2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

بھارت سے آئے الیاس انجم

سعد الله شاہ
19-12-2018

استاد پرواز نے کہا تھا: خطائوںکی چبھن فوراً کہاں محسوس ہوتی ہے ندامت کی طرف آتا ہے دل آہستہ آہستہ وہی کہ لمحوں نے خطا کی تھی اور صدیوں نے سزا پائی۔ ایک سنہری شام انمول گہر انٹرنیشنل کے فورم سے انس احمد اور انمول گہر نے بھارت سے آئے ہوئے مہمان الیاس انجم اور ان کی شریک حیات شاداب انجم کے اعزاز میں منعقد کی تھی۔ آغاز ہی میں ہمارے مہمان ہم سے مخاطب ہوئے کہ شام اور مشاعرہ تو ایک طرف، وہ کچھ باتیں گوش گزار کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ یعنی مسلمان کچھ زیادہ ہی زیرعتاب آ گئے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہندوئوں کا تعصب ان کے سر کو چڑھ گیا ہے۔ وہ ساتھ ساتھ مسلمانوں کا نوحہ بھی پڑھ رہے تھے کہ مسلمان ہی اصل میں اپنے ر استے کی رکاوٹ ہیں۔ وہ اب تک بھی ہندوئوں کوپوری طرح نہیں سمجھ سکے۔ ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آ جاتے ہیں۔ وہ بی جے پی کو روکنے کے لیے جن کو اقتدار میں لاتے ہیں وہ بھی کم نہیں ہوتے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ ایک پیار سے مارتا ہے اوردوسرا غصے سے۔ کتنی تکلیف دہ بات ہے کہ ایسے علاقے میں جہاں مسلمان ساٹھ فیصد ہوںاور وہاں اسمبلی میں مسلمانوں کے پاس ایک سیٹ بھی نہ ہو۔ ان میں ذرا بھی یکجہتی نہیں۔ ہندو پارٹی سے دو تین کروڑ میں ٹکٹ لے آتے ہیں اور مسلمان سوائے ووٹ دینے کے کچھ نہیں کر پاتے۔ مسلمان امیدوار کوئی درخوراعتنا نہیں سمجھا جاتا بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تو کسی کے ووٹ توڑنے کے لیے آیا ہے۔ الیاس انجم کی باتیں میرے لیے نئی نہیں تھیں۔ ابوظہبی میں بھی میر وسیم بریلوی سے ملاقات ہوئی تو وہ بتانے لگا کہ ہندو ہمیشہ ان پر نظررکھتا ہے۔ جب بھی مسلمان ذرا خوشحال ہونے لگتے ہیں، ہندوئوں کی طرف سے انہیں زمین بوس کردیا جاتا ہے۔ ان پر حصار زندگی تنگ کیا جا رہا ہے۔ اس سے مسلمانوں میں بھی ردعمل پیدا ہورہا ہے۔ الیاس انجم بتا رہے تھے کہ متناسب نمائندگی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے مسلمان ابھی تک برادری اور لسانی سوچ سے باہر نہیں آ سکے جبکہ ان کے مقابلے میں ہندو ایک ہیں۔ وہ مسلمانوںکا تشخص اور پہچان ختم کردینا چاہتے ہیں۔ ان کے شہروں اور گائوں کے مسلم ناموں تک کوبدلنے کی سعی ہو رہی ہے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ تاج محل اور ایسی دوسری نشانیاں بھی زد میں آئیں گی۔ کہنے لگے کہ ایسا نہ ہو کہ ایک وقت آئے کہ ہمیں اٹھ کر بھارت میں ایک اور پاکستان کا اعلان کرنا پڑے۔ یعنی تنگ آمد بجنگ آمد والی بات۔ رفتہ رفتہ لاوا پک رہا ہے۔ الیاس انجم نے اچھی بات کی کہ وہ شاعر اور ادیب تو ہیں مگر وہ وقت کے تقاضے کے مطابق وہی عمران خان والا یوٹرن لے کر اب ایجوکیشن کے لیے خود کو وقف کر چکے ہیں۔ مسلمان نوجوانوں کو کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کی طرف لائیں گے۔ ایک سنٹر بھی انہوں نے قائم کیا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ تعلیم ہی سے وہاں کے پسے ہوئے مسلمانوں میں شعور بیدار کیا جا سکتا ہے۔ رفتہ رفتہ بات کتنی کھل رہی ہے کہ علمائے ہند بھی ہندوئوں کی مکاری کو نہ سمجھ پائے اور سب اپنی اپنی خطائوں پر شرمندہ ہیں۔ ابوالکلام بھی یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ کانگریس نے انہیں بہت مایوس کیا۔ ہندو سب کے سب ایک ہیں۔ مجھے وہ حکایت یاد آئی کہ ایک بچھو سے کسی نے پوچھا تم میں سے سردار کون ہے۔ بچھو بولا ’’جس کی بھی دم پر تم انگلی رکھ دو۔‘‘ پھر اس کے بعد مشاعرہ بھی تھا جس کی صدارت ممتاز راشد لاہوری نے کی۔ اصل مہمان تو بھارت سے آئے ہوئے الیاس انجم اور ان کی اہلیہ شاداب تھیں۔ نظامت انیس احمد کی تھی۔ یہ محل مختصر مگر منتخب تھی۔ پروفیسر فرخ محمود میرے ساتھ تھے انہوں نے اپنے ذاتی اقوال سنا کر محفل کے رنگ کو دو آتشہ کردیا۔ ٭ جہاں امیر کی بھوک مر جائے وہاں غریب بھوک سے نہیں مرتا۔ ٭ طاقت میں نیکی، نیکی کی طاقت ہے۔ ٭ ایمان کے ساتھ سیر بھی حج ہے جبکہ ایمان کے بغیر حج بھی سیر ہے۔ ٭ نفس کی غلامی، غلام کی غلامی ہے۔ مشاعرے کا اپنا رنگ تھا۔ انیس احمد کی پنجابی شاعری تو سر چڑھ کر بولتی ہے: تن تندور بنا لیتا روٹی لائی چھنڈ بھورا کول نہ رکھیا ساری دتی ونڈ ایک شعر انمول گوہر کا: بے سبب تو یہ دل نہیں روتا میرا دشمن نہ مر گیا ہو کہیں مہمانوں میں بشریٰ ملک، سابق ممبر ڈسٹرکٹ اسمبلی اور مشیر گورنر پنجاب بھی تھیں۔ وہ بہت ہی وضعدار اور شائستہ خاتون ہیں۔ معروف فنکار نظام دین کی بہو غزالہ نظام الدین بھی تھیں۔ وہ پنجابی کے لیے بہت کام کر رہی ہیں۔ دوسرے شعرا میں شہزاد تابش، عمران مفتی، اسلم شوق، اقبال درویش، آسیہ بیگم اور پروین وفا شامل تھیں۔ عرفان صادق کا ایک شعر: ضرورتوں کے کئی محاذوں پہ کٹ رہا تھا میں ریزہ ریزہ بہت سے کر حدود ڈھونڈتی ہے کچھ کلام کا مطالبہ ہم سے بھی ہوا: یہ اپنی حد سے نکل کر حدود ڈھونڈتی ہے کہ خاک بار دگر بھی قیود ڈھونڈتی ہے یہ میرے شعر نہیں ہیں ترا سراپا ہے کہ خوبصورتی اپنی نمود ڈھونڈتی ہے