2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

بنگلہ دیش :حسینہ واجد دور کا اختتام

06-08-2024

بنگلہ دیشی فوج کے سربراہ جنرل وقار الزماں نے وزیر اعظم حسینہ واجد کے استعفے کے بعد ملک میں قومی حکومت کے قیام اور امن قائم کرنے کے لئے فوج کے فیصلے نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔حال ہی میں چوتھی بار ملک کی وزیر اعظم منتخب ہونے والی حسینہ واجد کے خلاف پچھلے کچھ ہفتوں سے طلبا کے مظاہرے جاری تھے۔طلبا کا مطالبہ تھا کہ حسینہ واجد اپنے سیاسی حامیوں کو نوازنے کے لئے انہیں ،، آزادی کا مجاہد،، قرار دے کر ان کے خاندانوں کو سرکاری ملازمتوں میں تیس فیصد کوٹہ دے رہی تھیں۔طلبا کی جانب سے اس کوٹے کو غیر منصفانہ کہا گیا اور اس کے خاتمہ کا مطالبہ کیا گیا۔عوامی لیگ کی سربراہ اور وزیر اعظم حسینہ واجد نے کوٹے کا خاتمہ کے لئے مظاہرہ کرنے والوں کو پاکستان کا ایجنٹ قرار دیا۔وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے اس بیان نے نوجوانوں کی بڑی تعداد کو طیش دلایا ۔ ان طلبا کے مطابق وزیر اعظم نے کوٹہ نظام کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو 1971 کی جنگ میں پاکستان کی مدد کرنے والے ’رضاکاروں‘ سے تشبیہ دی۔ایسے میں ملک کے دارالحکومت ڈھاکہ سمیت کئی شہروں میں احتجاجی مظاہروں کے دوران اس نظام کے مخالفین اور برسراقتدار عوامی لیگ کے طلبہ کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن کے دوران لاٹھیوں اور اینٹوں کا استعمال ہوا، پولیس کی جانب سے آنسو گیس کے گولے پھینکے گئے اور ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں جس کی وجہ سے سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔مظاہرین نے حکومت کو نو نکاتی مطالبات کی فہرست دی اور پھر عدلیہ کی مداخلت سے بظاہر انتظامیہ نے یہ مطالبات تسلیم بھی کر لیے مگر حکومت کی غیر دانشمندی اور ضرورت سے زیادہ ریاستی طاقت پر انحصار کے باعث مظاہروں کا یہ سلسلہ رک نہ سکا۔ کچھ عرصہ قبل عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں بنگلہ دیشی معیشت کی ستائش کی تھی۔عالمی بینک کے مطابق 2031 تک اعلیٰ ودرمیانی آمدن والے ملک کا درجہ حاصل کرنے کے لیے بنگلہ دیش کو مسابقتی کاروباری ماحول کے ذریعے ملازمتیں پیدا کرنے، انسانی سرمائے میں اضافہ اور ایک ہنر مند لیبر فورس بنانے، موثر انفراسٹرکچر کی تعمیر اور نجی سرمایہ کاری کو راغب کرنے والا پالیسی ماحول قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ترقیاتی ترجیحات میں آر ایم جی سیکٹر سے آگے برآمدات کو متنوع بنانا ہو گا ۔ مالیاتی شعبے کی کمزوریوں کو حل کرنا، شہری آبادی کو مزید مستحکم بنانا اور عوامی اداروں کو مضبوط بنانے سے آمدنی حاصل کی جا سکتی ہے۔ بنگلہ دیش میں موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کے خطرات سے نمٹنے سے مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ یہ عمل اطمینان بخش طریقے سے آگے بڑھ رہا تھا لیکن حسینہ واجد کی فاشسٹ حکومت نے ترقی کا یہ سفر سیاسی انتقام کی نذر کر دیا۔ اتوار کے روز سے بنگلہ دیش میں مظاہرین نے ملک گیر سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا اور شہریوں پر زور دیا کہ وہ ٹیکس یا بجلی بل ادا نہ کریں۔ طلبہ کی جانب سے تمام فیکٹریوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو بند رکھنے کی اپیل کی گئی ۔ملک کی نازک صورتحال کے پیشِ نظر سابق آرمی چیفس اور فوجی افسران نے ملک کی مسلح افواج سے عام طلبہ کے سامنے نہ آنے کی اپیل کی ۔سابق فوجی افسران نے اتوار کی سہ پہر ڈھاکہ میں ایک پریس کانفرنس میں ملک کے بحران کو حل کرنے کے حوالے سے تجاویز دینا تھیں جو ممکن نہ ہو سکا۔ ایک تحریری بیان میں سابق آرمی چیف اقبال کریم نے کہا کہ فوری طور پر مسلح افواج کو واپس آرمی کیمپ میں لانا اور انھیں کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا ضروری ہے۔انھوں نے کہا کہ وہ درخواست کرتے ہیں کہ اس بحران کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے فوج پہل کرے۔اطلاعات کے مطابق ہزاروں مظاہرین نے ملک سے فرار ہونے والی بنگلہ دیشی وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا ۔ ڈھاکہ سمیت ملک بھر میں فوج کے دستے تعینات کیے گئے تھے۔ملک میں طلبہ کی سول نافرمانی تحریک شروع ہو رہی تھی۔ ڈھاکہ کی طرف لانگ مارچ سے قبل انٹرنیٹ سروسز معطل کر دی گئیں۔پیر کے روزہلاک ہونے والوں میں کم از کم 13 پولیس افسران بھی شامل ہیں۔ پورے ملک میں پْرتشدد واقعات روکنے کے لیے کرفیو نافذ ہے۔جولائی میں شروع ہونے والا طلبہ کا احتجاج بنیادی طور پر سرکاری نوکریوں میں کوٹا سسٹم کے خلاف تھا مگر یہ جلد حکومت مخالف تحریک میں بدل گیا۔اب تک بنگلہ دیش کے پْرتشدد واقعات میں کم از کم پانچ سو افراد کی ہلاکت ہوئی ہے جبکہ بنگلہ دیش کے مقامی ذرائع ہلاکتوں کی تعداد دو ہزار سے زیادہ بتا رہے ہیں۔بنگلہ دیش میں عوامی احتجاج اگرچہ ملازمت میں عوامی لیگ کے حامیوں کے تیس فیصد کوٹے کے خلاف تھا لیکن مبصرین اس کی بڑی وجہ مسلسل سیاسی انتقام کو قرار دیتے ہیں۔حسینہ واجد نے بھارت کی مودی حکومت کے ساتھ مل کر خطے میں بھارتی غلبے کا راستہ ہموار کیا،بنگلہ دیش کے عوام اس پالیسی کے حامی نہیں تھے۔بنگلہ دیش میں چین اور بھارت کے درمیان ایک معاشی اور سیاسی کشمکش مدت سے بڑھ رہی تھی۔کمزور اور چھوٹے ممالک کو بڑے ہمسائے نے اپنے حلقہ اثر میں رکھنے کے لئے جو غیر ضروری بندو بست اور جبر کی پالیسیاں اپنی حامی حکومت کے ذریعے نافذ کرائیں انہوں نے عوام کو احساس دلایا کہ ان کی خود مختاری پر سمجھوتہ کیا جا رہا ہے۔طلبا ہر سماج کا سب سے فعال ، سرگرم اور جوش سے لبریز طبقہ ہوتے ہیں ۔بنگلہ دیشی طلبا نے جان کی پرواہ کئے بنا عوامی لیگ کی فاشسٹ پالیسیوں کا مقابلہ کیا ۔بنگلہ دیش کے طلبا کو معاشی ترقی کی رفتار بحال رکھنے،جمہوریت کے تحفظ اور معمولات زندگی کی طرف جلد واپس آنے کے لئے اپنا کردار نئے ڈھب سے جاری رکھنا ہو گا۔