بیرون ملک احتجاج: داخلی سیاسی کشمکش اور عالمی ردعمل
دردانہ نجم
پاکستان کی سیاسی صورتحال اس وقت ایک نازک موڑ پر ہے، جہاں پی ٹی آئی کی جانب سے کیے جانے والے بین الاقوامی مظاہروں اور سیاسی بیانات نے ایک متنازعہ ماحول پیدا کر رکھا ہے۔ان تمام کارروائیوں کا مقصد عمران خان اور پی ٹی آئی کارکنان کا بین الاقوامی دنیا کو باور کروانا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال ہر سطح پر خراب اور غیر یقینی بن چکی ہے۔ پی ٹی آئی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے علاوہ ہر پاکستانی سیاسی جماعت کو ملک دشمن اور چور سمجھتی ہے اسی لیے پاکستان کی سیاسی پیچیدگیوں کا حل وہ ملک کے اندر ڈھونڈنے کے بجائے بیرون ملک ڈھونڈ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ حکمت عملی قابل عمل ہے یا اس سے پاکستان کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچے گا؟ حال ہی میں، خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے ایک ریکارڈ شدہ بیان میں عمران خان کی حالت کے بارے میں وفاقی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ اگر عمران خان کو جیل میں بہتر سہولیات نہ دی گئیں تو وہ پورے ملک کو پانچ دن کے لیے بند کر دیں گے۔ اسی قسم کی دھمکیاں کسی زمانے میں الطاف حسین بھی دیا کرتے تھے، جن کے خلاف بانی پی ٹی آئی نے کینیڈا میں مقدمہ درج کرایاتھا۔ دوسری طرف لندن میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کی گاڑی پر حملہ کیا گیا جس میں پی ٹی آئی کے بیرون ملک مقیم سپورٹر شامل ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ قاضی نے جتنے بھی فیصلے بحثیت چیف جسٹس کیے وہ سب پاکستان تحریک انصاف کے خلاف جاتے تھے خاص طور پر پارٹی سے بلے کا نشان اس وقت چھیننا جب کہ الیکشن سر پر کھڑے تھے اور تحریک انصاف کے تمام امیدواروں کو لاکھوں انتخابی نشانات کے تحت بحثیت آزاد امیدوار انتخاب لڑنا پڑا۔ اس کے علاوہ، ان پر اس بات کا بھی غصہ ہے کہ وہ طاقتور حلقوں کے حق میں فیصلے دیتے رہے ہیں۔ لیکن کیا ان وجوہات کی بنا پر قاضی فائز عیسیٰ پر حملہ کرنا جائز ہے؟ یہ سوال اہم ہے، کیونکہ سیاسی عدم برداشت کا یہ عمل کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے خطرہ ہے۔کوئی بھی اختلافی رائے، چاہے وہ کتنی ہی متنازعہ کیوں نہ ہو، اسے طاقت کے ذریعے حل کرنے کا حق نہیں ہے۔ یہ بات ریاست اور پی ٹی آئی دونوں ہی کے لیے سمجھنا ضروری ہے۔ اس وقت، بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی صورت حال کو متاثر کرنے والے متعدد عناصر موجود ہیں، جن میں 60 امریکی کانگریس کے اراکین کا خط ہے، جس میں عمران خان سمیت ملک میں جاری انسانی حقوق کی صورت حال پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔ یہ تمام واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ سیاسی اختلافات کس حد تک بڑھ سکتے ہیں۔ یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں طاقتور شخصیات اپنی مرضی کے مطابق قانون کو اپنے مفادات کے لیے کیسے استعمال کر سکتی ہیں، جس سے عدلیہ کی حیثیت بھی خطرے میں آ جاتی ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کی صورت حال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ملک میں سیاسی قیادت اپنے سے اوپر اٹھ کر سوچنے اور سمجھنے سے بلکل قاصر ہو چکی ہے۔ ہر ادارے کو کھلونے کی طرح استعمال کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان کوئی ڈیل چل رہی ہے۔ اس میں کوئے شک نہیں کہ پاکستان کی سیاست ڈیل جیسی لعنت سے بھری پڑی ہے جس کا مقصد مجرم سیاست دانوں کو قانونی گرفت سے بچا کر صحیع و سالم دوبارہ سیاسی میدان میں لا کھڑا کرنا ہے۔ لیکن تحریک انصاف، جو کہ اپنی پاکبازی کے آگے کسی کو کچھ نہیں سمجھتی، سے امید ہے کہ وہ عوام کو درست صورت حال سے آگاہ کرے نہ کہ وقت گزارنے کے لیے ہر بیانیے کو اپنے حق میں استعمال کرنے لگ جائے۔ پی ٹی آئی کو تضادات کی سیاست سے نکلنا ہو گا۔ ایک طرف امریکہ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار سمجھنا اور دوسری طرف اسی امریکہ سے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا تقاضا کرنا نہ صرف یہ بلکہ انتظار کرنا کہ کب ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر بنیں اور کب پی ٹی آئی کے لیے دوبارہ اقتدار میں آنے کا راستہ ہموار ہو۔ پاکستان کی معیشت کا دارومدار اب بھی قرضوں پر ہے، جبکہ سرمایہ کاری کے مواقع میں کمی آتی جا رہی ہے۔ایک سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا لیکن ایک بھی سرمایہ کار ایسا نہیں ملا جو پاکستان کی قومی ائر لائن پی آئی اے کو خیردینے پر تیار ہو۔ یہ ایک واقعہ لمحہ فکریہ ہے جسے سیاسی قیادت میں ہل چل پیدا کرنی چاہیے تھی۔ گنڈا پور اور دیگر پی ٹی آئی رہنما اگر یہ سمجھتے ہیں کہ مظاہروں کے ذریعے وہ اپنی سیاسی قوت کو بحال کر سکتے ہیں تو انہیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اس کا ملک کی معاشی ساکھ پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔یہ وقت بے حد اہم ہے اور جب تک کہ ایک دوستانہ کاروباری ماحول فراہم نہیں کیا جاتا، ملکی معیشت کو مستحکم کرنا مشکل ہوگا۔اب تو چین بھی ان تمام بین الاقوامی قوتوں کی صف میں کھڑا نظر آ رہا ہے جو سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی چپقلش ان کے مالی مفاد کے لیے زہر قاتل ہے۔ اس لیے جیسے تیسے یہاں سے جان چھڑا کر چلے جانا چاہیے۔کیا پاکستان اس طرح کے نتیجے کا متحمل ہے۔ ان مظاہروں، گنڈا پور کے بیانات اور قاضی فائز عیسیٰ پر ہونے والے حملے کے پس منظر میں ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا یہ سب واقعی ملک کی بہتری کے لیے ہے یا محض ایک سیاسی چال ہے جو کہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے؟ اس کے علاوہ، ہمیں سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کی مشکلات کا حل صرف طاقتور شخصیات کے بیانات میں نہیں، بلکہ ایک حقیقی اور متوازن سیاسی نظام میں ہے۔ ٭٭٭٭٭