تنخواہوں ، پنشن میں10فیصد اضافہ کھاد،زرعی مشینری،سٹیشنری، کمپیوٹر سستے ،سگریٹ مہنگے
اسلام آباد ( نمائندہ خصوصی،مانیٹرنگ ڈیسک، نیوزایجنسیاں ) وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مسلم لیگ ن کی حکومت کا چھٹا اور آخری بجٹ پیش کر دیا۔وفاقی بجٹ کا مجموعی حجم 5 ہزار 932 ارب روپے سے زائدہے جو گذشتہ بجٹ سے 16.2 فیصدزائد ہے ۔ یہ 1890.2 ارب روپے خسارے کا بجٹ ہے جو جی ڈی پی کا 4.9 فیصد ہے ۔سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس دیا گیا ہے جبکہ تمام پنشنرز کیلئے بھی 10 فیصداضافہ کیا گیاہے ۔ کھاد،زرعی مشینری، کمپیوٹر،سٹیشنری، نظر کی عینکیں، لیپ ٹاپ،الیکٹرک گاڑیاں ،ڈیری اور پولٹری مصنوعات سستی جبکہ سگریٹ مہنگے ہو گئے ۔ 12لاکھ تک سالانہ آمدن پرکوئی ٹیکس نہیں ہوگا۔ وفاقی وزیر خزانہ نے 19-2018 کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ کی منظوری کے بغیرحکومت ایک قدم بھی نہیں چل سکتی۔ حکومت کو تباہ شدہ معیشت ورثے میں ملی تھی، ملک میں سرمایہ کاری اور ترقی کم تھی، گزشتہ حکومت کے پانچ سالہ دور میں ترقیاتی اخراجات میں 230 فیصد اضافہ کیا گیا۔ حکومت نے مالیاتی خسارہ 5.5 فیصد تک محدود رکھا ہے جبکہ ترقی کی شرح نمومیں مسلسل اضافہ ہوا۔ یہ بجٹ عوام کی امنگوں کا عکاس ہے ۔وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ یکم جولائی 2018 سے سول ،فوجی ملازمین کی تنخواہ میں 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس دیا گیا ہے ، تمام پنشنرز کیلئے بھی 10 فیصداضافہ کیا گیاہے ۔ ہاؤس رینٹ الاؤنس میں بھی 50 فیصد اضافہ کیا گیاہے ، پنشن کی کم سے کم حد 6 ہزار سے بڑھا کر10ہزار روپے کردی گئی ہے ۔ فیملی پنشن کو 4500 سے بڑھا کر 7500 روپے کردیا گیا ہے ۔ 75 سال سے زائد عمر کے پنشنرز کیلئے کم از کم پنشن 15 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے جبکہ سٹاف، کار ڈرائیور، ڈسپیچ رائیڈرز کیلئے اوور ٹائم الاؤنس 40 روپے فی گھنٹہ سے بڑھ کر 80 روپے فی گھنٹہ ہوگا۔سرکاری ملازمین کیلئے گھر، موٹر سائیکل خریدنے کیلئے ایڈوانس کی مد میں 12ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ سینئر آفیسرز پرفارمنس الاؤنس کیلئے 5 ارب مختص کئے گئے ہیں۔تنخواہ دار افراد کیلئے ٹیکس کی چھوٹ کی حد میں اضافہ کیا گیا ہے اور اب 12 لاکھ روپے سالانہ تک آمدن ٹیکس فری ہو گی۔12 لاکھ سے 24 لاکھ روپے سالانہ کمانے والوں کو پانچ فیصد،24 لاکھ سے 48 لاکھ روپے آمدن والوں کو 24 10 فیصد ٹیکس دینا ہوگاجبکہ48 لاکھ سے زائد آمدن والوں کو 15 فیصد ٹیکس کی ادائیگی کرنا ہوگی۔ ٹیکس گزاروں کو 3 سال میں ایک سے زیادہ مرتبہ آڈٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ نان فائلرکمپنی پرود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 7 فیصد سے بڑھا کر 8 فیصد کرنے کی تجویز ہے ۔جائیداد پر ود ہولڈنگ ٹیکس، خریدار کی ظاہر کردہ ویلیو پر ایک فیصد ایڈجسٹ ایبل ایڈوانس ٹیکس کی تجویز ہے ۔ نان کارپوریٹڈکیسز کی صورت میں ودہولڈنگ ٹیکس 7.75 فیصد سے بڑھا کر9 فیصد کرنے کی تجویز ہے ، ٹیکس لائبیلٹی کی حد 25 فیصد سے کم کرکے 10فیصد کرنے کی تجویز ہے ، جائیداد کی خریدوفروخت، ویلیو پرسودے کا اندراج کرنے کی تجویز ہے ، صوبے اعلان کردہ ویلیو پر مجموعی ایک فیصد صوبائی ٹیکس بطورسٹیمپ ڈیوٹی ،کیپٹل ویلیو ٹیکس لیں گے ۔ بیواؤں کے قرضہ جات کی حد ساڑھے 3 لاکھ سے بڑھا کر 6 لاکھ روپے کردی گئی ہے جبکہ غربت کے خاتمے کے فنڈ کیلئے 68 کروڑ 80 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ قرآن پاک کی طباعت میں استعمال ہونے والے کاغذ پر سیلز اور کسٹم ڈیوٹی ختم کی جائے گی۔ فرٹیلائزر مینو فیکچررز کیلئے ایل این جی کی درآمد پر عائد 5 فیصد سیلزٹیکس ختم کردیا گیا، ایل این جی کی درآمد پر 3 فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس ختم کردیا گیاہے ، ایل این جی کی درآمد، آر ایل این جی کی سپلائی پر17 فیصد سیلزٹیکس کم کردیا گیا ہے ۔ لیپ ٹاپ، کمپیوٹرز کی تیاری، اسمبلنگ کے 21 پرزہ جات کی درآمد پر سیلز ٹیکس ختم کردیا گیاہے ، مقامی سٹیشنری آئٹمز پرزیرو ریٹنگ بحال کرنے کی تجویزہے ۔ کھاد کے کارخانوں پر گیس کی فراہمی پر سیلز ٹیکس 10 سے کم کرکے 5 فیصد کرنے کی تجویز ہے ۔یوریا کھاد پر سیلز ٹیکس کی شرح 5 فیصد اور ڈی اے پی پر 100روپے فی بوری ہے تاہم نئے بجٹ میں ہر قسم کی کھادوں پر سیلز ٹیکس کی شرح 3 فیصد تک کم کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔ زرعی مشینری پرسیلزٹیکس کی شرح 7 سے کم کرکے 5 فیصد کرنے کی تجویز ہے ۔ زرعی قرضوں کا ہدف 1100ارب روپے رکھا گیا ہے ۔کینسر کی تمام ادویات پر کسٹم ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز ہے ، نظر کی عینکوں پر کسٹم ڈیوٹی 11 سے کم کرکے 3 فیصد کرنے کی تجویز ہے ۔بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی درآمد پرعائد کسٹم ڈیوٹی کی شرح 50 فیصد کم کرکے 25 فیصدکردی گئی، بجلی کی گاڑیوں کیلئے چارجنگ سٹیشن پرعائد 16 فیصد کسٹم ڈیوٹی ختم کردی گئی، بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کیلئے 15 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کی چھوٹ بھی ہوگی، الیکٹرک گاڑیوں کی اسمبلی کیلئے سی کے ڈی کٹ 10 فیصد کی رعایتی شرح پر درآمد کرنے کی تجویز ہے ۔ ایل ای ڈی پارٹس اورخام مال پرعائد 5 فیصد کسٹم ڈیوٹی واپس لینے کی تجویز ہے ۔ سگریٹس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے کی تجویز ہے جس کے تحت ٹیئر ون سیگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 3 ہزار 964 روپے مقرر کرنے ، ٹیئر ٹو سیگریٹ پر ایک ہزار 770 روپے اور ٹیئر تھری سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 848 روپے مقرر کرنے کی تجویز ہے ۔ زراعت، ڈیری اور پولٹری کے شعبوں کیلئے ریلیف کی تجویز ہے ۔ پولٹری سیکٹر کیلئے مختلف وٹامنزکی درآمد پرکسٹم ڈیوٹی 10سے کم کرکے 5 فیصد کرنے کی تجویز ہے ۔ فش فیڈ پرعائد 10 فیصد سیلز ٹیکس ختم کردیا گیا ہے ، ڈیری فارمز کے پنکھوں اورجانوروں کی خوراک پرعائد سیلز ٹیکس ختم کردیا گیا ہے ۔ استعمال شدہ کپڑوں اور جوتوں پر 3 فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس ختم کردیا گیا ہے ۔ چمڑے ، کپڑے کی مصنوعات پر غیررجسٹرڈ افراد کیلئے سیلز ٹیکس 9 فیصد کرنے کی تجویز ہے جبکہ رجسٹرڈ افراد کیلئے 6فیصد سیلز ٹیکس برقرار رہے گا۔آپٹیکل فائبر کیبل کی دآرمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی 20 سے کم کر کے 10 فیصد، آپٹیکل فائبر کیبل کے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی 5 فیصد، پلاسٹک کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی 16 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد، ٹائر بنانے کے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی 20 فیصد سے کم کر کے 16 فیصد ، ٹرانسفارمرز میں استعمال ہونیوالی سٹیل شیٹ پر کسٹم ڈیوٹی 10سے کم کر کے 5 فیصد کرنے کی تجویز ہے ۔