تین ماہ بہت ہوتے ہیں وزیراعظم صاحب
ارشاد محمود
حکومت کو اپوزیشن، میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا سینگوں پر اٹھاچکاہے۔ تین ماہ کی کارکردگی اور بعدازاں سرکار کی طرف سے کیے جانے والے اعلانات نے عوام کو زیادہ پسند نہیں کیا۔خاص طو ر پر ڈالر کی طوفانی اڑان نے کاروباری طبقات اور شہریوں کے کس بل نکال دیئے۔مہنگائی کا ایسا طوفان اٹھا کہ حکومتی کارکردگی اس میں دب گئی۔ شہریوں کے لیے حکومت کی کارکردگی کا پیمانہ انہیں ملنے والی بجلی ، پانی کے بل اور روزمرہ کی اشیاء کی مناسب نرخوں پر فراوانی ہے۔پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں ہونے والے ہوشربا اضافے نے بھی شہریوں کو ششدر کردیا۔ چنانچہ محض تین ماہ کے اندر حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھنے لگے اور نکتہ چینی شروع ہوگئی۔ وزیرخزانہ اسد عمر جن کی شہرت اور دیانت داری کی وزیراعظم عمران خان قسم کھاتے ہیں بری طرح خجل خوارہوئے ۔ بروقت درست فیصلے وہ نہ کرسکے۔ عمران خان کے وہ بہت قریب ہیں اور انہیں وزیراعظم کا اعتماد بھی حاصل ہے۔ لہٰذا ان کے نوکری سے برخاست ہونے کے امکانات کم ہیں لیکن وہ ڈلیور کرنہیں سکے۔ ٹیکس جمع کرنے کے حوالے سے موجودہ فرسودہ میکانزم کو متحرک ہونے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔ جو مشینری ایک بار بوسیدہ ہوجائے اسے ٹھیک کرکے رواں کرنا دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ ٹیکس کے محکمے نے گزشتہ ستر برسوں سے کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھائی۔ ٹیکس جمع کرانے کے نظام کو اس قدر ادق بنایا گیاکہ شہری ٹیکس دہندہ بننے سے کتراتے ہیں کہ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ سوا ل یہ ہے کہ آخر اس قدر دعووں اور اعلانات کے باوجود حکومت ڈلیور کیوں نہیں کرسکی؟ پہلی غلطی حکومت نے یہ کی کہ غیر ضروری طور پر امیدوں اور توقعات کا ایک پہاڑ کھڑا کیا۔لوگوں بالخصوص نوجوانوں کی آرزوں کو مہمیز لگائی ۔ ایسا ماحول پیدا کیاگیا کہ تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی ملک میں دودھ اورشہد کی نہریں رواں ہوں گی اور بیرون ملک پاکستانی ڈالر نچھاور کردیں گے۔ بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکااور حکومتی ٹیم کو خجالت کا سامنا کرنا پڑا۔ وقت اور توانائی کا بڑا حصہ حکومتی ترجمان یہ بیان کرنے میں گزاردیتے ہیں کہ سرکارملک سے کرپشن کا خاتمہ کرکے دم لے گی ۔ بیرون ملک سے لوٹی ہوئی دولت حکومت واپس لائے گی اور احتساب کا کوڑا بلاامتیاز برسے گا۔ سننے کو یہ باتیں بھلی لگتی ہیں بلکہ کانوں میں رس گھولتی ہیں لیکن عملی طور پر وائٹ کالر جرائم کا سراغ لگانا اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے عمر خضر درکار ہوتی ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں جہاں احتساب کرنے والی مشینری میں اکثر ایسی شخصیات شامل ہیں جوبہتی کنگا میں اشنان کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیںاحتساب میں نہیں۔غالباً اسی سبب سے ابھی تک نیب کے ہاتھ کوئی ایسی بڑی مچھلی نہیں لگی جس کا پیٹ پھاڑ کر اربوں کھربوں واگزار کرائے جاسکے ہوں۔ احتساب اور کرپشن پکڑنا ایک طویل المیعاد عمل ہے جو ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے اور انہیں مسلسل یہ کام کرتے رہنا چاہیے۔ منتخب حکومت اور سپریم کورٹ کی انہیں پشت پناہی بھی دستیاب رہنی چاہیے۔ بنااس کے ان کے قدم لڑکھڑانے لگتے ہیںلیکن محض کرپشن کے خاتمے کی مہم کارکردگی کا نعم البدل نہیں ہوسکتی۔ سیاسی مخالفین پر حکومت کو ابھی تک دو طرح کی برتری حاصل ہے۔پہلی برتری یہ ہے کہ لوگوںکو اطمینان ہے کہ ان کا وزیراعظم ایک دیانت دارشخص ہے، فیصلے میں بھول چوک تو کرسکتاہے لیکن ذاتی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہے نہ بیرون ملک جائیدادیں خریدنے میں ۔ چنانچہ انہوں نے مہنگائی کے طوفان کو بھی برداشت کرلیا کہ غالباً چند ماہ بعد راحت ملے۔ وزیراعظم عمران خان کی سرکار کو دوسری برتری یہ ہے کہ قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں میں ان کی ساکھ ابھی تک قائم ہے اور وہ حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے ہیں۔ اس تعاون ہی کی بدولت حکومت کرتارپور راہداری جیسے بڑے فیصلے کرسکی۔ معیشت کو مضبوط کرنے کی خاطر بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی مسلسل کوششوں میں لگی ہے حالانکہ بھارت کی سردمہری خون منجمند کردینے والی ہے۔ پاکستان معاشی امکانات اور مواقعوں کے دہانے پر بیٹھا ہوا ایک ملک ہے ۔چند روز قبل جنوبی ایشیا میں علاقاتی تجارت کا وعدہ‘ کے عنوان سے جاری ہونے والی ورلڈ بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں 39 ارب 70 کروڑ روپے کی تجارت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس کا موجودہ تجارتی حجم صرف 5 ارب ایک کروڑ ڈالر ہے۔اس رپورٹ میں بتایاگیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کے موجودہ 5ارب ڈالر کے حجم کو 37 ارب ڈالر تک لے جایاجاسکتا ہے۔ غالباً انہی امکانات کے پیش نظر جنرل قمر جاوید باجوہ بھی خطے میں امن واستحکام کی کوششوں کی حمایت کررہے ہیں۔ ماضی کے برعکس ان کا طرزعمل مفاہمت اور معاشی استحکام کو فروغ دینے کا ہے۔ کرتارپور راہداری نہ کھل سکتی ،اگر ان کی بھرپور حمایت میسر نہ ہوتی۔ یہ خبر بھی خوش کن ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سفارتی لب ولہجہ اختیار کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے افغانستان میں استحکام کے لیے تعاون کی درخواست کی۔ نئے تعینات ہونے والی امریکی کمانڈر نے بھی کہا کہ افغانستان میں پاکستان کی مدد کے بنا امن قائم نہیں ہوسکتا۔ پی ٹی آئی سرکار کو ان امکانات سے استفادہ کرتے ہوئے سبک رفتاری سے جرأت مندانہ اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ خطے میں تنازعات کے حل کی کوئی نہ کوئی راہ نکل سکے کیونکہ ان تنازعات کی موجودگی میں پاکستان ترقی کرسکتاہے اور نہ خوشحالی کی منزل حاصل کی جاسکتی ہے۔