جے شنکر نے بھارت پر فرد جرم عائد کر دی؟
آصف محمود
تو کیا بھارتی وزیر خارجہ نے بھارت پر ہی فرد جرم عائد کر دی ہے؟ جے شنکر نے شنگھائی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: دہشت گردی ، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کے ساتھ تجارت نہیں ہو سکتی۔ ان کی تقریر کا متن پڑھا تو خیال آیا کیا جے شنکر بھارت کے خلاف فرد جرم عائد کر رہے ہیں؟ واردات وہی تھی جو بھارت اس سے پہلے سارک کانفرنس کو سبوتاژ کرنے کے لیے کرتا آیا ہے لیکن اب کی بار کینیڈا سے آتی خبریں اعلان عام کر رہی ہیں کہ جے شنکر جو چاند ماری کر رہے تھے ، اس کے نشانے پر ان کا اپنا ہی ملک بھارت تھا۔زہے نصیب۔ شنگھائی کانفرنس میں بھارت کے اس پیغام کے دوحصے ہیں۔ دونوںکے نشانے پر بھارت خود ہے۔ پہلا پیغام یہ تھا کہ دہشت گردی کے ساتھ تجارت نہیں ہو سکتی۔ سوال یہ ہے کہ اس خطے میں ایسا دہشت گرد کون ہے جس سے نہ صرف اس علاقے کے امن کو خطرہ ہے بلکہ اب دنیا کی سلامتی کے لیے بھی وہ چیلنج بنتا جا رہا ہے؟ آپ کلبھوشن نیٹ ورک کو ایک طرف رکھ دیجیے ، آپ پاکستان کے موقف کو بھی فی الحال ایک جانب رکھ چھوڑیے ، آپ بلوچستان میں بھارتی پراکسی اور وہاں دہشت گردی کی سرپرستی کے ڈھیروں شواہد کو بھی ایک طرف رکھ دیجیے ، فی الوقت صرف یہی دیکھ لیجیے کہ کینیڈا کیا کہہ رہا ہے؟ کینیڈا تو بھارت کا پڑوسی بھی نہیں ہے ۔ دور دیس کے اس ملک کو بھی اگر بھارتی دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانا پڑ گئی ہے تو اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس خطے میں دہشت گرد قوت کون ہے۔کون ہے جس کے جرائم سے پڑوسی ہی نہیں دور کے ملک بھی خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ زیادہ دور جانے کی بھی ضرورت نہیں، ابھی دو دن پہلے ، یعنی 14 اکتوبر کی کینیڈا حکومت کی جاری کردہ نیوز ریلیز میرے سامنے رکھی ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ کینیڈا حکومت نے بھارت کے 6 سفارت کاروں کو ملک سے نکل جانے کا حکم دیا ہے۔ یعنی عین اس وقت جب کینیڈا بھارتی سفارت کاروں کو بھارتی دہشت گردی کی وجہ سے ملک چھووڑنے کا حکم دے رہا تھا، اس کے چند گھنٹے بعد جے شنکر صاحب کہہ رہے تھے کہ دہشت گردی کے ساتھ تجارت نہیں ہو سکتی۔ سوال یہ ہے کیا وہ شنگھائی کانفرنس کے شرکا کو یہ بتا رہے تھے کہ بھارت اپنی دہشت گردی کی وجہ سے اس قابل نہیں کہ شنگھائی تعاون تنظیم اسے تجارت کے قابل سمجھے؟ یا وہ اپنے میزبان پاکستان کو یہ سمجھا رہے تھے کہ اس نے ایک دہشت گرد ملک کے وزیر خارجہ کو کیوں بلایا جب کہ اب تو کینیڈا جیسے ممالک بھی بھارتی سفارت کاروں کو ملک سے نکال رہے ہیں؟ کینیڈا حکومت کی اس نیوز ریلیز میں بھارتی سفارت کاروں کو ملک سے نکالنے کی وجہ بھی بیان کر دی گئی ہے۔اس کے مطابق برٹش کولمبیا میں ہر دیپ سنگھ نامی ایک سکھ رہنما کو قتل کیا گیا تھا جو کینیڈا کا شہری تھا۔ کینیڈا کی حکومت نے کچھ لوگوں کو گرفتار کیا ۔ تحقیقات پر پتا چلا کہ اس دہشت گردی میں بھارتی حکومت ملوث ہے۔نیوز ریلیز میں لکھا ہے کہ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہم بھارت کا سامنا کریں اور اپنے عوام کو بتائیں کہ یہ کتنا بڑا خطرہ ہے۔کینیڈا حکومت کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ بہت سنگین ہے اور اس میں بھارت ملوث ہے۔ بھارت نے منظم انداز سے دہشت گردی کرائی اور اس کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ کینیڈا ایک خاص کمیونٹی کے لیے غیر محفوظ ملک ہے۔ کینیڈا نے اس پر بھارت حکومت سے بھی بات کی لیکن اب مجبور ہوکر کینیڈا کو یہ اقدام اٹھانا پڑ رہا ہے۔ کینیڈا کا موقف ہے کہ اس کے پاس ناقابل تردید شواہد موجود ہیں کہ اس قتل میں ، اس دہشت گردی میں بھارت کے سفارت کاروں نے اہم کردار ادا کیا اور دہشت گردی کی سہولت کاری کی اور اس واردات کو ممکن بنایا ۔ ہم نے بھارتی حکومت کے سامنے شواہد رکھے لیکن اس نے کچھ نہیں کیا۔ اب ہم بھارت کے سفارت کاروں کو نکال رہے ہیں اور یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ہم کسی بھی صورت میں ایسی دہشت گردی اور جرائم کی اجازت نہیں دیں گے۔یاد رہے کہ معاملہ صرف کینیڈا تک محدود نہیں بلکہ امریکی حکام بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ بھارت نے ایسی ہی دہشت گردی امریکی سر زمین پر بھی کرنے کی کوشش کی جوبروقت اطلاع پر ناکام بنا دی گئی۔ بھارت ایسی ہی دہشت گردی پاکستان میں بھی کرتا رہا ہے اور یہ فہرست خاصی طویل ہے۔ اب بھارتی وزیر خارجہ نے گویا ان سب اطلاعات کے بعد میزبان پاکستان اور چین اور روس جیسے مہمانوں کے سامنے اپنے ملک بھارت پر یہ فرد جرم عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی سے تجارت نہیں ہو سکتی۔ دوسرا نکتہ بھارتی وزیر خارجہ نے یہ بیان کیا کہ انتہا پسندی کے ساتھ بھی تجارت نہیں ہو سکتی۔ یہ گویا بھارت پر عائد فرد جرم کا دوسرا پوائنٹ تھا۔ سوال وہی ہے کہ اس خطے کا سب سے بڑا انتہا پسند کون ہے؟ جواب ہے : بھارت۔ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اب مزید کسی تعارف کا محتاج نہیں۔بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ تو جو ہو رہا ہے سو ہو رہا ہے ، وہاں سکھوں کی زندگی بھی اجیرن کی جا چکی ہے۔ حیران کن پہلو یہ ہے کہ جس علاقے میں بھارت کو مسئلہ ہو وہاں منشیات کی لعنت عام کر دی جاتی ہے۔ پہلے یہ سکھوں کے علاقے پنجاب میں پھیلائی گئی اور اب منشیات کا تازہ مرکز کشمیر ہے جہاں بھارت انٹر نیشنل لا کو پامال کر کے غیر قانونی طور پر قابض ہے۔ بھارتی قیادت اس شخص کے پاس ہے جو بد ترین قسم کی انتہا پسندی کا اعلانیہ علم بردار ہے۔یہ انتہا پسندی نہ صرف بھارت اور اس کے مقبوضہ جات میں اقلیتوں کی زندگی کو جہنم بنائے ہوئے ہے بلکہ یہ اس خطے کے بہتر مستقبل کے امکانات پر بھی ایک آسیب کی طرح سوار ہے۔ اسی انتہا پسندی نے پہلے سارک نام کی تنظیم کو عضو معطل بنایا اور اب یہی انتہا پسندی شنگھائی تعاون تنظیم کے درپے ہے۔ ایسے میں بھارتی وزیر خارجہ کی’’ میانہ روی‘‘ ہے کہ انہوں نے اپنی ہی ریاست پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے شنگھائی تعاون تنظیم کے دیگر ممالک کو ایک روڈ میپ دے دیا ہے کہ اگر وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو جان لیں کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی ( یعنی سنگھ پریوار کی بھارتی قیادت) کے ساتھ تجارت نہیں ہو سکتی۔ شنگھائی تنظیم نے کچھ بہتر کرنا ہے تو بھارت کی پیدا کردہ رکاوٹوںسے بے نیاز ہو کر اور ان رکاوٹوں کو نظر انداز کر کے کرنا ہو گا۔ دوسری صورت میں بھارت کی سوچ اس کانفرس کا بھی وہی حشر کر سکتی ہے جو اس نے سارک کا کیا۔