وزیر خزانہ نے فلم انڈسٹری کی بحالی کیلئے 4 نکاتی پیکج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ فلم پرسرمایہ کاری پر 5 سال تک انکم ٹیکس پر 50 فیصد چھوٹ کی تجویز ہے ، مستحق فنکاروں کی مالی مدد کیلئے فنڈ بھی قائم کیا جائے گا۔بجٹ میں جاری اخراجات کیلئے 478 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، ترقیاتی پروگرام کا حجم ایک ہزار 152 ارب اورایک کروڑ روپے ہوگا، جنرل پبلک سروسز پر اخراجات 3 ہزار340 ارب روپے ہوں گے ، دستیاب وسائل میں محصولات کا حصہ 2 ہزار 590 ارب روپے رکھا گیا ہے ، دستیاب وسائل کا تخمینہ4 ہزار713 ارب 70 کروڑروپے رکھا گیا جبکہ بیرونی دستیاب وسائل ایک ہزار118 ارب روپے رکھا گیا ہے ۔ ٹیکسوں کی مد میں 4 ہزار 435 ارب روپے وصولی کا ہدف رکھا ہے ۔آئندہ مالی سال کے دوران 2300ارب کے قرضے لئے جائیں گے ۔سبسڈیز پر 174ارب روپے خرچ کئے جائیں گے ۔بینظیر انکم سپورٹ فنڈ کی مد میں 124 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ پاکستان ریلوے کے ترقیاتی بجٹ کی مد میں 39 ارب روپے جبکہ پانی کے ذخیروں کے شعبے کیلئے 70 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے ، جن میں 29جاری منصوبوں کیلئے 27 ارب 75 کروڑ 39 لاکھ روپے جبکہ 10 نئی سکیموں کیلئے 12 ارب 24 کروڑ 60 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں ۔ وزارت صحت کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے 30 ارب 73 کروڑ 44 لاکھ 98 ہزار روپے مختص کرنے کی تجویز ہے جس میں سے 20 جاری منصوبوں کیلئے 12 ارب 43 کروڑ 89 لاکھ 88 ہزار روپے جبکہ 36 نئے منصوبوں کیلئے 18 ارب 29 کروڑ 55 لاکھ 10 ہزار روپے مختص کرنے کی تجویز دی ہے ۔ بنیادی صحت کیلئے 37 ارب مختص کئے گئے ہیں۔تعلیم کی مد میں 7 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے ، مختص رقم 90 ارب 81 کروڑ 80 لاکھ سے بڑھا کر 97 ارب 42 کروڑ روپے کردی گئی ہے ۔ وزارت تعلیم و فنی تربیت کے ترقیاتی اخراجات کیلئے 4 ارب 33 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وزارت داخلہ کی مجموعی طورپر59 جاری اور 71 نئے منصوبوں کیلئے 24 ارب 20 کروڑ 70 لاکھ روپے کا ترقیاتی بجٹ مختص کرنے کی تجویز دی ہے ۔ 59 جاری منصوبوں کیلئے 12 ارب 52 کروڑ 76 لاکھ روپے جبکہ 71 نئے منصوبوں کیلئے 11 ارب 20 کروڑ 70 لاکھ روپے ، وزارت قانون و انصاف کیلئے ایک ارب کروڑ 50لاکھ روپے ، ایوی ایشن ڈویژن کے کل 13 منصوبوں کیلئے 4 ارب 67کروڑ 74لاکھ 87 ہزار روپے ، نوجوانوں کیلئے وزیراعظم کی مختلف سکیموں کیلئے 10 ارب روپے ، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے 34 منصوبوں کیلئے 30 ارب 4 کروڑ روپے ،وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے 19 جاری اور 11 نئے منصوبہ جات کیلئے ایک ارب 66 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز ہے ۔ آئی ڈی پیز کی بحالی کیلئے 90ارب روپے ، مواصلات کے شعبے کیلئے 14ارب 48کروڑ رکھے گئے ہیں۔ نوجوانوں کی فنی تعلیم کیلئے صوبوں کیساتھ ملکر 400 نئے انسٹیٹیوٹ قائم کئے جائیں گے ۔ بچوں کی تعلیم و تربیت اورفلاح و بہبود کیلئے حکومت ایک نئے پروگرام کا آغاز کر رہی ہے جس کا نام 100، 100، 100 ہے ۔ یہ وفاقی حکومت کا عہد ہے کہ 100 فیصد بچوں کے سکول میں داخلے ، 100 فیصد بچوں کی سکول میں حاضری اور 100 فیصد بچوں کے کامیابی سے فارغ التحصیل ہونے کو یقینی بنائے گی۔