بنگلہ دیش : پراکسی نہیں ، فوج
آصف محمود
’’بنگلہ دیش کی سیاست میں فاشسٹ حسینہ واجد اور اس کی فاشسٹ عوامی لیگ کے لیے فی الحال کوئی گنجائش نہیں‘‘۔ یہ ڈھاکہ کے کسی جذباتی نوجوان کا موقف نہیں ، یہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کا بیان ہے جن کی عمر 84 سال ہے ۔ فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والے اس بیان میں غوروفکر کا بہت سارا سامان موجود ہے۔ اس بیان کے متن میں کچھ نیا نہیں ۔ ایسے بیان ہم یہاں روز پڑھتے اور سنتے ہیں۔ اہم یہ ہے کہ بیان دینے والا کوئی جواں سال جذباتی کارکن نہیں ، نہ ہی وہ حسینہ واجد کاسیاسی مخالف ہے۔ یہ ا یک ایسے آدمی کا بیان ہے جو نوبل انعام یافتہ ہے ۔ بھرپور شناخت رکھتاہے اور اسے معلوم ہے وہ کیا کہہ رہا ہے ۔ اس بیان کی شرح بھی محمد یونس نے خود ہی بیان کر دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حسینہ واجد اور ان کی پارٹی فاشسٹ ہے۔ انہوں نے اپنے جبر سے لوگوں کو قابو کر کے رکھا ہوا تھا ،ساری سیاسی مشینری ان کے قبضے میں تھی، انہوں نے ریاستی اداروں کو اپنے شکنجے میں لے کر اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ۔ یہ جو آخری نکتہ ہے ، یہ زیادہ قابل غور ہے ۔سیاست کی حد تک حسینہ واجد کا فاشزم سامنے کی حقیقت ہے لیکن اس کا کیا مطلب ہے کہ ’’ انہوں نے ریاستی اداروں کو اپنے شکنجے میں لے کر اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ‘‘؟ اس کا آسان سا مطلب یہ ہے کہ چونکہ حسینہ واجد کی سرپرستی بھارت کر رہا تھا اس لیے حسینہ واجد نے فوج کو بھی بھارتی پراکسی بنا دیا اور فوج کے اعلی افسران بنگلہ دیش کی بجائے بھارتی مفادات کے لیے کام کرنے لگے۔ یہ کوئی اندازہ یا تجزیہ نہیں ہے ، یہ حقیقت ہے اور بنگلہ دیش کے اخبارات اس حقیقت کے ابلاغ سے بھرے پڑے ہیں۔ حال ہی میں بنگلہ دیش کے تین جرنیلوں کو فوج سے نکال دیا گیاہے۔ایک لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن کو تو ڈس مس کر دیا گیا ہے ۔ دوسرے لیفٹیننٹ جنرل سیف العالم، انہیں جبری ریٹائر کر دیا گیا ہے۔نہ صرف انہیں جبری ریٹائر کیا گیا ہے بلکہ ان کے اکائونٹس بھی منجمد کر دیے گئے ہیں اور صرف ان ہی کے نہیں ان کے بچوں کے اکائونٹ بھی منجمد کر دیے گئے ہیں ۔ تاکہ بھارت سرکار کی پراکسی کا کردار ادا کرنے کی بدولت جو کچھ انہوں نے ہتھیایا ہے ، فی الوقت اسے استعمال نہ کر سکیں۔ تیسرے میجر جنرل حامد الحق ، انہیں بھی جبری ریٹائر کر کے گھر بھیج دیا گیا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ تینوں افسران ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فورسز انٹیلی جنس کے سربراہ رہ چکے۔اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے عسکری معاملات میں بھارت کس حد تک دخیل ہو چکا تھا۔جنرل مجیب الرحمن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ قتل و غارت کا جو کھیل مکتی باہنی نے شروع کیا اس کو اب سرکاری سرپرستی میں جنرل مجیب چلا رہا تھا ۔ فاشسٹ طرز حکومت میں یہ اصول طے ہو چکا تھا کہ جو عوامی لیگ کا دشمن ہے وہ بھارت کا دشمن ہے اور جو بھارت کا دشمن ہے وہ عوامی لیگ کا دشمن ہے۔ عوامی لیگ چونکہ بھارتی پراکسی کا کردار ادا کرتی رہی اس لیے بھارت اس کے سیاسی مخالفین کو اپنا دشمن سمجھتا رہا ، ان مخالفین کا دونوں مل جل کر قتل عام کرتے رہے۔ کسی کو عدالتی ٹربیونلز کے ذریعے مار دیا گیا اور کئی جنرل مجیب کے نیٹ ورک کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔چٹا گانگ کے سفیان صدیقی کی تازہ رپورٹ کے مطابق یہ تین دائروں میں ہونے والی دہشت گردی تھی ۔انتظامی ، عدالتی اور بھارتی۔ یہ معاملات اتنے بگڑ چکے تھے کہ بنگلہ دیش کی سکیورٹی کے تقاضے کمپرومائز ہو رہے تھے۔جرنیل بنگلہ دیش کے تھے ، لیکن کام بھارت کے لیے کر رہے تھے۔ ہر وہ تزویراتی منصوبہ ناکام کر لیا جاتا اور ہر وہ تجویز رد کر دی جاتی جس سے بھارت کے مفاد کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا۔ اپنے اقتدار کے لیے بنگلہ دیش آرمی میں بھارتی اثر و رسوخ کو نظر اندازکر دیاگیا۔ اب جب بدلتے حالات میں جنرل مجیب بھاگ کر بھارت گئے تو یہ سارے قصے منظر عام پر آ گئے ۔ یہ جنرل مجیب ہی تھے جنہوں نے براہ راست را کے نیٹ ورک کو بنگلہ دیش میں اپنی چھتری تلے آپریٹ کرنے کی اجازت دی ۔ جنرل مجیب ہی نے ان کو آخری دنوں میں بنگلہ دیش سے بحفاظت بھارت پہنچانے کے انتظامات کیے۔ اخباری خبروں کے مطابق را کے ان آپریٹرز کی تعداد دو سو سے زیادہ تھی جنہیں بنگلہ دیش سے بحفاظت بھارت پہنچایا گیا۔ ڈھاکہ ٹربیون کے مطابق ان پر کم از کم چار سو بنگالی شہریوں کے قتل کا الزام ہے۔ یہ اتنے طاقت ور تھے کہ حسینہ واجد کی سرپرستی میں کوئی قانون ان پر گرفت نہ کر سکا۔ انہوں نے ریاست کے اندر ایک ریاست بنا رکھی تھی جو بھارتی ایجنسی را کی براہ راسست نگرانی میں کام کر رہی تھی۔ اس نیٹ ورک میں شامل قریب نصف درجن جرنیلوں کے نام ان دنوں بنگلہ دیش کے اخبارات میں نمایاں ہیں جو افسران تو بنگلہ دیش کی آرمی کے تھے لیکن ان کی وفاداریاں بھارت کے ساتھ تھیں۔جنرل ضیا الاحسن ، جنرل تبریز ، جنرل صالح ، جنرل اکبر۔۔۔۔۔ایک طویل فہرست ہے جو بتاتی ہے کہ حقیقت حال کیا تھی۔ چنانچہ جب حال ہی میں ’’ مکتی جودھا ‘‘ یعنی مکتی باہنی کے دہشت گردوں کی اولاد کے لیے تیس فیصد کوٹے کے خلاف تحریک چلی تو اسے کچلنے کے لیے بنگلہ دیش کی فوج کے افسران تیار نہ ہوئے۔ وہ جانتے تھے کہ اعلی افسران بھارتی پراکسی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس دفعہ ، یوں سمجھیے کہ ، بنگلہ دیشی فوج میں ایسے عناصر غالب تھے جنہوں نے واضح پیغام دے دیا تھا کہ اب بھارتی پراکسی بننے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس واضح پیغام کے بعد ہی حسینہ واجد بھارت بھاگیں ، ورنہ ان کا خیال یہی تھا کہ جس طرح بھارتی فوجی دستے منگوا کر انہوں نے 2009 کی بغاوت کو کچل دیا تھا اسی طرح وہ حالیہ تحریک کو بھی کچل دیں گی ۔ لیکن اب 2009 نہیں تھا ۔ وہی کام دوسری بار نہ ہو سکا کیونکہ اس دفعہ بنگلہ دیشی فوج کے اندر بھارت کی پراکسی کا کردار ادا کرنے والے جرنیلوں کے خلاف لاوہ پک چکا تھا۔ چنانچہ حسینہ واجد بھاگیں اور ساتھ ان کا بھارت نواز جرنیل مجیب الرحمن بھی بھاگا ۔ یہ بھارت نواز پالیسیوں کے خلاف ویسا ہی رد عمل تھا جیسا شیخ مجیب کی بھارت نوازی کے خلاف آیا تھا۔ فرق یہ تھا کہ اب کی بار رد عمل کا رنگ جمہوری تھا اور اسی وجہ سے حسینہ واجد جان بچا نے میں کامیاب ہو سکیں۔ بنگلہ دیش کی حکومت کے سامنے اس وقت بہت بڑا چیلنج یہی ہے کہ اپنی فوج میں سے بھارت کے لیے کام کرنے والے عناصر کو بے نقاب کر کے الگ کیا جائے۔یہ کام آسان نہیں مگر یہ کام ناگزیر ہے۔بنگلہ دیش مزید بھارتی پراکسی کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