جامعات کے مالی مسائل کا حل
ڈاکٹر جام سجاد حسین
دنیا بھر میں سرکاری جامعات تعلیم، تحقیق، صنعتی روابط، سافٹ وئیر پروڈکشن، زرعی جدت، غذائی پیداوارمیں اضافہ سمیت دیگر کئی ایسے منصوبہ جات کے ذریعے نہ صرف مالی طور پر خود کفیل ہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم کے فروغ، ملازمتوں کے مواقع پیدا کرکے قومی و صوبائی حکومتوں کی امداد کررہی ہیں۔ جامعات سرکار کا بازو ہیں مگر ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیم کے لئے قائم سرکاری جامعات تاحال حکومتی اِمداد کی محتاج ہیں بلکہ حکومتیں یہ سوچنے پہ مجبور ہورہی ہیں کہ اگر سرکاری جامعات نے بھی حکومتی فنڈنگ پر پلنا ہے تو اِن جامعات کی نجکاری کردی جائے۔ حکومتی راہداریوں میں یہ بحث جڑ پکڑتی جا رہی ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی نجکاری کردی جائے۔ سکولوں کی سطح سے اِس عمل کا آغاز ہوچکا ہے۔ اگلے مرحلے میں کالجز اور پھر شاید سرکاری جامعات کی باری آن پہنچے۔ نجکاری حکومت کیلئے مالی بوجھ کم کرنے کا سبب تو بن سکتی ہے مگر تیسری دنیا کے پاکستان جیسے غریب ملک کے غریب عوام کے بچوں پر یہ ظلم ِ عظیم ہوگا۔سرکاری جامعات کی نجکاری سے یقینی طور پر وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول سے محروم ہوجائیں گے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو سرکاری جامعات میں پھْن پھیلائے بیٹھا ہے۔ اگر یہ مسئلہ حل ہوجائے تو سرکاری جامعات، طلبہ و طالبات، اساتذہ، انتظامی افسران کے ساتھ ساتھ حکومت بھی خوش ہوگی کہ سرکاری جامعات حکومت پر مزید بوجھ نہیں ہیں۔ اِس مسئلے کو مستقل طور پر حل کیاجاسکتا ہے۔ جو لوگ اعلیٰ تعلیم کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ اْمید ہے یہ حل اْنہیں کارآمد محسوس ہوگا اور قوی امکان ہے کہ حکومت بھی اِس پر عملدرآمد کرنے کے بعد ایک بڑے مالی بوجھ سے چھٹکارہ حاصل کرلے گی۔ پاکستان میں سرکاری جامعہ کا بنیادی ڈھانچہ طلبہ و طالبا ت اور اساتذہ کے وجود پر کھڑا ہے۔ ہر طالبعلم کسی خاص مضمون کو منتخب کرتا ہے اور اْس مضمون کے نام سے ہی جامعہ میں وہ شعبہ موجود ہوتا ہے۔ مثلاََ اْردو ڈیپارٹمنٹ،انگلش لٹریچر، فارسی، اقبال سٹڈیز، تاریخ، آرٹس اینڈ ڈیزائن وغیرہ سمیت کئی شعبہ جات کام کررہے ہوتے ہیں۔ یہ سبھی شعبہ جات ایک فیکلٹی کے اندر کام کرتے ہیں۔ ہر شعبہ کے ایک چیئرمین جبکہ فیکلٹی چلانے کیلئے حکومت اْس پر ایک ڈین تعینات کرتی ہے۔ ایک سرکاری جامعہ میں درجن بھر فیکلٹیز کے اندر درجنوں اور سینکڑوں شعبہ جات قائم ہوتے ہیں۔ انتظامی اور تدریسی معاملات میں یہ شعبہ جات اور فیکلٹیز یونیورسٹی کے اندر نیم خودمختار ہوتی ہیں جبکہ مالی طورپر شعبہ جات اور فیکلٹیز خزانہ دار کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں اور خزانہ دار وائس چانسلر کی مرضی و منشا ء کے مطابق کام کررہا ہوتا ہے۔ وائس چانسلر نے محض خزانہ دار کو منیج کرنا ہوتا ہے، اْس کے بعد وہ جو چاہے کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔ جن جامعات میں اچھے، نیک اور ایماندار وائس چانسلر تعینات ہیں یا جن جامعات میں انتظامی و تدریسی افسران انفرادی ذات کے خول سے بالا تر اور یک سو ہوکر اپنی جامعہ کی تعمیر و ترقی میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں اْن جامعات میں مالی زبوں حالی کا نام و نشان نہ ہے۔ اور نہ ہی حکومت کو اْن سے کوئی مسئلہ ہے۔جو جامعات مالی مسائل کے منجدھار میں اْلجھی ہوئی ہیں وہاں مالی وسائل کا ارتکاز ایک افسر میں منجمد ہے۔ اگر مالی نظام کی مرکزیت ختم کردی جائے تو یہ مسئلہ آسانی سے حل ہوسکتا ہے۔ مثلاََ سرکاری جامعہ کی آمدن کے تیس سے چالیس بجٹ ہیڈ زبنا دیے جائیں۔ ہر ڈین اور متعلقہ ڈائریکٹریا پرنسپل افسر کو DDOپاور دے دی جائے۔ جہاں ضرورت ہووہاں ملازمتیں پیدا کی جائیں اور یقینی بنایا جائے کہ نئی سیٹ پر بھرتی ہونے والے فرد کی تنخواہ دینے کیلئے متعلقہ شعبہ کے پاس فنڈنگ موجود ہے۔ خزانہ دار کو محض اْن سبھی اکاؤنٹس میں آمدن اور اخراجات کی ترتیب، آمدن و ترسیل میں توازن قائم رکھنے کا ٹاسک دے دیا جائے۔ اِس عمل سے ہر ڈین کو اپنی فیکلٹی کی کل آمدن اور اخراجات کے متعلق بخوبی علم ہوگا۔ طلبہ و طالبات کی سالانہ سرگرمیاں، نئے شعبہ جات کا قیام و تعمیرات، خریداری، فرنیچر و عمارات کی مرمت سمیت سبھی امور پر اْٹھنے والے اخراجات کا بخوبی ادراک ہوگا۔ آسانی سے معلوم پڑجائے گا کہ کون سے شعبہ کے اخراجات آمدن سے زائد ہیں، ٹرانسپورٹ میں نئی بسوں کی ضرورت ہے یا نہیں، آمدن اور اخراجات کا توازن کیسا ہے؟ امتحانات، سرکاری و نجی کالجز کے الحاق سے ہونے والی آمدن کتنی ہے اور اخراجات کتنے ہیں؟ آج چونکہ ٹیکنالوجی کا دور ہے تو سبھی مالی اکاؤنٹس کو آن لائن کردیا جائے، ہر ڈین، ہر ڈائریکٹر اپنی اور دوسری فیکلٹی یا ڈائریکٹوریٹ کی آمدن و اخراجات کو آن لائن دیکھ سکتا ہو۔ ہر فیکلٹی کا آڈٹ دوسری فیکلٹی کے کسی ایماندارپروفیسر یا ایسوسی ایٹ پروفیسر کے ذمہ ہو، جنہیں آڈٹ کی اضافہ ذمہ داری دی جائے۔ ماہانہ کی بنیاد پر آڈٹ افسران کی میٹنگز ہوں اور جامعہ کے حکومتی آڈیٹر کی معاونت سے یہ نظام چلتا رہے۔وائس چانسلر کو روزانہ کی بنیاد پرجامعہ کی آمدن و اخراجات کے متعلق ایک فنانشل شیٹ پیش ہو، ماہانہ کی بنیاد پر ڈینز اور متعلقہ افسران اپنی اپنی شیٹس پر تصدیقی دستخط کریں اور وائس چانسلر دفتر میں جمع کرائیں بلکہ ہر تین ماہ بعد ایک میٹنگ بھی ہو۔ جب سبھی ڈینز، ڈائریکٹر اور پرنسپل افسران مالی آمدن و تقسیم کاری میں شامل ہونگے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی بھی طرح کی خریداری، تعمیر، امتحانات، ٹرانسپورٹ یا کسی بھی دوسری مد میں بدعنوانی کا خدشہ بھی پیدا ہو۔ یقین جانئے کہ سوائے مالی نظام کے باقی سبھی شعبہ جات میں یعنی داخلوں، ٹیسٹ، امتحانات، تحقیق اور انتظامی طورپر یہ غیر مرکزی نظام اِنہی ڈینز کی سربراہی میں بخوبی چل رہا ہے اور کسی جگہ مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ پھر مالی طورپر کیوں نہیں؟ شاید اس کام کیلئے حکومت کو کسی نئی قانون سازی کی ضرورت نہ ہے بلکہ یہ ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے ممکن ہے۔ سبھی وائس چانسلر ز کوحکومت ایک حکم نامہ جاری کرے کہ مالیات کا نظام decentralizeکریں۔ اِس عمل سے جہاں سرکاری جامعات میں شفافیت آئے گی وہیں ہر شعبہ، فیکلٹی اور ڈائریکٹوریٹ کو اپنی آمدن اور اخراجات کا علم ہوگابلکہ دوسروں کو بھی ادراک ہوگا کہ کون سا شعبہ سفید ہاتھی بن چکا ہے