تکیہ سادھواں اور گنجِ شہیداں
سعد الله شاہ
ہمارے ادارے کے مذہبی ونگ میں "تکیہ سادھواں" کا نام کافی معروف ہے ، وجۂ شہرت وہاں کی قدیم اور مرکزی مسجد بھی ہے ، جو لاہور کے میلادُ النبی ﷺکے روایتی جلوس کا مرکزی نقطہ ہے ۔ داتاؒدربار کے معروف خطیب علامہ محمد مقصود احمد قادری اوائل دور میں یہاں خطیب رہے ۔ اندرون لاہور کی بَل کھاتی ہوئی ، خمدار بلکہ از حد سمارٹ سی گلیوں سے ہوتے ہوئے ،گزشتہ روز وہاں حاضری کا موقع میسر آیا ۔قدیم لاہور ایک فصیل کے حصار میں تھا ، جس کے تیرہ دروازے تھے ، جو رات کے ابتدائی پہر میں مقفل ہوجاتے ۔یوں اندرون شہر کی آبادی بلا خوف وخطر،پُرسکون ہوکر رات بسر کرتی ۔ داخلی دروازوں کے اِردگرد مختلف صوفیوں اور درویشوں کے تکیے تھے ،جہاں بیرون سے آنے والے ایسے مسافر ، جو تاخیر کے سبب شہر میں داخل نہ ہوسکتے ، ان بابوں کے ڈیروں پہ قیام کرتے ، جہاں ان کی خاطر و مدارت اور قیام کا بندوبست ہوتا ، یہ مہمان نوازی لاہور کے بنیادی اجزاء میں ہمیشہ سے شامل ہے ۔ بعد کے زمانے میں تو یہ سارا " لوڈ "اکیلے داتاؒدربار ہی نے اُٹھالیا اور لاہور میں آنے والے ہر نو وارد کے لیے داتا گنج بخشؒ نے اپنی خانقاہ کے دروازے ہمیشہ وَا ر کھے ۔ کسمپرسی اور خستگی کے عالم میں ، کتنے ہی جینئس ، جن کا اوّلین پڑھائو یہاں ہوتا ، دن بھر میں زندگی کی دوڑ دھوپ اور رات کو داتاؒ کا دربار اور پھر انہوں نے زندگی میں بڑا نام اور مقام پیدا کیا ۔ویسے تکیہ فارسی زبان کا لفظ ہے ، جس کا معنی وہ چیزہے جس پر کمر یا پشت کی ٹیک لگا کر آرام کیا جائے ۔ کسی فقیر ، صوفی ، درویش کے رہنے کی جگہ کو بھی تکیہ کہتے ہیں ۔ ہمارے دیہاتی کلچر میں دارا، دائرہ ، چوپال اور بیٹھک وغیرہ بھی معنویت میں اس کے قریب تر ہیں ۔یہ تکیے بزرگوں،بوڑھوں اور نوجوانوں کے درمیان رابطے، ترسیل ِ علم اور سماجی رکھ رکھائو سے آگاہی کا ایک مرکزتھے ۔بڑوںکے تجربات سے استفادہ اور نشست و برخاست کے آداب انسان انہی مجالس سے سیکھ لیتا ۔ یوں نفسیاتی عوارض، فرسٹریشن اور ڈپریشن جیسے عوامل کا کہیں نام ونشان نہ تھااور نہ ہی سوسائٹی کو "بوریت" جیسی اصطلاحات کا ادراک تھا۔امتدادِزمانہ سے جہاں سوسائٹی کے چلن مختلف ہوئے ، وہاں ایسے انسٹیٹیوشنز بھی بانجھ پن کا شکار ہوگئے اور اخلاق و ادب سے مامور ایسے مقامات نشہ بازی اور منفی سرگرمیوں کا مرکز بن گئے اور ناجائز قابضین کے ہتھے چڑھ گئے ۔ لاہور کے دیگر تکیوں کی طرح تکیہ سادھواں کا بھی اب کوئی نشان باقی نہیں ۔ یہ بنیادی طور پر کشمیری سادھوبرادری کا تکیہ تھا ، جو تجارت اور طبابت سے وابستہ تھے ۔ سوا دو سو سال قبل نور محمد سادھونے یہاں از سرِ نو مسجد تعمیر کروادی اور تعلیم و تعلم کا مرکز بنادیا ۔ کسی دور میں یہ ایک کشادہ ایریا تھا ، مسجد کے باہر ایک وسیع احاطہ تھا، وقت کے ساتھ یہ گلی کوچے سکڑتے گئے ، پرانے پیداواری یونٹس کی زرخیزی متاثر ہوگئی ۔ بعض سرِے سے ناپید ہوگئے ، یہاں تک پہنچنے والے راستے تنگ و تاریک ہیں ۔افسرانہ ٹھاٹھ باٹھ رکھنے والے کے لیے یہاں تک پہنچنا، اب ممکن نہیں رہا ۔ہمارے ڈرائیوروں کی خواہش ہوتی ہے کہ گاڑی دوسرے کے ڈرائنگ روم کے اندر ہی اُتر جائے۔ یہ دشت نوردی میری سرشت میں شامل ہے ، اس کے لیے گوچہ گردی کا شوق لاحق ہونا ضروری ہے ۔ چنانچہ یہ دُھن گزشتہ روز یہاں تک لے آئی ۔ دہلی دروازہ اور پھر مسجد وزیر خان اور دربار حضرت سخی سیدصوف،اس دورے کا ابتدائی پڑائو تھا۔سُنا ہے بڑی مستجاب الدعوات ہستی ہیں ،دُعائیں اور التجائیں لمحوں میں ہی بابِ قبولیت تک جا پہنچتی ہیں ۔ وہاں سے اندرون کے روایتی راستوں سے ہوتا ہوا ، چوک تکیہ سادھواں پہنچا ، یہ تقریباً گیارہ بجے دن کے بعد کا وقت تھا ،ابھی تک گلیوں میں اندرون لاہور کا روایتی ناشتہ مشامِ جاںکو معطر کررہا تھا ۔مجھے یوں محسوس ہوا کہ شاید ہر گھر میں ناشتے کا دستر خواں اسی کلچے ،نان ،چنے ،نہاری ،ہریسے سے آراستہ ہوتا ہے ۔یہ لاہور کے پرانے لوگ ہیں ، نسل ِنو اَب ڈیفنس اور ماڈل ٹائون کی تہذیب یافتہ ہے ، ان کے معدے اب اتنے مضبوط اور قوی نہیں کہ ایسی مرغن اور مقوی غذائیں ہضم کرسکیں۔ مسجد سے ملحق گلی میں گنجِ شہیداں ہے ، جو کہ اس اعتبار سے لاہور میں سب سے معروف اور مستند حیثیت رکھتا ہے ۔بہرحال لاہور میں تین مقامات ـ"گنج شہیداں" یا شہید گنج کے نام سے معروف ہیں ، جن میں ایک موچی دروازے کے باہر دربار حضرت شاہ ابوالمعالیؒ کے جنوب رو،یہ ایک چبوترے پر ہے۔ اس کے متعلق ماورائی داستانیں لاہور کی تاریخ میں موجود ہیں ، جن میں ایک بے بنیاد روایت یہ بھی ہے کہ یہاں حضرت امام جعفر صادق کا مزار شریف ہے۔ مسجد تکیہ سادھواں کے پاس "گنج ِشہیداں"کے گرد روایتی تقدس اور حرمت کا ہالہ موجود ہے ۔جہاں گزرنے والوں کے قدم رُک جاتے ہیں ، زائر نے رُک کر فاتحہ خوانی اور ایصالِ ثواب کا اہتمام کیا ۔ روایت یہی ہے کہ اصل گنج شہیداں یہی ہے ۔ان قبور کا سلسلہ بہت وسیع تھا اور روایت یہی ہے کہ محمود غزنوی کی فوج لاہور پر حملہ آور ہوئی تو گھمسان کی لڑائی ہوئی ، جو مسلمان فوجی جہاں جہاں شہید ہوئے ،اُن کی تدفین وہیں کردی گئی ۔ محمود غزنوی کو لاہور میں ہندو راجہ جے پال سے سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور یہ ہندو راجوں کا واحد سرخیل تھا ، جس نے پشاور سے آگے تک ، جاکر اپنی مزا حمت رجسٹرڈکروائی۔ اگرچہ کامیاب نہ ہوسکا، مگر اپنی بہادری اور جرأت کے سبب تاریخ میں اَمر رہا ۔ ازاں بعد جب پنجاب پر غزنہ سلطنت کی عملداری کمزور ہوئی تو جے پال کے بیٹے راجہ آنند پال نے ہند کے راجگان کی معیت اور معاونت سے ، لاہور پر اپنی حکومت اور اقتدار کو بحال کرنے کے لیے پے درپے حملے کیے ، یہ سلسلہ چھ ماہ تک جاری رہا ۔ مسلمانوں کی کثیر تعداد تہہ تیغ ہوئی ، مسجدیں منہدم ہوئیں، تاہم کچھ ہی عرصہ بعد غزنوی مستحکم ہوئے اور ان کی کمک سے لاہور بہتر ہوگیا۔ لاہور لنڈے بازار میں شہیدگنج کے نام سے ایک مسجد بھی ہے ،جس کو 1935ء میں سکھوں نے گرا کرگوردوارہ بنانے کی کوشش کی ، جس سے شہر ِلاہور بھڑک اُٹھا اور لمحوں میں پورا شہراس مسجد کی حفاظت کے لیے جائے وقوعہ پرپہنچ گیا ، شورش کاشمیری نے لکھاکہ مسلمان آگ بگولا ہوگئے، فساد ہوتا تولازماً اس وقت مسلمان مسجد پر قابض ہوجاتے اور ان سکھوں کو آنِ واحد میں ختم کرڈالتے۔ لیکن چند ہی منٹ کے اندر اندر گھڑ سوار پولیس آگئی۔ دیکھتی آنکھوں پیادہ پولیس کا ڈھیر لگ گیا۔ (جاری ہے)