بڑی جناب تیری ، فیضِ عام ہے تیرا
ڈا کٹر طا ہر رضا بخاری
درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے سجادہ نشین، دیوان سیّد طاہر نظامی، دہلی سے ، آپؒ کے سالانہ عرس کی ہمیشہ دعوت ارسال کرتے ہیں ، ابھی تک اس درگاہ ِ مقدسہ کی حاضری کا شرف نہ پاسکا ، گزشتہ ہفتہ آپؒ کے721 ویں سالانہ عرس کی تقریبات بڑی پرعقیدت وارادت سے انعقاد پذیر ہوئیں، جس کا اختتام گزشتہ روز ہوا ۔پاکستانی زائرین کو بڑے ردّوقَد کے بعد عرس میں شرکت کے لیے ، انڈین گورنمنٹ نے، بالکل آخری وقت میں ویزے جاری کیے ۔ خطّے میں طریقت و تصوّف، بالخصوص چشتی نظامی سلسلے کے لوگ ، آپؒ کی ذات ِ اقدس سے ازحد عقیدت و وارفتگی رکھتے ہیں ، آپؒ ، برصغیر کی تاریخ تصوّف میں "محبوبِ الہٰی" کے لقب سے معروف ہوئے ۔بقول اقبالؒ:۔ نہاں ہے تیری محبت میں رنگِ محبوبی/بڑی ہے شان،بڑا احترام ہے تیرا فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا/بڑی جناب تیری فیضِ عام ہے تیرا اللہ تعالیٰ نے آپؒ کی شخصیت کو ایسی امتیازی خصوصیات اور اعلیٰ صفات سے سرفراز فرمایا ، کہ آپؒ کا اسم گرامی سنتے ہی انسان پر وجدو مستی کی ایک کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔"تَرٰھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا" کی معنوی تابشیں آپؒ کی جبینِ سجدہ کو انوارِ الہٰیہ کا مظہر بنائے رکھتیں۔ ستاسی سال کی عمر میں بھی ۔۔۔آپؒ کی بزرگی کی تقدس مآ بیاں اور جلوہ سامانیاں بڑے بڑے جو انانِ رعنا کے حُسن و شباب کا اعتبار چھین لیتیںاور ان کی رعنائیوں کے ماتھے پسینہ پسینہ ہوجاتے ۔ تنہا چلتے تو رُعب و جلال ِ خداوندی کا ہجوم آپؒ کے جِلومیں ہوتا اور ادب شعار نگاہ بھی سامنانہ کرپاتی ۔ اگر کسی باشعور اجنبی کی نظر آپؒ پرپڑجاتی توآپؒ کے متعلق کچھ دریافت کرنے سے پہلے ہی کہہ اٹھتا:۔ تیرا ہر جلوہ ہے آئینہ اسرارِ ازل اگر زمانے کا ستایا ٹھکرایا ہوا آپؒ کے دامنِ کرم میں آجاتا تو آپؒ اس پر اپنی رحمتوںاور الفتوں کا سائبان تان دیتے ۔ بقول طوطی ہند حضرت امیر خسروو دہلوی ؒ :۔ برخاک ز رحمت آسمانے بہ چرخ زدولت آسمانے "وہ اپنی نواز شات کے باعث زمین پر فلک کی حیثیت رکھتے ہیں اور اُن کی اقبال مندی آسمان سے بھی بلندتر ہے "۔ درحُجرۂ فقر، بادشاہے درعالمِ دل، جہاں پنا ہے "وہ حُجرۂ فقر کے شہنشاہ ہیں،وہ عالمِ دل کے آسمان ذی جاہ ہیں ـ"۔ شاہنشہ بے سریروبے تاج شاہانش بہ خاک پائے محتاج "آپؒ تاج و سریر سے بے نیاز وہ شہنشاہ ہیں کہ شاہانِ وقت بھی آپؒ کے محتاج ہیںـ۔ حضرت اقبال ؒ ؒ ، آپؒ کی شخصیت کے بڑے دلدادہ تھے ، اقبال ؒ کو بیسویں صدی کے اوائل میں یورپ جانے کا شوق ہوا ، جہاں سے وہ اسلامی فلسفہ و تصوّف میں ڈاکٹریٹ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ 1904ء میں شیخ عبد القادر یورپ گئے تو یہ تحریک اور بڑ ھ گئی ، انہوں نے شیخ صاحب کو کہا کہ مَیں بھائی کو لکھتا ہوں اگر زادِ راہ کا بند وبست ہوگیا تو ایک سال کے اندر آپؒ سے آن ملوں گا۔ آپؒ کے برادرِکلاں شیخ عطا محمد ان دنوں بلوچستان کی سرحد پر سب ڈویژنل افسر ملٹری ورکس تھے ۔ ان کے بعض مخالفین نے سازش کر کے ، ان کے خلاف ایک جھوٹا فوجداری مقدمہ قائم کروادیا ، جو کہ محض عداوت کی بناء پر تھا ، مخالف موثر لوگ تھے ، شیخ صاحب کا خیال تھا کہ یہ کورٹ پر اثر انداز ہوں گے اور گواہوں پر بھی، وہ چاہتے تھے کہ یا مخالف عہد یداروں کا تبادلہ ہوجائے یا مقدمہ دوسرے ضلع کی عدالت میں منتقل ہوجائے ۔ اقبالؒ کو اپنے مربی بھائی کی تکلیف کا بڑا احساس تھا ۔ ابتلا کے اس دورے میں اقبالؒ نے "برگِ گل " کے نام سے ایک نظم لکھ کر درگاہ ِ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے متولی خواجہ حسن نظامی کو ارسال کی ،کہ وہ درگاہ ِ عالیہ پر اس کو پیش کردیں ، چنانچہ اقبال ؒ کی ارسال کردہ نظم مزار پر پڑھی گئی اور اس کا یہ شعر علیحدہ تحریر کر اکے مزار کے دروازے پر لٹکا دیا گیا : ہند کا داتا ہے ، تیرا بڑا دربار ہے /کچھ ملے اس کو بھی ،اس دربار گوہر بار سے بیالیس اشعار پر محیط یہ طویل نظم "باقیاتِ اقبال" مرتبہ سیّد عبد الواحدمعینی ،و ترمیم اضافہ محمد عبد اللہ قریشی میں محفوظ ہے ۔ حضرت خواجہ نظام الدین ؒ کے خادم ِ خاص کا نام بھی اقبال تھا ، جس پر آپؒ کی بڑی عنائیت تھی ۔ اقبالؒ نے اس حوالے کو اپنی اس نظم کے ایک شعر میں سموتے ہوئے توجہ اور التفات کی درخواست کی :۔ محوِاظہارِتمنائے دلِ ناکام ہوں لاج رکھ لینا کہ میں اقبالؔ کا ہمِ نام ہوں خواجہ نظام الدین اولیاء حسینی ، نقوی اور بخاری سیّد تھے ،بنا بریں اقبالؒ کی نظم کا اختتامی حصّہ اہلِ بیتِ اطہار کی محبت میں رَچا ہوا ہے۔ واسطہ دُوں گا اگر لختِ دلِ زہراؑ کامَیں غم میں کیونکر چھوڑدیں گے شافعِ محشر مجھے ہُوں مریدِ خاندان خفتہ خاکِ نجف موجِ دریا آپ لے جائے گی ساحل پر مُجھے رونے والا ہوں شہیدِ کربلا کے غم میں مَیں کیا دُرِ مقصد نہ دیں گے ساقیؔ کوثر مُجھے دل میں ہے مجھ بے عمل کے داغِ عشقِ اہلبیتؑ ڈھونڈ تا پھرتا ہے ظلِّ دامنِ حیدرؑ مجھے جاہی پہنچے گی صدا پنجاب سے دہلی تک کردیا ہے گرچہ اس غم نے بہت لاغر مجھے آہ! تیرے سامنے آنے کے ناقابل ہوں مَیں منہ چھُپا کر مانگتا ہُوں تجھ سے وُہ سائل ہُوں میں اقبال کی مراد بَرآئی ،یکم ستمبر1905ء کو لند ن کے سفر کے لیے روانگی درپیش ہوئی ، تو اوّلین سفر کا آغاز دہلی میں حضرت نظام الدین اولیائؒ کے درِ اقدس پہ حاضری سے کیا ، اس سفر میں آپؒ کے بعض احباب دہلی تک ساتھ گئے ۔ آپؒ بذریعہ ٹرین 2 ستمبر1905ء کو علی الصبح دہلی پہنچے۔ اسٹیشن پر خواجہ حسن نظامی اور منشی نذر محمد نے استقبال کیا ۔ تھوڑی دیر منشی نذر محمد کے مکان پر رُکے اور پھر درگاہ ِ خواجہ نظا م پر حاضری کے لیے احباب سمیت روانہ ہوئے ۔ اقبالؒ نے احباب سے تخلیہ کی درخواست کی ،عالمِ تنہائی میں مزار شریف کی تربت کے سرہانے بیٹھ کر اپنی نظم"التجائے مسافر" پڑھی ، ان کی درخواست پر سب احباب باہر صحن میں ٹھہرے ،بعد میں دوستوں کے اصرار پر وہی نظم صحن میں بیٹھ کر ، مزار کی طرف منہ کر کے دوبارہ پڑھی ۔ درگاہ سے واپسی پر خواجہ حسن نظامی کی طرف سے لنگر کا اہتمام تھا ، ازاں بعد ولائیت نامی ایک باذوق اور خوش گلو نے سماع کا اعزاز پایا ۔