2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

جیسے کو تیسا

ارشاد احمد عارف
23-09-2018

عمران خان نے ایک جملے میں بھارت کی اصلیت اور مودی کی ذہنیت کھول کر رکھ دی۔عمران خان نے نریندر مودی کو مذاکرات کی دعوت دی‘ اچھا کیا‘ پاکستان کے مفاہمانہ طرز عمل اور امن پسندانہ رویے کی عکاسی ہوئی۔ اگر خان اس خوش فہمی کا شکار تھا کہ بھارت مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اس کی بات سنے گا تو ایک ہی دن میں یہ خواب چکنا چور گیا۔ برہمن مزاج اور عیارانہ سیاست کو اقبالؒ سمجھے یا قائد اعظمؒ۔ اقبال نے تو سیاست سے بھی آگے سماجی و کاروباری رویوّں اور مذہبی انداز فکر تک برہمن کے مزاج کی نشاندہی کی‘ کہا ؎ دیکھ مسجد میں شکستِ رشتۂِ تسبیحِ شیخ بتکدے میں برہمن کی پُختہ زناّری بھی دیکھ جواہر لال نہرو علامہ اقبالؒ کے ارادت مند تھے اور لاہور آمد پر اقبال منزل حاضر ہوتے۔ حضرت علامہ نے قائد اعظم کو اسلامیان برصغیر کی آخری اُمید قرار دیا تو جواہر لال نہرو نے علامہ کو باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ اپنی بے مثال سیاسی بصیرت‘ ملّی خدمات اور تمام طبقات میں یکساں احترام کی بنا پر مسلم لیگ اور مسلمانوں کی قیادت سنبھالیں اور قائد اعظم کی طرف نہ دیکھیں۔ اقبال ؒ نے ایک لمحہ تاخیر کے بغیر جواب دیا ’’قائد اعظم ہی مسلمانوں کی قیادت کے حقدار ہیں‘ میں ان کا ادنیٰ سپاہی ہوں وہ جہاں اور جس حیثیت میں چاہیں میری صلاحیتوں اور خدمات سے فائدہ اٹھائیں‘‘۔ شاطر نہرو اپنا منہ دیکھتا رہ گیا۔ قائد اعظم گاندھی کی مکارانہ پیشکشوں اور چکنی چپڑی باتوں سے کبھی متاثر نہ ہوئے۔ ابوالکلام آزاد‘ مولانا حسین احمد مدنی اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی چرب دماغی‘ علمی و دینی فضیلت اور خطابت گاندھی کے سامنے مات کھا گئی مولانا ظفر علی خان کا خیال تھا ؎ بھارت میں بلائیں دو ہی تو ہیں اک ساورکر‘ اک گاندھی ہے ایک جھوٹ کا چلتا جھکڑ ہے‘ اک مکر کی اٹھتی آندھی ہے مگر قائد اعظم کی خدا داد بصیرت کے روبرو جھوٹ کا جھکڑ چلا نہ مکر کی آندھی اُٹھی اور پاکستان بن گیا۔ گماں یہی ہے کہ اقبال و قائد اعظم کی مالا جپنے والے عمران خان نے بھی خط نریندر مودی کا اصل چہرہ بے نقاب کرنے کے لیے لکھا اور مذاکرات کی دعوت دنیا کو بھارت کی امن پسندی اور سیکولرازم کے ڈھونگ سے آگاہ کرنے کے لیے دی‘ بھارت کی کہہ مکرنی کے بعد عمران خان نے جو ٹویٹ کی وہ ایسے کو تیسا کی عمدہ مثال ہے واقعی چھوٹا آدمی جس اعلیٰ ترین منصب پر پہنچ جائے وہ چھوٹی سوچ سے چھٹکارا نہیں پا سکتا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے منصب انسان کی اصلیت کو واشگاف کرتا ہے اور بس۔ فیلڈ مارشل ایوب خان اقتدار میں آنے کے بعد اس خوش فہمی کا شکار ہوئے کہ جواہر لال نہرو سے اگر بامقصد مذاکرات ہوں تو مسئلہ کشمیر سمیت جملہ تصفیہ طلب تنازعات حل ہو سکتے ہیں۔ ایوب خان ڈھاکہ جاتے ہوئے پالم پور ایئر پورٹ پر اترے تو جواہر لال نہرو استقبال کے لیے موجود تھے۔ قدرت اللہ شہاب راوی ہیں کہ ایوب خان پر جوش تھے اور انہوں نے مذاکرات کے لیے بھر پور تیاری کر رکھی تھی۔ ایئر پورٹ پر صحافیوں نے ایوب خان کو گھیرا اور سوال و جواب شروع ہوئے تو جواہر لال نہرو کی ناگواری دیدنی تھی پہلے تو وہ کچھ دیر تک ایک طرف کھڑے یہ تماشہ دیکھتے رہے مگر پھر ان کا پیمانہ صبر جواب دے گیا ‘ انہوں نے پروٹوکول کے عملے کے ذریعے اخبار نویسوں کو پیچھے ہٹا دیا اور ایوب خان کو لے کر روانہ ہو گئے۔ مذاکرات کی میز پر جب ایوب خان کو ہر سوال کا جواب ناں اور تجویز کا جواب روائتی ہوں ‘ہاں میں ملا تو وہ سٹپٹا کر رہ گئے۔ واپسی پر فوجی سربراہ نے تبصرہ کیا کہ میں تو جواہر لال نہرو کو بڑا اور روشن دماغ رہنما سمجھا تھا یہ تو چھوٹے دماغ کا تنگ نظر سیاستدان ہے جسے خطے کے عوام سے کوئی دلچسپی ہے ‘نہ مسائل کا ادراک اور نہ ان کے حل میں دلچسپی۔ یہی تجربہ پرویز مشرف کو آگرہ میں ہوا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو راجیو گاندھی کے ساتھ پے درپے ملاقاتوں کے بعدہوا۔ تنگ آ کر محترمہ نے پارلیمنٹ کے فلور پر کہا کہ میں نے مشرقی پنجاب میں راجیو کی مدد کی مگر بھارت نے اس کا جواب کراچی میں تخریب کاری اور دہشت گردی کی صورت میں دیا۔ میاں نواز شریف پاکستان کے واحد رہنما اور وزیر اعظم ہیں جنہیں ہمیشہ واجپائی اور نریندر مودی کی چکنی چپڑی باتیں درست اور اپنی فوجی قیادت کی پالیسی غلط نظر آئی۔ نریندر مودی کابل میں پاکستان کو دہشت گردوں کا منبع اور آماجگاہ قرار دینے کے بعد جاتی امرا پہنچا تو اس کا سواگت دیرینہ خیر خواہ اور خاندان کے دوست کے طور پر کیا گیا‘ تحائف کا تبادلہ ہوا اور گھریلو خواتین سے ملوایا گیا۔ نئی دہلی پہنچ کر نریندر مودی نے پاکستان کے خلاف وہی راگ الاپا جو اس کا شیوہ ہے۔ چند روز بعد مودی نے اپنی قوم کو باور کرایا کہ میں نے جاتی امرا جا کر بہترین سفارتی مہارت دکھائی اور پاکستان میں سول ملٹری تعلقات میں دراڑ ڈال دی مگر میاں صاحب اور ان کے وفاداروں‘ تابعداروں کا اب بھی اصرار ہے کہ اگر پٹھانکوٹ کا واقعہ نہ ہوتا تو نریندر مودی نے پاکستان کے سارے گناہ معاف کر کے وہ بھائی چارہ قائم کرنا تھا جس کی مثال ملنی مشکل۔ ممکن ہے واہگہ کی پتلی سی لکیر باقی نہ رہتی اور پاک‘ بھارت کے عوام مل بیٹھ کر مزے سے آلو گوشت کھا رہے ہوتے گوشت ؟مگر کس کا؟ عمران خان نے بھارتی کہہ مکرنی پر جو ٹویٹ کی وہ ایک ایسے سیاستدان اور حکمران کے شایان شان ہے جو بھارتی حکمرانوں کے ارادوں سے واقف اور انداز فکر سے آگاہ ہے بھارت کو یہ آئینہ دکھانا ضروری تھا کہ اگر آپ تکبر اور ڈھٹائی میں طاق ہیں تو کمزوری اور خوشامد ہمارا شیوہ بھی نہیں۔ عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں بھارت کو دعوت دی کہ وہ ایک قدم آگے بڑھے ‘ہم دو قدم آگے بڑھیں گے۔ نریندر مودی اور ان کے انتہا پسند ساتھیوں نے اس فراخدلانہ پیشکش کو شائد ہماری کمزوری سمجھا یا سابقہ پاکستانی حکمرانوں کی طرح عمران خان کو ایسا عزت نفس سے محروم سیاستدان جو گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہیں ہوتے۔ امریکی ایئر پورٹ پر کپڑے اُتر جائیں تو اسے رسمی کارروائی سمجھتے اور واجپائی و نریندر مودی سے ملاقات پر پھولے نہیں سماتے۔ بھارت کے بارے میں ہمارے بعض سیاسی مہاشوں اور صحافتی افسانہ تراشوں کا خیال ہے کہ وہاں اقتدار و اختیار کی باگ ڈور منتخب حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے اور وہ فوجی قیادت و اسٹیبلشمنٹ کو خاطر میں لائے بغیر جو چاہیں کر گزریں انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں مگر وزراء خارجہ کی طے شدہ ملاقات سے پیچھے ہٹ کر مودی حکومت نے ان خوش فہموں کے سارے تجزیے اور اندازے غلط ثابت کر دیے۔ ثابت یہ ہوا کہ عمران خان تو ایک خود مختار حکمران کی طرح فیصلے کرنے میں آزاد ہے مگر نریندر مودی صرف اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں‘ پاکستان دشمن میڈیا کے ہاتھوں میں یرغمال بن چکا ہے اور اسے یہ بھی اجازت نہیں کہ وہ اپنی وزیر خارجہ سشما سوراج کو شاہ محمود قریشی سے ایک بے ضرر ملاقات کی اجازت دے سکے۔ ہمارے یہی سیاسی اور صحافتی پنڈت عمران خان کی ٹویٹ پر پریشان اور برہم ہیں انہیں بھارتی حکومت کی سفارتی بدتمیزی سے زیادہ عمران خان کے الفاظ اور کشمیری عوام کی جدوجہد کی تکلیف ہے ۔ بھارت کی محبت و عقیدت میں یہ اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ انہیں کشمیر میں بھارتی مظالم سے کوئی سرکار ہے نہ پاکستان میں سارک کانفرنس رکوانے کی بھارتی متکبرانہ تگ و دو اور نہ جنرل اسمبلی میں پاکستان کے خلاف مودی اور سشما سوراج کی بے ہودہ تقریریں۔ خدا کا شکر ہے وزیر اعظم عمران خان بھارتی جال میں نہیں پھنسے اور انہوں نے بھارت کے حکمرانوں کو اپنی اوقات یاد دلائی۔ چھوٹی ذہنیت کے بڑے ملک کو آئینہ دکھایا۔ بھارت جو زبان سمجھتا ہے ہمارے حکمران وہی بولیں گے تو وہ مذاکرات کی میز پر آئے گا۔ ؎ نہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائیگا عصا اٹھائو کہ فرعون اسی سے جائیگا بجھے چراغ‘لٹی عصمتیں‘ چمن اجڑا یہ رنج جس نے دیے کب خوشی سے جائیگا بھارتی آرمی چیف کے دھمکی آمیز بیان کے بعد بلی تھیلے سے باہر آ گئی ہے اب ہمیں مزید معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔ اینٹ کا جواب پتھر ہی درست پالیسی ہے۔