وزیرخزانہ نے کہا کہ برآمدات میں 13 فیصد،درآمدات میں17 فیصد اضافہ ہوا۔ رواں سال شرح نمو 5.8 فیصد رہی جو گزشتہ 13 سال میں بلند ترین سطح ہے ۔ کاٹن کے سبجیکٹ کو وزارت ٹیکسٹائل سے لے کر منسٹری آف فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کے حوالے کردیا گیا ہے ۔ حکومت5 ارب روپے سے ایگریکلچر سپورٹ فنڈ قائم کر رہی ہے ۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ ٹیکسٹائل، چمڑے ، کھیلوں کی مصنوعات، قالین، سرجیکل مصنوعات جیسے 5 بڑے مصنوعات کو زیرو ریٹنگ سیلز ٹیکس قرار دئے جانے کو جاری رکھا جائے گا۔ حکومت نے آلو کی بر آمد پر ٹریڈ سپورٹ دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے ۔ حکومت بر آمدات کے فروغ کیلئے نئے ایکسپورٹ پیکج کا بھی اعلان کرے گی۔ کوئلے کی درآمد پر لاگو ٹیکس کی شرح 6 فیصد کو کم کر کے 4 فیصد کرنے کی تجویز ہے ۔صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے ملک بھر میں کھیلوں کے 100 سٹیڈیم بنائے جائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم لوگوں کو اندرون ملک غیرعلانیہ اثاثے ڈکلیئرکرنے کا آخری موقع دے رہے ہیں۔30جون 2017 سے پہلے کمائی گئی غیر علانیہ آمدنی اور اندرون ملک اثاثے 5 فیصد ادائیگی کے بعد ریگولرائز کئے جا سکتے ہیں جبکہ غیر علانیہ رقم سے ڈالر خریدنے والے ڈالر اکائونٹ ہولڈرز بھی 2 فیصد ادائیگی سے انہیں ریگولرائز کر سکتے ہیں۔ ایک شخص کیلئے ایک لاکھ ڈالر سالانہ تک زرِ مبادلہ ملک میں لانے پر آمدن کے ذرائع پر کوئی سوال نہیں کیا جائے گا اور ٹیکس سے استثنیٰ ہو گا۔ تاہم ایک لاکھ ڈالر سے بڑی رقوم پر لوگ ایف بی آر کو جوابدہ ہوں گے ۔ ہم لوگوں کو یہ سہولت دے رہے ہیں کہ وہ اپنے غیر ظاہر شدہ غیر ملکی اثاثہ جات 3 فیصد کی ادائیگی پر ڈکلیئر کر دیں اور اپنے لیکوئڈ اثاثہ جات کو5 فیصد پر ڈکلیئر کر دیں۔ بنکاری اور نان بنکاری کمپنیوں کیلئے سپر ٹیکس کی شرح سالانہ ایک فیصد کی شرح سے کم کردی جائے گی۔ کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کو 2023ء تک 25 فیصد تک لایا جائے گا۔ یکم جولائی 2018 سے ایف بی آر کے پراپرٹی ریٹ ختم کئے جا رہے ہیں۔ صوبوں کو ڈی سی ریٹس ختم کرنے کی بھی تجویز کر دی گئی ہے ۔ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کیلئے جائیداد کی خرید پر ٹیکس صرف ایک فیصد ہو گا ۔ موجودہ قانون کے مطابق 10 ہزار روپے سے زائد مالیت کی خدمات اور25 ہزار روپے سے زائد مالیت کی اشیاء کی ادائیگی پر ٹیکس کی کٹوتی لازمی ہے ۔ گذشتہ سالوں میں افراط زر کے رحجان کے باعث تجویز ہے کہ ٹیکس کٹوتی کیلئے حد بڑھا کر خدمات کیلئے 30 ہزار روپے کی ادائیگی اور اشیاء کیلئے 75 ہزار روپے تک کی ادائیگی کر دی جائے ۔ سیلز ٹیکس کی بنیاد اور معیشت کو دستاویزی شکل دینے کے حوالے سے اضافی ٹیکس کی موجودہ شرح کو 2 فیصد سے بڑھا کر 3 فیصد کرنے کی تجویز ہے ۔ سی پیک کے تحت کراچی سے پشاور تک ٹرینوں کی رفتار کو 3 گنا تک بڑھانے کا منصوبہ تشکیل دیا گیا ہے جس سے ٹرینوں کی موجودہ اوسط رفتار جو 55 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے اسے سال 2021 تک 160 کلومیٹر فی گھنٹہ تک بڑھایا جائے گا۔ گوادر بندر گاہ کے عالمی معیار کو برقرار رکھنے کیلئے بجٹ میں ضروری وسائل مختص کئے گئے ہیں جن کی مدد سے گوادر ایئرپورٹ، سڑکوں کی تعمیر، صاف پانی کا پلانٹ، 50 بیڈ کا ہسپتال اور 300 میگا واٹ کے پاورپلانٹ کی تعمیر کی جائے گی۔