خوشی کی عمر
احمد اعجاز
یہ پہلا روزہ تھا،جب اُس نے گائوں جانے کی منصوبہ بندی پر کام شروع کیا۔ ہر بار کی طرح ،اس بار بھی ، عید پر گائوں جانا چاہتا تھا۔ عید پر گائوں جانے کی بے پایاں خوشی ہوتی،اُن سے بھی ملاقات ہو جاتی،جن سے سال بھر نہ ہوپاتی۔ یہ انتیسواں روزہ تھا،جب گائوں کیلئے نکلا۔شام کو گھر پہنچاتو معلوم پڑا کہ کل عید نہیں ہے۔ یوں اس کو ایک دِن مزید وہاں رہنے کے لیے میسرآگیا۔ عید کے دِن ملاقاتوں اور دعوتوں میں گزرے۔ چھٹیاں ختم ہوئیں تو واپسی کی راہ لی۔ ایک طرح کی سرشاری کا احساس بھی ہمراہ آیا۔ اگلے دِن معمول کے مطابق اُٹھا، نہایا دھویا، کپڑے تبدیل کیے اور دفتر کو ہولیا۔ وہاں دِن بھر ’’گزشتہ عید مبارک‘‘کی صداگونجتی رہی۔ شام کو گھر کی طرف جاتے ہوئے، اُس نے گائوں میں گزرے چار دِن کی یادوں سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کی۔ مگرکچھ یاد نہیں پڑرہا تھا۔