بھارت:ارتداد کی لہریا مسلمانوں کی کسمپرسی…(2)
افتخار گیلانی
مذہب تبدیل کرنے والوں کا یہ الزام ہے کہ ان کی داد رسی نہیں کی گئی، ان کی بھوک اور افلاس میںمدد نہیںکی گئی ۔ گو یہ تبدیل مذ ہب کا معقول عذر نہ ہو لیکن مسلم تنظیموں کو ملزم کے کٹہرے میں ضرور کھڑا کر دیتا ہے- زکوٰۃ کا نظام جو بے سر و سامان مسلمانوں کیلئے بنایا گیا تھا وہ زیادہ تر پیشہ ور اور مشاہرین کی نظر ہوجاتی ہے۔ دہرادون سے مفتی رئیس احمد قاسمی کے مطابق ان کے محلے کے ایک کھاتے پیتے مسلم گھرانے کی لڑکی ایک ہندو بھنگی کے ساتھ بھاگ گئی۔ مفتی صاحب نے انتظامیہ پر دباؤ ڈالا تو ڈیڑھ دن بعد پولیس نے لڑکی کو برآمد کرلیا۔ مگر لڑکی جیسے ہی جج کے سامنے پہنچی، اس نے اس بھنگی کے ساتھ جانے اور اپنے ہندو ہونے کا اعلان کردیا۔ مفتی صاحب کے بقول ان کے علم میں 5 ایسی مسلم لڑکیاں ہیں جو صرف بھنگی برادری میں گئیں ہیں، عام ہندوؤں کے ساتھ جانے والی لڑکیوں کی اکیلے دہرادون میں ہی ایک بڑی تعداد ہے۔ پچھلے ماہ اسی طرح کے ایک واقع میں ہریانہ کے روہتک ضلع کے ٹٹولی گائوں میں ایک پنچایت نے فرمان جاری کرکے مقامی مسلمانوں پر ٹوپی پہننے اور لمبی داڑھی رکھنے پر پابندی عائد کی۔ اسکے علاہ یہ بھی حکم دیا گیا کہ وہ بچو ں کے ہندو نام ہی رکھیں گے۔ گائوں کے بیچ میں وقف بورڈ کی جو زمیں قبرستان کیلئے استعمال ہوتی تھی اسکو پنچایت نے اپنی تحویل میں لیکر زرعی اراضی میں تبدیل کردیا۔ بتایا جاتا ہے کہ عید الاضحی کے موقع پر گائوں میں دھوبی خاندان کے یامین کھوکھر پر الزام لگایا گیا کہ اسنے بچھڑے کی قربانی کی تھی۔ بعد میں اسکو پولیس گرفتار کرکے بھی لے گئی، مگر جلد ہی ضمانت پر و ہ رہا ہوگیا۔ روہتک نمبردار ایسوسی ایشن نے 20ستمبر کو اجلاس بلا کر الیاس کو گائوں بدر کرنے کا حکم سنایا۔ گاوٰں کی 3000 نفوس کی آبادی میں 600مسلمان ہیں۔ اس فرمان میں مزید بتایا گیا کہ گائوں میں کہیں بھی کھلی جگہ پر نماز ادا نہیں کی جائیگی۔ گائوں یا اس کے آس پاس میں کہیں بھی مسجد نہیں ہے۔ مسلم آبادی جمعہ کی نماز ادا کرنے کیلئے روہتک شہر جاتے ہیں۔چونکہ تقسیم کے وقت یہ علاقہ شدید فسادات کی زد میں آگیا تھا۔ جولوگ کئی وجوہات کی بنا پر ہجرت نہیں کرسکے، انہوں نے اپنی حفاظت کی خاطر اپنے نام تبدیل کرلیے ۔ وہ دیوالی ،ہولی اور دیگر ہندو تہوار بھی مناتے ہیں ، مگر گھروں میں مسلم رسوم و رواج کو انہوں نے زندہ رکھا ہوا تھا۔ ان کی نئی پود اب باقاعدہ مسلم شناخت کے ساتھ زندہ رہنا چاہتی ہے ، جس پر اعتراض جتایا جا رہا ہے۔ بہار کے دربھنگہ کے ایک گائوں میں ایک مسلم خاندان پر پنچایت نے 25ہزار کا جرمانہ عائد کیا ، کیونکہ اس نے بڑے جانور کا پایہ اپنے گھرمیں پکایا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ 2002ء میں گجرات میں ہوئے مسلم کش فسادات کے بعد جن لوگوں نے دیہی علاقوں سے ہجرت کرکے کیمپوں میں پناہ لی تھی ان کی واپسی کی جب کوششیں ہورہی تھی ، تو کئی علاقوں کی پنچایتیں انکو بس اسی شرط پر واپس بسانے پر تیار تھیں، جب مسلمان حلفیہ بیان میں یہ یقین دلائیں کہ وہ گائوں میں مسجد بنائیں گے نہ بلند آواز میں اذان دیں گے۔یہ باضابطہ تحریری حلفیہ بیانات تھے۔اسی طرح کی چند اور شرائط بھی تھیں۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر تیسرا مسلمان خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہا ہے ۔ پچھلے 50سالوں میں ان کی حالت دلتوں اور قبائل سے بھی بد تر ہوچکی ہے۔ یہ وہی قوم ہے جو ایک صدی قبل تک اس خطہ کی حکمران تھی۔ سلاٹر ہائوس بند کئے جانے سے اتر پردیش میں ہزاروں مسلمان بے روز گار ہوچکے ہیں۔ گائے کے نام پر افواہ پھیلا کر جانورں کا کاروبار کرنے والوں کو جس طرح مارا پیٹا جا رہا ہے اس سے چھوٹے تاجروں کو کاری ضرب پہنچی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بڑے تاجر م جو میٹ اور بیف خلیجی اور دیگر ممالک کو بر آمد کرتے ہیں، ان کے کاروبار شد و مد کے ساتھ جاری ہیں، کیونکہ ان میں اکثریت جین یا ہندو ہیں۔ اسی سال مارچ میں آگرہ کی مدھونگر کچی پستی میں تین سو مفلوک الحال مسلمانوں کے مرتد ہونے کی خبر آئی۔ ہندو تنظیموں نے ان کی گھر واپسی یعنی ہندو دھرم اختیار کرنے کی تقریب منعقد کی، جس میں ستر کے قریب افراد نے شرکت کی۔ ہون اور بھجنوں کے بیچ انہوں نے ہندو دھرم اختیار کیا۔ ہندو تنظیموں کا کہنا ہے کہ لوگ پشتینی مسلمان نہیں تھے اور صرف تین دہائی قبل ہی انہوں نے اسلام مذہب اختیار کیا تھا۔ اب دوبارہ ہندو مت کی طرف رخ کیا۔ میڈیا سے بات چیت میں ان لوگوں نے کہا کہ ان سے راشن کارڈ اور فری ہائوسنگ پلاٹ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے، جو سراسر لالچ ہے۔ اسی ماہ فیض آباد اتر پردیش سے بھی بائیس مسلمانوں کے مرتد ہونے کی اطلاع آئی تھی۔ شاید یہ واقعات اسلام کے نام پر وجود میں آئے پاکستان میں رہنے والے مشاہرین اورارباب حل و عقد کے گلے نہ اتریں، کیونکہ وہ فرقہ بندی، تعصب اور فروعی معاملات میں اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے کے درپے ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ آزادی میں سانس لینے کی کیا قیمت ہے۔ وہ جان لیں کہ آزادی ان کیلئے محض ایک آزمائش ہے۔ بجائے اپنے اخلاق سے دنیا کواسلام کی صحیح تعریف سے روشناس کرواتے، ان کی منطق اور ایک دوسرے کے اوپر کیچڑ اچھالنے کے رجحان سے تو اچھا خاصا مسلمان بھی متنفر ہو جاتا ہے۔ امید تھی کہ جو کام 800 سال تک برصغیر پر حکومت کرنے والے مسلم حکمران نہیں کر پائے ، قائد اعظم محمد علی جناح کے جانشین اس ملک کو ایک لیبارٹری کی طرز پر استعمال کرکے اسلام کے حقیقی سماجی انصاف کے پیغام کو عام کرکے برصغیر کے دیگر خطوں خاص طور پر بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کیلئے مشعل راہ اور مثال کا کام کریں۔ ان کی اس کاوش سے بھارت میں دیگر مذاہب ، خصوصاً دلتوں تک اسلام کے آفاقی نظام کو پہنچانے میں مدد ملتی۔ ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر بھارت کے پسماندہ طبقات کے سب سے بڑے لیڈرتھے۔ ان کا رجحان اسلام قبول کرنے کا تھا مگران کے بڑھتے قدم رک گئے جس کی ایک بڑی وجہ ان کا یہ احساس تھا کہ مسلمانوں کے اندر چھوٹی بڑی ذاتوںکا سسٹم موجود ہے، اگر انہوں نے اسلام قبول کرلیا تو انہیں مسلم سماج میں بھی برہمنواد کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسرے مسلمانوں کے اندر مسلکی جھگڑا تھا جو ان کے لئے پاوٗںکی زنجیر بن گیا۔ انہوں نے ایک موقع پراپنی تقریر میں کہا: ''میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں، لیکن اگر میں اسلام قبول کرتا ہوں تومجھے وہابی کہہ کر خارج از اسلام کردیا جائے گا‘‘۔قصہ مختصر، اگر مسلمان اپنے وطیرہ ہ تبدیل نہیں کرتے، اسلام کے حقیقی سماجی انصاف کے پیغام کو عملاً نہیں اپناتے تو دلتوں اور دیگر طبقات کو اپنے ساتھ ملانا تو دور کی بات، خود مسلمانوں کی نئی پود بھی دور چلی جائیگی۔ (ختم شد)