2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

بھارتی وزیر خارجہ اسلام آبادمیں

جاوید صدیق
15-10-2024

بھارت کے وزیر خاریہ سبرامنیم جے شنکر شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شرکت کیلئے اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ پاکستان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی لیکن مودی نے اسلام آباد آنے سے گریز کیا ۔ اس کانفرنس میں جو 15-16 اکتوبر کو جناح کنونشن سینٹر میں منعقد ہوگی ، 10 ملکوں کے وزیراعظم شریک ہو رہے ہیں ۔ چین ، روس ، بیلا روس کے وزراء اعظم، ایران کے اوّل نائب صدر ، قازقستان کرغستان اورتاجکستان کے وزراء اعظم اس کانفرنس میں شریک ہونگے ۔ ماضی میں SCO کے پلیٹ فارم پر پاکستان اور بھارت کے وزراء اعظم کے درمیان رسمی نہ سہی غیر رسمی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کے درمیان اس پلیٹ فارم پر مفید بات چیت ہوتی رہی ہے۔گزشتہ دس برس کے دوران ہندو انتہا پسند ی کے فلسفہ پر عمل کرتے ہوئے بی جے پی کی حکومت نے پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے ، اُس نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو کشیدہ بنا دیا ہے۔بھارت کے اس رویہ کی وجہ سے برصغیر ایک کشیدہ ماحول میں سانس لے رہاہے۔ بھارت کے سابق وزیر خارجہ سشما سوراج پاکستان میں منعقد ہونے والی سارک سربرا ہ کانفرنس میں شرکت کے لئے 2015 ء میں پاکستان آئی تھی۔ اُس وقت دونوں ملکوں میں بات چیت کے امکانات موجود تھے لیکن اگست 2019ء مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی آئین کی شق 370 کے ذریعے حاصل خصوصی حیثیت کو اچانک ختم کر کے اسے بھارت کا حصہ بنا ڈالا ۔ گزشتہ پانچ برس میں بی جے پی کی حکومت نے کشمیریوں کی زندگی عذاب بنا کر رکھ دی ہے۔ خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو قید میں ڈال دیا گیا ۔ انٹرنیٹ کا نظام مفلوج کر دیا گیا ۔کشمیری شہریوں اور حریت پسندوں کو قید تنہائی میں ڈال کر اُن پر ٹارچرکیا گیا ۔ایسے کشمیری نوجوان جو تعلیم کے لئے بیرون ملک جانا چاہتے تھے، انہیں ائیرپورٹس پر روک دیا گیا اور پروازوں سے نیچے اُتار دیا گیا۔ حریت کانفرنس کی ساری قیادت جیل میں ہے یا گھروں میں نظر بند ہے۔ممتاز حریت لیڈر یاسین ملک کو سزائے موت سنا دی گئی ہے۔میر واعظ عمر فاروق کو سری نگر کی جامع مسجد میں جمع پڑھانے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔روزانہ کی بنیاد پر سرچ آپریشن کے نام پر کشمیریوں کو گرفتار کیا جاتاہے ، جن کی لاشیں ویرانوں سے ملتی ہیں۔اس بارے میں مغربی میڈیا بہت کچھ کہہ چکا ہے۔ بات ہو رہی تھی بھارتی وزیر خارجہ کی اسلام آباد آمد کی۔ جے شنکر ایسے ماحول میں پاکستان آ رہے ہیں جب دونوں ملکوں میں بد اعتمادی اور کشیدگی عروج پر ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے چند روز قبل نئی دہلی میں دورہ پاکستان کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اسلام آباد جا رہے ہیں لیکن دو طرفہ تعلقا ت پر بات چیت نہیں کریں گے ۔ جے شنکر اپنی کئی پریس کانفرنسوں میں پاکستان کا مذاق اُڑا چکے ہیں۔ کبھی وہ پاکستان کی اقتصادی کمزوریوں کا مذاق اُڑاتے ہیں اور کبھی کسی دوسرے حوالے سے پاکستان پر طنز کرنے سے باز نہیں آتے۔ ایک اسی طرح کی پریس کانفرنس میں جب ایک صحافی نے اُن سے پوچھا تو پاکستان کے بارے میں ان تبصر ہ تھا ’’جو کوئی گرا ہوتو اُس پر کیا تبصر ہ کر نا‘‘۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارتی وزیرخارجہ نے پاک بھارت مذاکرات پر ایک سوال پر کہا کہ مسئلہ کشمیر تو حل ہو چکا ہے ، اب مذاکرات کس بات پر ہونگے ۔ بھارت نے اپنے طرف سے مسئلہ حل کر دیا ہے لیکن کشمیریوں نے اس حل کو مسترد کیا ہے۔ حال ہی میں جو انتخابات مقبوضہ کشمیر میں ہوئے ہیں اور جن پر بھارتی سرکار نے پورا زور لگا رکھا تھا کہ کسی طرح بی جے پی کامیاب ہوجائے ، کشمیریوں نے جبر کے ماحول میں ان انتخابات کو مینی پولیٹ کرنے کی ساری کوششوں کے باوجود کھل کر جواب دے دیا۔ بی جے پی کو شرمناک شکست ہوئی ہے۔ دنیابھی ان نام نہاد انتخابات کو تسلیم نہیں کر رہی ۔ کشمیریوں نے مسلم کانفرنس کو ووٹ دے کر اس بات کا پیغام دیا ہے کہ وہ بی جے پی راج کو تسلیم نہیں کرتے ۔ وہ اقوام متحدہ کے قرا ر دادوں کے مطابق جدوجہد کرتے رہیں گے۔ اس جدوجہد میں ہر روز کشمیری نوجوان شہید ہو رہے ہیں۔ساتھ ہی قابض بھارتی فوج کو واصل جہنم کر رہے ہیں۔ جے شنکر اگلے دو روز میں ماحول کو بہتر بنانے کیلئے کوئی سگنل دیں گے یا روایتی ہٹ دھرمی جاری رکھیں گے اس کا اندازہ ہوجائے گا۔ ٭٭٭٭٭