2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

جنوبی پنجاب میں ’’پناہ گاہوں‘‘ کی ضرورت

ظہور دھریجہ
14-11-2018

وزیراعلیٰ ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے لاہور میں 5 پناہ گاہیں تعمیر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پناہ گاہوں کی تعمیر کا بنیادی مقصد لاہور آنے والے غریب افراد کو رات بسر کرنے کی سہولت فراہم کرنا ہے ، پناہ گاہ بننے سے غریب آدمی کو سردی کے موسم میں کھلے آسمان تلے نہیں سونا پڑے گا ۔ پچھلے دنوں حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کا عرس تھا ، زائرین کی رہائش کیلئے محکمہ اوقاف کی طرف سے ایک کمرے کا بھی انتظام نہیں تھا ۔ زائرین کی رہائش کیلئے ملتان کے سکول بند کرائے گئے ۔ اسی طرح محکمہ اوقاف کے پاس دربار خواجہ فرید کوٹ مٹھن کی سوا لاکھ کنال زرعی اراضی اور اربوں روپے مالیت کی دیگر املاک ہیں مگر وہاں بھی محکمہ اوقاف کی طرف سے مسافر زائرین کیلئے کوئی سہولت نہیں ۔ اسی طرح سرائیکی وسیب کا کوئی شہر یا کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں حکومت کی طرف سے کوئی پناہ گاہ بنائی گئی ہو جبکہ محکمہ اوقاف پنجاب نے اربوں روپیہ خرچ کر کے داتا دربار لاہور کے زائرین کو سہولتیں دی ہیں جو کہ خوش آئند ہے۔ وسیب کو اس بات پر اعتراض نہیں کہ لاہور میں سہولتیں کیوں دی گئی ہیں ‘ اگر اعتراض ہے تو اس بات پر ہے کہ وسیب سے امتیازی سلوک کیوں کیا جاتا ہے ؟ تحریک انصاف اس بات کی سب سے بڑی ناقد رہی کہ ن لیگ کے میاں برادران نے تمام وسائل لاہور میں جھونک دیئے ہیں ۔ اگر تحریک انصاف نے بھی یہی کام کرنا ہے تو پھر تبدیلی کے نعرے کیوں لگائے گئے۔ وزیراعلیٰ نے لندن کے ہائیڈ پارک کی طرز پر عوامی شکایات ریکارڈ کرانے کیلئے لاہور میں پارک بنانے کی بھی منظوری دی ہے۔ جہاں تک لاہور میں ہائیڈ پارک کی بنانے کی بات ہے تو یہ ہائیڈ پارک تو سرائیکی وسیب میں بننا چاہئے جہاں قدم قدم پر مسائل ہیں ، جہاں عرصہ 70 سال سے لوگ اپنے مسائل کے حل کیلئے آہ و فغاں کر رہے ہیں ۔ تبدیلی کے نام پرآنے والے حکمرانوں کو کم از کم اس بات کا خیال کرنا چاہئے کہ تعلیمی ادارے ، یونیورسٹیاں موٹر ویز اور ٹیکس فری انڈسٹریل زون محروم علاقوں کا بھی حق ہے اور تبدیلی نام ہی اس بات کا ہے کہ محروم اور پسماندہ علاقوں کو آگے لایا جائے ۔ لیکن اب تک ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ علاقوں کو مزید ترقی یافتہ بنانے کی رفتار تیز کر دی گئی ہے ۔ حکمرانوں کو اس بات کا احساس کرنا چاہئے کہ سرائیکی وسیب میں بھی انسان بستے ہیں ، ان کے بھی کوئی حقوق ہیں ۔ یہاں جانوروں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے ‘ انسانوں کے حقوق کی بات کوئی نہیں کرتا ۔ کہنے کو انسانی حقوق کی وزارت بھی ہے اور سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والی اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر شیریں مزاری انسانی حقوق کی وزارت کی وفاقی وزیر بھی ہیں ۔ مگر یہ ستم ملاحظہ فرمائیے کہ آج کے اخبارات میں محترمہ شیریں مزاری کی ایک خبر تصویر کے ساتھ شائع ہوئی ہے ، محترمہ اپنے گاؤں مزاری ہاؤس بنگلہ اچھا میں شہریوں کے مسائل سن رہی ہیں ، محترمہ کرسی پر تشریف فرما ہیں اور مسائل بیان کرنے والے نیچے زمین پر بیٹھے ہیں ۔ جن لوگوں کو زمین پر بٹھایا گیا ‘ کیا وہ انسان نہیں ؟ ان کے کوئی حقوق نہیں ؟ کیا آج کی 21 ویں صدی میں شرفِ انسانیت کا یہی تقاضا ہے کہ آپ جاہل وڈیروں یا گدی نشینوں کی طرح خود اوپر بیٹھ جائیں اور جو غریب انسان ہیں ، ان کو نیچے بٹھا دیں ؟ کیا عمران خان اس بات کا ایکشن لیں گے کہ انسانی حقوق کی وزارت کی وفاقی وزیر انسانوں کی توہین کے درپے ہیں ۔ وسیب کے ایک دوسرے مسئلے کی طرف توجہ دلانا چاہوں گاکہ ڈیرہ غازی خان ہسپتال میں ایک لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ ہسپتال کے ملازم کا جھگڑا ہوا ، ملازم نے لیڈی ڈاکٹر کو تھپڑ مار دیا ، وہاں تمام ڈاکٹروں نے اس بد تمیزی پر ہڑتال کر دی اور ملزم کی گرفتاری تک وہ ہڑتال جاری رہی ۔ ہم ملزم کے طرفدار نہیں، ملزم نے بدتمیزی کی ، غلط کام کیا ، قانون کے مطابق اسے سزا ملنی چاہئے ۔ لیکن تصویر کا دوسرا رُخ دیکھئے کہ رحیم یارخان میں دو ڈاکٹروں نے اپنے ایک نوجوان ملازم اور فورتھ ایئر کے طالب علم آصف کو ڈنڈوں سے مار مار کر قتل کر دیا، اس کا جرم یہ بتایا گیا ہے کہ اس نے 10 ہزار روپے چوری کئے تھے۔ مقتول کا تعلق چاچڑاں سے تھا ۔ وہ نہایت غریب آدمی اور اپنے گھر کا واحد سہارا تھا ۔ چاچڑاں کے چیئرمین کو لیکر وہ لوگ رحیم یارخان پہنچے تو ڈاکٹروں نے اپنے پیٹی بھائیوں کی فیور کرتے ہوئے پوسٹ مارٹم تک سے لیت و لعل کیا ۔ لواحقین پوری رات روتے رہے ، تڑپتے رہے ۔ سوال یہ ہے کہ ایک طرف ایک ڈاکٹر کو تھپڑ لگا ہے تو ڈاکٹروں نے ہڑتال کر دی ، دوسری طرف ایک غریب نوجوان کو ڈاکٹروں نے قتل کر دیا ، اس پر ڈاکٹروں نے نہ صرف یہ کہ احتجاج یا ہڑتال نہیں کی بلکہ ناجائز طور پر ڈاکٹروں کی حمایت کی ۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسیحائی اس کا نام ہے ؟ بقول قاتل ڈاکٹر ملزم پر 10 ہزار چوری کا شک تھا تو کیا پولیس کہاں تھی ؟ ان کو حوالہ پولیس نہیں کیا جا سکتا تھا؟ کیا عدالتوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا کہ وہ خود ہی سزا دینے پر اُتر آئے اور سزا بھی موت کی سزا ۔ کیا وزیراعلیٰ غریب کے اس قتل پر نوٹس لیں گے ؟ کیا آئی جی اس واقعے کو دیکھیں گے ؟ کیا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس واقعے کا از خود نوٹس لیں گے ؟ کیا تحریک انصاف کی حکومت جو انصاف کے نام پر بر سر اقتدار آئی ہے اور اس نے وسیب کے لوگوں کو سو دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ بھی کر رکھا ہے ، تو کیا ہم توقع رکھیں کہ وہ مقتول کو انصاف اور سرائیکی وسیب کے لوگوں کو صوبہ دے گی ؟