2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

بھارت:ارتداد کی لہریا مسلمانوں کی کسمپرسی

افتخار گیلانی
09-10-2018

بھارت جیسے ایک سیکولر ملک میں مذہب یا اسکا انتخاب کسی شخص کی ذاتی پسندہے اور آئین کے بنیادی اصولوں کے مطابق حکومت کا اس میں کوئی عمل و دخل نہیں ہے۔ اسی طرح مذہب کی تبدیلی کی بھی پوری آزادی ہے بشرطیکہ اس میں جبر و لالچ شامل نہ ہو۔ اسکے باوجود تبدیلی مذہب کو سخت بنانے اور اسکو کئی پیچیدہ شرائط کے ساتھ تابع کرنے کی غرض سے ملک کی آٹھ صوبائی حکومتوں اڑیسہ، مدھیہ پردیش، اروناچل پردیش، چھتیس گڈھ، گجرات، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ ااور جھارکھنڈ نے ابھی تک اسمبلیوں سے باضابطہ قوانین منظور کروائے ہیں، ان کا ہدف خاص طور پر دلت ہیں، جن کے متعلق اونچی ذات کے ہندئوں کو ہمیشہ خدشہ لاحق رہتا ہے کہ وہ کہیں ان کے ظلم و ستم سے تنگ آکر مسلمان یا عیسائی نہ بن جائیں۔ گو کہ تبدیلی مذہب بھی ذاتی فعل کے زمرے میں آتا ہے، لیکن اگر اسکا جواز یہ بتایا جائے کہ موجودہ مذہب میں رہتے ہوئے حکومت سے انصاف ملنے کی امید نہیں ہے، تو یہ کسی بھی معاشرہ کیلئے ایک نہایت ہی تشویش کن صورت حال ہے۔ حال ہی میں بھارتی دارالحکومت دہلی سے متصل اترپردیش صوبہ کے باغپت ضلع کی تحصیل بڑوت کے بدرکھا گائوں میں ایک ہی مسلم خاندان کے بیس افراد نے مرتدبن کر ہندو مذہب اختیار کرنے کا اعلان کیا۔گو کہ اگلے دن 13افراد نے ہی ایک باضابط تقریب میں مذہب تبدیل کیا، مگر 20افراد نے ایس ڈی ایم کے سامنے مذہب تبدیل کرنے کی عرضی دی تھی۔ اپنے نوجوان بیٹے گلشن عرف گلزار کے قتل کے معاملے میں پولیس کے رویے سے تنگ ہوکر اخترعلی کے اہل خانہ جس میں اختر علی، نفیسہ، ذاکر، دلشاد، نوشاد، ارشاد، ثانیہ، ارمان، سہانہ، انس، شائستہ، ثنائ، شارکہ، زویا، منشو، شہابرا، ناہید، رقیہ، موہنی، اور موہنی کی چھوٹی بہن نے مذہب تبدیل کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔ ان افراد نے ایس ڈی ایم بڑوت کو حلفیہ بیان دیکر اپنی مرضی سے اسلام مذہب چھوڑ کر ہندو دھرم اپنانے کی اجازت طلب کی تھی۔اس کے اگلے دن ہندو رواج کے مطابق ہون ، بھجن و منتروں کے بعد گائوں کے شیو مندر میں اپنا نام کرن اور مذہب تبدیل کرلیا۔ اس دوران ہندو یوا واہنی کے ریاستی صدر شوکیندر کھوکھر اور ضلع صدر یوگیندر تومر سمیت کئی لوگ بھی موجود تھے۔ہون اور ہنومان چالیسا کا پاٹھ کیاگیا اور قانونی طور طریقے سے ان کو ہندو مذہب میں داخل کرا دیا گیا۔ اس دوران اس علاقہ میں سیکورٹی کا سخت انتظام کیا گیا تھا اور اب بھی اس خاندان کو سیکورٹی حصار فراہم کیا گیا ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ جوگی خاندان کا اختر علی کا بیٹا گلشن علی کپڑے کی تجارت کرتا تھا۔ ماہ جولائی میں گلشن علی کی نعش ان کی ہی دکان میں کھونٹی سے لٹکی ہوئی ملی تھی۔ اہل خانہ کا الزام تھا کہ اس کا قتل کرکے اس کی نعش لٹکا ئی گئی تھی لیکن پولیس نے ان کی ایک نہ سنی اور قتل کو خودکشی بتاتی رہی اور خودکشی کا کیس درج کرنے کے بعد جبراً اس کی نعش دفنا دی گئی۔ اس کی شکایت متاثرہ خاندان نے ضلع کے اعلیٰ افسران سے کی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی ۔ معاملے کی جانچ کررہے اے ایس پی راجیش کمار شریواستو نے کہاکہ اہل خانہ پولیس کو لے کر کسی بھی طرح سے ناراض نہیں ہے انہوں نے اپنے ہی سماج کے لوگوں سے ناراض ہوکر تبدیلی مذہب کیا ہے۔مگر اختر علی اور ان کے اہل خانہ نے راقم کو فون پر بتایا ’’کہ مذہب اسلام میں رہ کر وہ اپنے بیٹے کو انصاف نہیں دلا سکتے کیو ںکہ پولیس شاید ہی مسلمانوں کی سنتی ہے۔ان کو شکوہ تھا کہ گائوں اور اس کے آس پاس کے مسلمان بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔ اور نہ ہی پولیس تعاون کر رہی ہے۔ اس لیے ہم لوگوں نے مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ حکومت داد رسی کرسکے۔‘‘ 2017ء میں اترپریش کے اسمبلی انتخابات کور کرتے ہوئے احساس ہوا کہ ووٹر بجلی، سٹرک، پانی سے زیادہ انصاف اور دادرسی کوترجیح دے رہا ہے۔ دیوبند کے قریب ایک گائوں میں مجھے بتایا گیا کہ اگر لکھنؤ میں سماج وادی پارٹی کی حکومت ہے، تو پولیس صرف یادو برادری کی سنتی ہے اور اگر بہوجن سماج پارٹی کی مایاوتی برسراقتدار ہے تو صرف دلت کی شنوائی ہوتی ہے۔ اب بتایا جاتا ہے کہ موجودہ دور میں جب بی جے پی حکومت ہے، اونچی ذات کے برہمن اور ٹھاکر پولیس تھانوں میں ڈیرہ ڈالے رہتے ہیں اور صرف ان ہی کی سفارش پر اب پولیس کوئی کارروائی کرتی ہے۔ اسطرح کے واقعات شاید ملک کے طول و عرض میں پیش آتے ہونگے،مگر جس علاقہ میں ارتداد کا یہ سانحہ پیش آیا وہ عالمی شہرت یافتہ دارلعلوم دیوبند سے محض 100کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے اور اس علاقہ میں مدرسوں ، عالیشان مساجد ،خانقاہوں و درگاہوں کا ایک جال بچھا ہواہے۔ اسکے علاوہ جمعیۃ علماء ہند کا اچھا خاصہ اثرو رسوخ ہے ۔جمعیت کے ذمّہ داروںکا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے طور پر علاقے کے متعدد ذمہ داروں سے گفتگو کرکے اس مسئلہ پر توجہ دینے کی کوشش کی تھی۔ مگر مرتد ہونے والے ان تیرہ افراد نے برادری اور رشتہ داروں کی بھی نہیں مانی ۔ ان کا ایک لڑکا پھندہ لے کر مرگیا تھا اس کا الزام یہ لوگ اسی کے پھوپھی زاد پر لگاکر مسلمانوں کو جھوٹے کیس میں ساتھ لگانا چاہتے تھے ، مسلمانوں کے سمجھانے بجھانے کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ لیکن ایک بہو نے مرتد ہونے سے انکار کردیا اور وہ اپنے بچوں کو لیکر اپنے مائیکے چلی گئی ۔جمعیت کے ذمہ داران کچھ بھی صفائی دیں، مگر ان کی ناک کے نیچے اس علاقہ کے دیہاتوں میں مسلم آبادیاں کسمپرسی اور جہالت کا شکار ہیں۔ عالیشان مساجد، مدرسوں اور خانقاہوں کو آراستہ بنانے کے ساتھ ساتھ اگر ان آبادیوں کی تعلیم و تربیت اور انکو روزگار دلانے کی سمت میں بھی وہ کام کرتے تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔حا لات یہ ہیں کہ اندرون ومضافاتی دیہاتوں میں تو مسلمان دین سے بالکل ناآشنا ہیں ۔کیونکہ بڑے حضرات اور داعی اسلام وہاں جانا گوارا ہی نہیں کرتے۔ ان مضافاتی دیہاتوں میں جاکر ان کمزور بے سہارا اور کھیتی مزدور مسلمانوں کی سدھ لینے والے بہت کم ہیں۔ (جاری ہے) مذہب تبدیل کرنے والوں کا یہ الزام ہے کہ ان کی داد رسی نہیں کی گئی، ان کی بھوک اور افلاس میںمدد نہیںکی گئی ۔ گو یہ تبدیل مذ ہب کا معقول عذر نہ ہو لیکن مسلم تنظیموں کو ملزم کے کٹہرے میں ضرور کھڑا کر دیتا ہے- زکوٰۃ کا نظام جو بے سر و سامان مسلمانوں کیلئے بنایا گیا تھا وہ زیادہ تر پیشہ ور اور مشاہرین کی نظر ہوجاتی ہے۔ دہرادون سے مفتی رئیس احمد قاسمی کے مطابق ان کے محلے کے ایک کھاتے پیتے مسلم گھرانے کی لڑکی ایک ہندو بھنگی کے ساتھ بھاگ گئی۔ مفتی صاحب نے انتظامیہ پر دباؤ ڈالا تو ڈیڑھ دن بعد پولیس نے لڑکی کو برآمد کرلیا۔ مگر لڑکی جیسے ہی جج کے سامنے پہنچی، اس نے اس بھنگی کے ساتھ جانے اور اپنے ہندو ہونے کا اعلان کردیا۔ مفتی صاحب کے بقول ان کے علم میں 5 ایسی مسلم لڑکیاں ہیں جو صرف بھنگی برادری میں گئیں ہیں، عام ہندوؤں کے ساتھ جانے والی لڑکیوں کی اکیلے دہرادون میں ہی ایک بڑی تعداد ہے۔ پچھلے ماہ اسی طرح کے ایک واقع میں ہریانہ کے روہتک ضلع کے ٹٹولی گائوں میں ایک پنچایت نے فرمان جاری کرکے مقامی مسلمانوں پر ٹوپی پہننے اور لمبی داڑھی رکھنے پر پابندی عائد کی۔ اسکے علاہ یہ بھی حکم دیا گیا کہ وہ بچو ں کے ہندو نام ہی رکھیں گے۔ گائوں کے بیچ میں وقف بورڈ کی جو زمیں قبرستان کیلئے استعمال ہوتی تھی اسکو پنچایت نے اپنی تحویل میں لیکر زرعی اراضی میں تبدیل کردیا۔ بتایا جاتا ہے کہ عید الاضحی کے موقع پر گائوں میں دھوبی خاندان کے یامین کھوکھر پر الزام لگایا گیا کہ اسنے بچھڑے کی قربانی کی تھی۔ بعد میں اسکو پولیس گرفتار کرکے بھی لے گئی، مگر جلد ہی ضمانت پر و ہ رہا ہوگیا۔ روہتک نمبردار ایسوسی ایشن نے 20ستمبر کو اجلاس بلا کر الیاس کو گائوں بدر کرنے کا حکم سنایا۔ گاوٰں کی 3000 نفوس کی آبادی میں 600مسلمان ہیں۔ اس فرمان میں مزید بتایا گیا کہ گائوں میں کہیں بھی کھلی جگہ پر نماز ادا نہیں کی جائیگی۔ گائوں یا اس کے آس پاس میں کہیں بھی مسجد نہیں ہے۔ مسلم آبادی جمعہ کی نماز ادا کرنے کیلئے روہتک شہر جاتے ہیں۔چونکہ تقسیم کے وقت یہ علاقہ شدید فسادات کی زد میں آگیا تھا۔ جولوگ کئی وجوہات کی بنا پر ہجرت نہیں کرسکے، انہوں نے اپنی حفاظت کی خاطر اپنے نام تبدیل کرلیے ۔ وہ دیوالی ،ہولی اور دیگر ہندو تہوار بھی مناتے ہیں ، مگر گھروں میں مسلم رسوم و رواج کو انہوں نے زندہ رکھا ہوا تھا۔ ان کی نئی پود اب باقاعدہ مسلم شناخت کے ساتھ زندہ رہنا چاہتی ہے ، جس پر اعتراض جتایا جا رہا ہے۔ بہار کے دربھنگہ کے ایک گائوں میں ایک مسلم خاندان پر پنچایت نے 25ہزار کا جرمانہ عائد کیا ، کیونکہ اس نے بڑے جانور کا پایہ اپنے گھرمیں پکایا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ 2002ء میں گجرات میں ہوئے مسلم کش فسادات کے بعد جن لوگوں نے دیہی علاقوں سے ہجرت کرکے کیمپوں میں پناہ لی تھی ان کی واپسی کی جب کوششیں ہورہی تھی ، تو کئی علاقوں کی پنچایتیں انکو بس اسی شرط پر واپس بسانے پر تیار تھیں، جب مسلمان حلفیہ بیان میں یہ یقین دلائیں کہ وہ گائوں میں مسجد بنائیں گے نہ بلند آواز میں اذان دیں گے۔یہ باضابطہ تحریری حلفیہ بیانات تھے۔اسی طرح کی چند اور شرائط بھی تھیں۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر تیسرا مسلمان خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہا ہے ۔ پچھلے 50سالوں میں ان کی حالت دلتوں اور قبائل سے بھی بد تر ہوچکی ہے۔ یہ وہی قوم ہے جو ایک صدی قبل تک اس خطہ کی حکمران تھی۔ سلاٹر ہائوس بند کئے جانے سے اتر پردیش میں ہزاروں مسلمان بے روز گار ہوچکے ہیں۔ گائے کے نام پر افواہ پھیلا کر جانورں کا کاروبار کرنے والوں کو جس طرح مارا پیٹا جا رہا ہے اس سے چھوٹے تاجروں کو کاری ضرب پہنچی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بڑے تاجر م جو میٹ اور بیف خلیجی اور دیگر ممالک کو بر آمد کرتے ہیں، ان کے کاروبار شد و مد کے ساتھ جاری ہیں، کیونکہ ان میں اکثریت جین یا ہندو ہیں۔ اسی سال مارچ میں آگرہ کی مدھونگر کچی پستی میں تین سو مفلوک الحال مسلمانوں کے مرتد ہونے کی خبر آئی۔ ہندو تنظیموں نے ان کی گھر واپسی یعنی ہندو دھرم اختیار کرنے کی تقریب منعقد کی، جس میں ستر کے قریب افراد نے شرکت کی۔ ہون اور بھجنوں کے بیچ انہوں نے ہندو دھرم اختیار کیا۔ ہندو تنظیموں کا کہنا ہے کہ لوگ پشتینی مسلمان نہیں تھے اور صرف تین دہائی قبل ہی انہوں نے اسلام مذہب اختیار کیا تھا۔ اب دوبارہ ہندو مت کی طرف رخ کیا۔ میڈیا سے بات چیت میں ان لوگوں نے کہا کہ ان سے راشن کارڈ اور فری ہائوسنگ پلاٹ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے، جو سراسر لالچ ہے۔ اسی ماہ فیض آباد اتر پردیش سے بھی بائیس مسلمانوں کے مرتد ہونے کی اطلاع آئی تھی۔ شاید یہ واقعات اسلام کے نام پر وجود میں آئے پاکستان میں رہنے والے مشاہرین اورارباب حل و عقد کے گلے نہ اتریں، کیونکہ وہ فرقہ بندی، تعصب اور فروعی معاملات میں اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے کے درپے ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ آزادی میں سانس لینے کی کیا قیمت ہے۔ وہ جان لیں کہ آزادی ان کیلئے محض ایک آزمائش ہے۔ بجائے اپنے اخلاق سے دنیا کواسلام کی صحیح تعریف سے روشناس کرواتے، ان کی منطق اور ایک دوسرے کے اوپر کیچڑ اچھالنے کے رجحان سے تو اچھا خاصا مسلمان بھی متنفر ہو جاتا ہے۔ امید تھی کہ جو کام 800 سال تک برصغیر پر حکومت کرنے والے مسلم حکمران نہیں کر پائے ، قائد اعظم محمد علی جناح کے جانشین اس ملک کو ایک لیبارٹری کی طرز پر استعمال کرکے اسلام کے حقیقی سماجی انصاف کے پیغام کو عام کرکے برصغیر کے دیگر خطوں خاص طور پر بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کیلئے مشعل راہ اور مثال کا کام کریں۔ ان کی اس کاوش سے بھارت میں دیگر مذاہب ، خصوصاً دلتوں تک اسلام کے آفاقی نظام کو پہنچانے میں مدد ملتی۔ ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر بھارت کے پسماندہ طبقات کے سب سے بڑے لیڈرتھے۔ ان کا رجحان اسلام قبول کرنے کا تھا مگران کے بڑھتے قدم رک گئے جس کی ایک بڑی وجہ ان کا یہ احساس تھا کہ مسلمانوں کے اندر چھوٹی بڑی ذاتوںکا سسٹم موجود ہے، اگر انہوں نے اسلام قبول کرلیا تو انہیں مسلم سماج میں بھی برہمنواد کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسرے مسلمانوں کے اندر مسلکی جھگڑا تھا جو ان کے لئے پاوٗںکی زنجیر بن گیا۔ انہوں نے ایک موقع پراپنی تقریر میں کہا: ''میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں، لیکن اگر میں اسلام قبول کرتا ہوں تومجھے وہابی کہہ کر خارج از اسلام کردیا جائے گا‘‘۔قصہ مختصر، اگر مسلمان اپنے وطیرہ ہ تبدیل نہیں کرتے، اسلام کے حقیقی سماجی انصاف کے پیغام کو عملاً نہیں اپناتے تو دلتوں اور دیگر طبقات کو اپنے ساتھ ملانا تو دور کی بات، خود مسلمانوں کی نئی پود بھی دور چلی جائیگی۔