیں آزادی تھی کہ جنگل کے بادشاہ بن کر رہیں۔ حالت یہ تھی کہ قلات کے والی میر خدا داد خان نے ایجنٹ گورنرجنرل رابرٹ سنڈیمن کے سامنے یہ بات تسلیم کی تھی کہ وہ اب تک 3500عورتوں اور مردوں کو قتل کر چکا ہے۔ والیان ریاست کو صرف انگریز کا وفادار بن کر رہنا ہوتا تھا۔ اس کے بدلے انہیں ہر طرح کے ظلم وستم کی کھلی اجازت تھی۔ یہ سرداری نظام بھی بلوچستان میں اسی ایجنٹ گورنرجنرل رابرٹ سنڈیمن نے مسلط کیا تھا۔ یہ انگریزوں کے مفاد کا تقاضا تھا۔ چنانچہ باقی صوبوں میں 1909 اور پھر 1919 میں اصلاحات نافذ کی گئیں لیکن بلوچستان میں ان کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ کیونکہ روس کے خلاف جنگی حکمت عملی کے تحت یہاں ایک خاص طرز کا نظام حکومت درکار تھا۔ انگریز کی وفاداری واحد شرط تھی اور اس کے بدلے میں سرداروں وڈیروں کو آزادی تھی، وہ معاشرے کو جنگل سمجھ کر معاملہ کریں۔روس کے سامنے یہ انگریزو ں کا بفر زون تھا۔ اس بفر زون کے نواب، خان اور وڈیرے انگریز کے مہرے تھے۔ یہاں کسی انسان کو کوئی حقوق دستیاب نہ تھے۔ سب سے بڑی ریاست قلات کا احوال ہی دیکھ لیجیے۔ 1839 سے یہاں کا ہر نواب ہر خان انگریز کی مرضی سے حاکم بنا اور اسی کی خوشنودی سے حکومت کرتا رہا۔شاہ نواز کو خان آف قلات کس نے بنایا؟ الگزینڈر برنز اور تھامس ولشائر نے۔یہ الگ بات کہ خان صاحب کی خانی کا دورانیہ ایک سال ہی رہا اور 1840 میں کرنل سٹیسی کی تجویز پر میر شاہ نواز کو ہٹا کر میر نصیر خان دوئم کو خان آف قلات بنا دیا گیا۔ گدی نشینی کی رسم بھی انگریز افسر میجر جیمز اوٹرام نے ادا کی۔ اسے زہر دے کر مار دیا گیا تو انگریز ہی نے میر خداداد خان کو والی قلات بنا دیا۔کچھ عرصے بعد انگریز نے اسے ہٹا کر شیر دل کو خان آف قلات بنا دیا۔ پھر تھوڑا وقت گزرا شیر دل کو ہٹا کر دوبارہ میر خدا داد خان کو والی قلات کے منصب پر بٹھا دیا۔1893 میں اسے بھی ہٹا دیا گیا اور میر محمود خان کو والی قلات بنا دیا گیا۔ والیان قلات کو لانے اور اتارنے کی یہ لمبی کہانی ہے۔ اس طرز حکومت کا خلاصہ یہ ہے کہ 14 اگست کو جب پاکستان بنا تو قلات کی ریاست میں ایک بھی ہائی سکول موجود نہ تھا۔ خانوں اور وڈیروں کی اولادیں باہر جا کر پڑھ آتی تھیں لیکن عوام کو اس سے دور رکھا گیا۔ جو آخری خان آف قلات تھا ، اس کی حریت فکر کا عالم یہ تھا کہ وہ 1933 میں چاغی لیویز فورس میں ایڈجوٹنٹ کے طور پر انگریز کی نوکری کرتا رہا۔انگریز نے ہی اسے والی قلات بنایا۔ اس ماحول میں ایک قائد اعظم تھے جو بلوچستان کے عام آدمی کے حقوق کی بات کر رہے تھے ۔5 جولائی 1943 میں کوئٹہ میں تقریر کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا :’’ہم نے بلوچستان کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ ہم نے جو چودہ نکات مرتب کیے تھے ان میں سے ایک نکتہ یہ تھا کہ بلوچستان میں وہی آئین دیا جائے جو دسرے صوبوں میں رائج ہے ۔تم لوگوں نے کوئی ترقی نہیں کی۔ میں نوابوں اور سرداروں سے کہتا ہوں دنیا تبدیل ہو رہی ہے تم لوگ بھی خود کو بدلو۔ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرو ۔ اپنی قوم اور اپنے عوام کے بارے میں اپنا فرض پہچانو‘‘۔ 6 جولائی کو کوئٹہ میں ہی خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا:’’تمہارا صوبہ ہر لحاظ سے پیچھے ہے۔ تم نے کوئی ترقی نہیں کی۔ تعلیمی لحاظ سے تم سب سے پیچھے ہو۔ معاشی اعتبار سے یہاں غربت انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔تجارت میںکوئی جگہ نہیںہے۔ نوجوانو ! اب جاگ جائو، اس موقع سے فائدہ اٹھائو۔ اپنے عوام کی قومی زندگی کی تعمیر کرو۔ ان کا تعلیمی ، معاشی، معاشرتی اور سیاسی معیار بلند کرو ۔جب تک تم تعلیم حاصل کر رہے ہو سیاسیات میں حصہ مت لو۔ اپنی پوری توجہ تعلیم پر صرف کرو۔ یہ تمہارا اولین فرض ہے جو تمہارے والدین اور تمہاری قوم کی طرف سے تم پر عائد ہے۔ ‘‘ آپ تصور کیجیے ، پاکستان ابھی بنا نہیں ، تحریک چل رہی ہے ، اور تحریک میں نوجوانوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بلوچستان کے طلبا کو قائد اعظم کہہ رہے ہیں کہ جب تک تم تعلیم حاصل کر رہے ہو سیاسیات میں حصہ مت لو۔ اپنی پوری توجہ تعلیم پر صرف کرو۔ یہ تمہارا اولین فرض ہے جو تمہارے والدین اور تمہاری قوم کی طرف سے تم پر عائد ہے۔ ـ۔۔۔۔ ایک صوبے کے لیے خیر خواہی کے سوااس کو کیا نام دیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان آج ایک بار پر دوراہے پر ہے۔اطراف میں تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ سی پیک کے امکانات بھی ہیں اور پاکستان دشمن پراکسی بھی چل رہی ہے۔ بلوچستان کو آج پھر قائد اعظم پکار پکار کر کہہ رہے ہیں:’’تمہارا صوبہ ہر لحاظ سے پیچھے ہے۔ تم نے کوئی ترقی نہیں کی۔ تعلیمی لحاظ سے تم سب سے پیچھے ہو۔ معاشی اعتبار سے یہاں غربت انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔تجارت میں کوئی کوئی جگہ نہیںہے۔ نوجوانو ! اب جاگ جائو، اس موقع سے فائدہ اٹھائو۔ دہشت گردی کی نفی کرتے ہوئے اپنے عوام کی قومی زندگی کی تعمیر کرو۔‘‘