بول ری کٹھ پتلی
عبداللہ طارق سہیل
چند روز پہلے ایک مقام بلند سے یہ حیرت نامہ جاری ہوا کہ فیصلہ آنے کے بعد بھی کچھ لوگ نواز شریف اور زرداری کی حمایت کر رہے ہیں‘ کمال ہے۔ گزشتہ روز ایک جوابی حیرت نامہ جاری ہوا۔ اس جواب حیرت کو محترمہ بختاور بھٹو نے جاری کیا ہے۔ مقام بلند کا حیرت نامہ تو تمام اخبارات نے لیڈ اور سکینڈ لیڈ کے طور پر چھاپا۔ بختاوربھٹو کا جواب ایک آدھ اخبار نے بھی چھاپا ہے‘ وہ بھی سنگل کالم۔ چلئے یہ بھی غنیمت ہے۔ پرنٹ میڈیا پر بائیکاٹ کا الزام تو بہرحال نہیں لگ سکتا۔ یوں ان ایک دو اخبارات نے ’’آزادی صحافت‘‘ کا ثبوت تو دے ہی دیا۔ اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔ 1۔ مجھے حیرت ہے کہ بنی گالہ کیسے تعمیر کیا گیا ‘ اس کے خرچے کیسے چل رہے ہیں۔ غریبوں کے گھر گرائے جا رہے ہیں‘ بنی گالہ کو ریگولرائز کیا جا رہا ہے۔ 2۔ میں حیران ہوں کرکٹ ٹیم کی 63ملین ڈالر میں خریداری کی منی ٹریل کیوں نہیں مانگی گئی۔ 3۔میں حیران ہوں کہ علیمہ خان سے کمپنیوں اور جائیدادوں کی منی ٹریل کیوں نہیں پوچھی گئی۔ 4۔ حیران ہوں‘ بغیر کسی منی لانڈرنگ کے پشاور بس میٹرو کا منصوبہ ایک کھرب روپے کا کیسے ہو گیا۔ 5۔ میں حیران ہوں‘ کراچی کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کا صفایا ہو گیا اور مینڈیٹ پر سوال نہیں اٹھ رہا۔ کل چھ نکات ہیں اور ہر نکتہ اہم ہے‘ یعنی کٹھ پتلی کو لانے کے لئے سب کچھ کیا گیا ۔ بحث سیر حاصل سے متعلق ہے‘ چنانچہ اس سے صرف نظر کرتے ہوئے بات کو کٹھ پتلی پر ہی رکھنا ٹھیک ہے۔ فقرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ موصوفہ کٹھ پتلی کا ذکر اچھے انداز سے نہیں کر رہیں۔ ان کے خیال میں کٹھ پتلی کوئی ناپسندیدہ شے ہے۔ یہ زیادتی ہے۔کٹھ پتلی کے دو مثبت پہلو ہیں۔ ایک تو وہ عوام کے لئے تفریح کا سستا ذریعہ ہے۔ اتنا سستا کہ بس مفت ہی سمجھئے۔ دوسرا یہ کہ کٹھ پتلی ہماری تہذیب اور روایت کی علامت ہے۔ علامت کے خلاف اس قسم کی کھلم کھلا گفتگو قابل دست اندازی نیب بھی ہو سکتی ہے۔ کٹھ پتلی بے چاری خود کوئی جواب نہیں دے سکتی۔ ایک لوک قسم کا گیت ہے کہ بول ری کٹھ پتلی تجھے کون نچائے۔ یہ گیت آپ چاہے جتنا بھی بجائیں‘ کٹھ پتلی نہ بتائے گی نہ بتا سکتی ہے۔ کہ اسے کون نچا رہا ہے۔ وہ محض ناچتی رہے گی۔ دراصل کٹھ پتلی جواب دینے کے لئے بنی ہی نہیں۔ وہ محض ناچنے کے لئے بنی ہے۔ ناچتے دیکھو‘ کچھ پوچھو مت۔ ہاں‘ کٹھ پتلی ڈائیلاگ بولتی ہے لیکن دراصل وہ نہیں بولتی۔ پپٹ ماسٹر جو نظر نہیں آتا۔ وہ بولتا ہے اور پتلی کو ایسے ہلاتا ہے کہ دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ پتلی بول رہی ہے۔ کچھ برس پہلے شاید 2007ء ‘2008ء میں ایک انگریزی ہارر فلم خاصی مقبول ہوئی تھی۔ ڈیڈ سائلنس Dead Silenceاس میں پپٹ ماسٹر ایک بڑھیا ہوتی ہے یعنی پپٹ مسٹریس کہہ لیجیے۔ اس کا ترجمہ کیا ہو سکتا ہے؟ شاید پتلی والی بائی؟ اختصاراً پتلی بائی کہہ سکتے ہیں۔ فلم میں اس کا نام ’’میری شا‘‘ تھا۔ تو یہ پتلی بائی جادوگرنی بھی تھی۔ لوگوں کو نقصان پہنچانے کی قدرت رکھتی تھی پر یہ قدرت نہیں تھی کہ پتلی میں جان ڈال سکے۔ ایک گُر اسے آتا تھا۔ منہ بند کر کے بول سکتی تھی۔ منہ بالکل بند نہیں ہوتا تھا۔لب ہلتے تھے مگر بہت خفیف سے۔ ناظرین کے نوٹس میں نہیں آتے تھے۔ سٹیج شو میں یہی کہتی تھی کہ میری کٹھ پتلیاں خود سے بولتی ہیں۔ ایک تماشا اس نے کیا تو سامنے بچے بھی بیٹھے تھے۔ جادوگرنی‘ پتلی بائی نے دعویٰ کیا‘ میری کٹھ پتلیاں خود بولتی ہیں‘ لو دیکھو‘ میں ساتھ کھڑی ہوں اور میرا منہ بند ہے۔ یہ بولے گی۔ پتلی بولی‘ ایک بچہ مشاہدے کا تیز تھا۔ اس نے پتلی بائی کے ہونٹوں کی حرکت پکڑ لی اور چلا اٹھا۔ میں نے دیکھا‘ تمہارے لب ہلے۔ جادوگرنی بہت غصے میں آ گئی اور کہا‘تمہیں میں نہیں چھوڑوں گی چنانچہ شو کے بعد اس نے بچے پر جادو چھوڑ دیا‘ بے چارہ سخت مشکل میں آ گیا۔ یہ واقعہ خصوصی طور پر بختاور بھٹو کے لئے ہے وہ اس سے سبق سیکھیں۔ پتلی تماشے پر ہنسیں‘ اس کا مزا لیں۔ کالج کے زمانے میں ایک چک پر پتلی تماشایا دیکھا۔ جب تک مزا آتا رہا۔ پتلی تماشے دکھاتی رہی لوگ بور ہو گئے تو پپٹ ماسٹر نے تماشا سمیٹ لیا۔ گھنٹہ بھر تو بہرحال تماشا خوب جما۔ ان دنوں جو پتلی تماشا چل رہا ہے‘ اس کی شروعات ہی بوریت سے ہوئی تھی جواب کراہت میں بدل گئی ہے۔ لوگ ناک بھوں چڑھا رہے ہیں‘ خدا نہ کرے آستینیں بھی چڑھا لیں۔ بختاوربھٹو کا بیان بھی غصے والا ہے ع بول ری کٹھ پتلی ۔ ڈوری کون سنگ باندھے ٭٭٭٭٭ بختاور محترمہ کا ایک اور نکتہ یہ ہے کہ غریبوں کے مکانات گرائے جا رہے ہیں‘ بنی گالہ کو بچایا جا رہا ہے۔ دراصل اس نکتے کا تعلق کٹھ پتلا صاحب کے اس فرمودے سے ہے کہ ملک میں دو قانون نہیں ہوں گے‘ ایک ہی قانون ہو گا۔ چنانچہ بمطابق فرمودہ ملک میں ایک ہی قانون نافذ ہے اور اس قانون کا عنوان یا خلاصہ یوں سمجھ لیجیے کہ تمہارا کتا کتاّ ہمارا کتا ٹامی۔ اس چھ لفظی قانون کو شاعر نے یوں باندھا ہے ؎ تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی وہ تیرگی جو میرے نامہ‘ سیاہ میں ہے چنانچہ اس ’’ایک قانون‘‘ کے تحت ’’ہمارا‘‘ آدمی اہل قرار پاتا ہے‘ ’’تمہارا‘‘ نااہل ’’ہمارا‘‘ محل سلامت رہتا ہے۔’’تمہارا‘‘ جھگا گرا دیا جاتا ہے۔’’ہمارا آدمی نوٹس وصول کر کے پھاڑ دیتا ہے۔ ’’تمہارا‘‘ نوٹس بنا ہی۔90روز کے ریمانڈ پر چلا جاتا ہے۔ اور کبھی کبھار عالم بالا کو بھی سدھار جاتا۔ لیجئے صاحب کالم کی جگہ ختم ہوئی اور ساتھ ہی لاحاصل کی بحث بھی۔ لیکن یہ مطلق ختم نہیں ہوئی لاحاصل کا سفر ستر سال سے جاری ہے اور بفضل ناخدا مزید جاری رہے گا‘ تا اطلاع ثانی۔