حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا اندا ز تبلیغ
اﷲ تعالیٰ نے بنی نو ع انسان کی ہدایت کے لیے کم و بیش ایک لا کھ چوبیس ہزا ر انبیاء و رسل عظام کو مبعو ث فرمایا ۔ تمام انبیاء کرام و رسل عظام کی بعثت کا اولین مقصد دعوت الی اﷲ اور توحید خدا وندی کی تبلیغ تھا ۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ہے :’’یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسو ل بھیجا (تاکہ وہ لو گوں کو بتا ئے کہ اے لو گو) اﷲ کی عبادت کر و اور شیطان سے بچو۔ ‘‘(النحل۔ ۳۶) دعوت و تبلیغ کا وہ فریضہ جو انبیاء کرام و رسل عظام نے سر انجام دیا اس سلسلہ کی آ خری کڑی حضو ر اکرم صلی ا ﷲ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے ۔ایک مبلغ و دا عی کی با ت اس وقت تک لو گو ں کے دل میں نہیں اتر تی جب تک وہ اپنے کر دا ر کو رو ل ما ڈل نہ بنا ئے ، اگر داعی و مبلغ کا کر دا ر عظیم نہ ہو تو تبلیغ فقط لفظوں کا ہیر پھیر ہے َ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تبلیغ کے نقطہ آغاز پر ہی اپنی ذات و کر دا ر کو بطو ر دلیل و حجت پیش کیا ۔ ارشا د با ری تعالیٰ ہے ۔ ’’فرما ئیے اگر اﷲ تعالیٰ چا ہتا تو تمہیں اسے پڑھ کر سنا تا اور نہ ہی اﷲ تعالیٰ تمہیں اس سے آگاہ کر تا ۔ میں اس سے پہلے تمہا رے درمیان ایک عمر بسر کر چکا ہو ں پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ‘‘ (یو نس ۔ ۱۶) یہ آپ کے کردا ر کی عظمت تھی کہ کفا ر و مشرکین سخت جانی دشمن ہو نے کے با وجو د صا د ق و امین کہہ کر پکا ر تے تھے ۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی دعو ت و تبلیغ میں اخلا ص و ﷲیت کا پہلو بھی نما یا ں تھا ۔ کفا ر و مشر کین مکہ کی جانب سے ظلم و ستم کے تمام ہتھکنڈے ناکا ر ہ ہو ئے تو حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو ما ل و دولت اور سر دا ری کی پیش کش کی گئی ۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ایسی تمام پیش کش کو ٹھکر ا تے ہوئے فریضہ دعوت و تبلیغ جاری رکھے ہو ئے تھے ۔اس حوالہ سے یہ روایت ملا حظ کیجئے ۔ ایک مرتبہ عتبہ ،شیبہ ، ابو سفیان اور دیگر بہت سے سردا ر کعبہ معظمہ کے پاس جمع ہوئے اور مشورہ کیا کہ محمد ( صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ) سے دو ٹوک بات کی جائے چنا نچہ حضو ر صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو پیغا م دے کر بلایا گیا اور کہنے لگے ۔ ’’ آپ کی اس تمام جد و جہد کا مقصد اگر دولت جمع کر نا ہے تو ہم آپ کے لیے اتنا مال اکٹھا کر دیتے ہیں کہ آپ ہم سب سے زیادہ مالدار ہو جائیں گے اگر آپ عز ت و سعا دت چا ہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنا سر دا ر بنا لیتے ہیں اگر آپ تاج و تخت کے خواہشمند ہیں تو ہم آپ کے سر پر تاج شا ہی سجا لیتے ہیں‘‘ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے بڑے تحمل و بر دبا ری سے ارشاد فرمایا ۔ ’’ جو تم مجھے کہتے ہو مجھے اس سے کوئی غرض نہیں میں نہ تم سے مال و دولت کا خواہا ں ہوں نہ عز ت و سیا دت کا نہ با دشا ہی کا ۔ بلکہ مجھے اﷲ تعالیٰ نے تمہاری طر ف سے رسول بنا کر بھیجا ہے اور مجھ پر کتاب نا زل فرمائی ہے ‘‘ بعض اوقا ت جب دا عی و مبلغ کے راستے میں کوئی رکا وٹ کا ر گر ثابت نہیں ہو تی اور وہ میدان تبلیغ میں کا میابیاں سمیٹ رہا ہو تا ہے پھر طعن و تشنیع کا طریقہ اختیا ر کیا جا تا ہے تاکہ مبلغ اس طعن و تشنیع سے بچنے کے لیے تبلیغ کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیا ر کر ے تاکہ طعن وتشنیع سے بچ سکے ۔ اظہا ر نبوت کے بعد کفار و مشر کین کے مزا ج اور رویہ میں جو شدت پیدا ہوئی تاریخ اس پر گواہ ہے ۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کفار و مشرکین مکہ کے اس طعن و تشنیع کو خا طر میں نہ لا تے ہوئے تبلیغ دین کا فریضہ سر انجام دیتے رہے ۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا یہ اندا ز تبلیغ ہر داعی و مبلغ کے لیے ایک پیغا م ہے کہ اسے چاہیے کہ طعن و تشنیع کا جواب دینے میں اپنا وقت ضا ئع کر نے کی بجائے صبر و استقامت کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہے ۔ اگر مد عی اور مبلغ کے مزاج میں شفقت کا پہلو نہ ہو تو مبلغ کے تمام دلائل و براہین وقتی طو ر پر تو مو ثر ہوتے ہیں لیکن دیر پا نہیں ۔ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی میں اخلا ق حسنہ کا پہلو اس قدر نمایا ں تھا کہ زبان رسالت مآب سے نکلے ہوئے لفظ دلوں میں اتر تے ہوئے محسوس ہوتے ۔ اہل یمامہ کے سردا ر ثمامہ بن اثال جب بار با ر قبول اسلام سے انکا ر کر تے رہے پھر نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی رہا ئی کا حکم فرمایا تو وہ دوبا رہ حاضر ہو ئے اور اسلام قبول کر لیا ۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے بحیثیت مبلغ و دا عی سامع کے ضمیر کو بیدا ر کیا اور ایسی حکمت عملی اختیار فرمائی مخاطب و سامع کے دل نے اس سے کہا کہ حقانیت اسلام کو تسلیم کر کے دامن اسلام سے وابستہ ہو جائو ۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کبھی کسی کی غلطی پر بر انگیختہ ہو نے کی بجائے محبت و شفقت سے پیش آتے ہوئے اس کی اصلا ح فرما تے ۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تبلیغ میں مقصد یت کو مقدم رکھا ۔ کو ئی بھی مبلغ و دا عی جب اپنی شخضیت کے خو ل میں اپنے آ پ کو بند کر دیتا ہے اور تبلیغ کا مقصد صر ف اپنی ذات کی تشہیر ہو تمام تبلیغی مساعی رائیگا ں جاتی ہے ۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ دعوت کو تر جیح دی ۔ ۱۳ سالہ مکی دو ر میں ظلم و و اذیت کا ہر طریقہ روا رکھا گیا فتح مکہ کے مو قع پر جب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ان سے انتقام لینے پر قادر بھی تھے لیکن آپ نے اپنے مقصد کو فوقیت دی اور ان لو گو ں سے فرمایا جائو میں تم سب کو معا ف کرتا ہو ں ۔حضو ر نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ذات والا صفات میں وہ تمام اوصا ف و کمالا ت جمع تھے جو ایک مبلغ و دا عی کے لیے مشعل راہ ہیں ۔