بھارت میں جمہوریت کا خاتمہ
ارشاد محمود
بھارتی لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہول گاندھی نے بھارت میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مودی حکومت کی کرپشن سمیت دیگر اہم معاملات پر امریکی ایوان نمائندگان کے اراکین کے سامنے سوالات اْٹھا تے ہوئے کہا کہ بھارت میں جمہوریت کو ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ مودی حکومت کرپشن کے گراف میں سرفہرست ہے۔اپوزیشن جماعتوں سمیت اقلیتوں پر ہونے والے مظالم نے وزیراعظم مودی کا بھیانک چہرہ سب کے سامنے بے نقاب کر دیا۔بھارت کو انتہا پسند ملک بنانے کی سازش ہو رہی ہے ، مودی حکومت انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کے منشور کو ملک کا آئین بنانا چاہتی ہے ، اگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے تو سمجھ لیں بھارت میں جمہوریت کا خاتمہ ہو جائے گا اور انتہا پسند جماعتیں خطے کا امن چھین لیں گی۔ برطانوی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی جمہوریت زوال کا شکارہے جہاں ووٹراپنی اقتصادی ترقی کے عوض سیاسی آزادی پر سودے بازی کے لیے تیزی سے آمادگی ظاہر کررہے ہیں۔ اخبار نے لکھاکہ بھارت بھی اسی راستے پر چل رہا ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد جنوبی کوریا اور تائیوان سمیت مشرقی ایشیائی ممالک نے اختیار کیا تھا۔ ان ممالک نے آمروں کی قیادت میں تیز رفتار اقتصادی ترقی حاصل کی۔ مودی نے ساری طاقت وزیر اعظم دفتر میں مرکوز کررکھی ہے اور اختلاف رائے کو دبایا جارہاہے۔ بہت سے آزاد خیال بھارتی اب ملک کے بارے میں اس طرح باتیں کرتے ہیں جس طرح مشرقی ایشیا میں سنائی دیتی ہیں کہ بھارت میں اب بھی اظہاررائے کی آزادی ہے لیکن اظہاررائے کے بعد آزادی نہیں ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترقی کامشرقی ایشیائی ماڈل طویل مدت میں پائیدار نہیں ہو سکتا کیونکہ رائے دہندگان بالآخر زیادہ سیاسی آزادی کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ مودی کی ذات بی جے پی کی کامیابی کا ایک بڑا عنصر ہے اور جمہوریت کا زوال ا س وقت تک برقرار رہے گا۔جب تک وہ عہدے پر ہیں اور معاشی محاذ پر کام کرتے رہیں گے۔ جمہوریت زوال کا شکار ہے لیکن اس کا خاتمہ نہیں ہوا۔ رائے دہندگان ممکنہ ترقی کے لیے سیاسی آزادی پر سودے بازی پر آمادہ نظر آتے ہیں لیکن یہ سودا مودی کے ساتھ ہے۔ یہ صرف اس وقت تک قائم رہے گا جب تک وہ دفتر میں ہیں اور معاشی محاذ پر کام کرتے رہیں گے۔حال ہی میں عالمی سطح پر ایک اور رسوائی بھارت کے حصے میں آئی کہ امریکہ کے ایک آزاد ڈیموکریسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ فریڈم ہاؤس نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارت میں سیاسی حقوق اور شہری آزادیاں بہت تیزی سے زوال کی جانب جارہی ہیں۔ سال 2014ء میں نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے اب تک سیاسی حقوق اور شہری آزادیاں سلب کی جارہی ہیں اور 2019ء میں مودی حکومت کے بعد سے اس کے زوال میں بہت تیزی آئی ہے۔بھارت میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی کے سرکردہ رہنما راہول گاندھی نے جمہوری اقدار کے نگراں سویڈن کے ایک ادارے کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ٹویٹ کیا، ’’بھارت اب جمہوری ملک نہیں رہا‘‘۔ سویڈن کے معروف ادارے ’’وی ڈیم‘‘ نے بھارتی جمہوریت سے متعلق اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بھارت کو’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کے بجائے اس کا درجہ کم تر کرتے ہوئے اب اسے محض،’’انتخابی جمہوریت‘‘ قرار دیا ہے۔ ادارے نے اپنی رپورٹ میں بھارتی حکومت کی جانب سے میڈیا پر پابندی، بغاوت اور ہتک عزت جیسے قوانین کے کثرت سے بے جا استعمال کا حوالہ دیا ہے۔بھارت اب آمریت پسند ہوچکا ہے اور اس کی صورت پڑوسی ملک بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی بدتر ہے۔ مودی حکومت عموما اپنے ناقدین کو خاموش کرانے کے لئے بغاوت، ہتک عزت اور انسداد دہشت گردی جیسے قوانین کا استعمال کرتی ہے۔جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے اس وقت سے ساٹھ ہزار افراد کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا جا چکا ہے اور اس سلسلے میں بیشتر ایسے لوگوں کو ملزم قرار دیا گیا ہے جو حکمراں جماعت پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ اس رپورٹ کو بھارت نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے لئے متنازع قانون یو اے پی اے کے متعلق کہا گیا کہ اسے، صحافیوں اور سول سوسائٹی کو خاموش کرانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ حکومت، آئین میں جن سیکولر اقدار کا عہد کیا گیا ہے اس کے خلاف کا م کر رہی ہے۔ رپورٹ میں شہریت سے متعلق بھارت کے نئے قانون سی اے اے کا بھی خاص طور پر ذکر ہے۔ اس بارے کہا گیا ہے کہ حکومت اس کے خلاف مظاہر ہ کرنے والے طلبا اور یونیورسٹی کے اساتذہ کو سزا دینے کے لئے بھی یو اے پی اے کا استعمال کر رہی ہے۔ جہاں ایک جانب حکومت نے سول سوسائٹی کو حتی الامکان دبانے کے لئے تمام طریقوں کا استعمال کیا ہے وہیں سخت گیر ہندو نظریاتی اداروں اور ان کی اتحادی تنظیموں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ بی جے پی نے سول سوسائٹی تنظیموں پر قد غن لگانے اور انہیں محدود کرنے کے لئے ’’فارن کانٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ‘‘ (ایف سی آر اے) کا خوب استعمال کیا ہے۔بھارت میں ایمنسٹی انٹرنیشنل، گرین پیس اور آکسفیم جیسے متعدد بین الاقوامی ادارے اپنے آپریشنز کو محدود یا پھر مکمل بند کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور تنازعات کو سلجھانے سے متعلق غیر سرکاری تنظیم سینٹر فار ڈائیلاگ کا کہنا ہے حکومت کی طرف سے عطیات دینے والوں سے متعلق آئے دن کی پوچھ تاچھ اور اب ان کے ذریعے دی جانے والی مالی امداد کو بینک اکاونٹ میں جمع ہونے سے روکنے پر ان کا اسٹاف مالی اور ذہنی پریشانیوں کا شکار ہو گیا تھا۔ایمنسٹی کے مطابق اس کے اکاونٹ سیل کر دیے گئے تھے، جس کی وجہ سے وہ اپنے ملازمین کو مشاہرہ ہی نہیں دے پا رہے تھے۔ اس عالمی تنظیم سے حکومتیں خائف تو ہو سکتی ہیں، لیکن اس کی رپورٹیں، دستاویزات اور اعداد و شمار کی معتبریت پر آج تک کوئی انگلی نہیں اٹھا سکا ہے۔ بھارت میں اس کی موجودگی ملک کے لئے ہی باعث تفخر تھی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت سے اپنی بساط لپیٹ کر اسٹاف کو خیر باد تو کر دیا ہے، مگر نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ بھارت جیسا کثیر الجہتی ملک اور اس کا تکثیری معاشرہ زیادہ دیر تک ایمنسٹی جیسی تنظیم کے لئے اپنی سرحدیں بند نہیں رکھ سکتا۔