خیبر پختونخوا میں حکومتی امن جرگہ
خیبر پختونخوا میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر جرگہ منعقد کیا جس میں صوبے میں امن کے لئے کالعدم تنظیم سے مذاکرات کا اختیار وزیر اعلیٰ کے پی کے کو دیا گیاہے۔ پشتون معاشرے میں جرگے کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور جرگوں میں بڑے بڑے مسائل حل کیے جا چکے ہیں۔ پاکستان کو گزشتہ دو برسوں سے شدید دہشت گرد حملوں کا سامنا ہے رواں برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران کے پی کے‘ کے 14اضلاع میں دہشت گردوں کی مالی معاونت اور سہولت کاری اور اغوا برائے تاوان کے 477واقعات ریکارڈ کئے گئے۔ صوبے میں دہشت گردی کے 237واقعات میں 65پولیس اہلکار شہید جبکہ 86زخمی ہوئے۔سال 2023 کو صوبے میں دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے بد ترین سال قرار دیا گیا۔ محکمہ انسداد دہشت گردی خیبر پختونخوا کے اعداد وشمار کے مطابق سال گزشتہ سال کے دوران دہشت گردی کے 806 واقعات میں 1404 افراد جان سے گئے تھے۔ خیبر پختونخوا میں ضم کیے گئے سات سابقہ قبائلی اضلاع میں 342 اور دیگر اضلاع میں دہشت گردی کے 464 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔پولیس پر 243 اور عوامی اجتماعات اوردیگر سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں پر 563 حملے کیے گئے، جن میں پولیس کے 74 اہلکار شہید اور 401 زخمی جبکہ 51 فوجی اہلکاروں اور144 عام شہریوں کو بھی اپنی جانوںکا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔ سال 2023 میں دہشتگردی کے 132 واقعات کے ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان سرفہرست رہا۔فغانستان کا جنوبی حصہ جس کی سرحد پاکستان کے سابقہ فاٹا سے ملتی ہے، دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ جنت کا کام دے رہا ہے، جہاں وہ کسی روک ٹوک کے بغیر پوری آزادی کے ساتھ اپنے تربیتی مراکز چلا رہے ہیں، افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد ان تنظیموں کے لیے حالات سازگار ہوگئے ہیں۔ اسی لیے تحریک طالبان سے الگ ہونے والے گروپ اور کئی اس کی سسٹر آرگنائزیشنز متحد ہوچکی ہیں۔ اس طرح افغانستان میں موجود شدت پسند تنظیمیں مضبوط اور ان کے نیٹ ورکس کی جڑیں کافی گہری ہو گئی ہیں جب کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا افغانستان میں چھوڑا گیا اسلحہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ہاتھ لگ چکا ہے جو پاکستانی میں کی جانے والی کارروائیوں میں اس اسلحہ کا استعمال ہو رہا ہے۔ اس سے مفر نہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے تانے بانے افغانستان سے جا ملتے ہیں اور افغان طالبان کی دہشت گردوں کی معاونت کے شواہد پاکستان عالمی برادری کے سامنے رکھ بھی چکا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سرحد پار سے آنے والے دہشت گرد بھی اپنے مذموم عزائم میں اس لئے ہی کامیاب ہوتے ہیں کیونکہ ان کو پاکستان بالخصوص کے پی کے اور بلوچستان کے مقامی لوگوں کی ہمدردیاں اور معاونت حاصل ہوتی ہے ۔اسی طرح دفاعی ماہرین اس بات پر بھی متفق ہیں کہ کوئی بھی جنگ مقامی آبادی کے تعاون کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تو مقامی آبادی کا سکیورٹی فورسز سے تعاون اور بھی اہم ہو جاتا ہے کیونکہ دہشت گردوں کو باہمی اتحاد اور یکجہتی سے ہی شکست دی جا سکتی ہے اس لئے ضروری ہے مقامی آبادی کے عمائدین کو اعتماد میں لیا جائے اور باہمی اختلافات کو ختم کیا جائے مگر بدقسمتی سے ملکی سیاسی حالات میں باہمی نفرت اور مخاصمت اس حد تک در آئی ہے کہ آج دہشت گردی کی شدید لہر کے باوجود شدت پسند جماعتیں اور تنظیمیں تو دور کی بات ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتیں پارلیمنٹ میں بھی مل بیٹھنے کو تیار نہیں یہاں تک کہ گزشتہ دنوں کے پی کے اور وفاقی حکومت آمنے سامنے کھڑی محسوس ہوئی تھیں ان حالات میں امن کی خاطر کے پی کے کی تمام سیاسی قیادت کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا مل بیٹھنا نیک شگون سے کم نہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اختلاف رائے جمہوری سیاست کا حسن ہے مگر یہ اختلاف ذاتی مفادات کے بجائے نظریاتی اور ملک کی خاطر ہونا چاہیے اور اختلاف کو طاقت کے بجائے بامعنی مذاکرات سے حل کرنا چاہیے ہر کوئی شخص تنظیم یا جماعت جو وفاق پاکستان اور آئین پاکستان کو تسلیم کرتی ہے اس سے معاملات طاقت کے بجائے مذاکرات کی میز پر حل کرنے کی سعی کرنا ہی دانشمندی اور جمہوری عمل کا تقاضا ہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو جرگے میں صوبے میں امن کی خاطر کالعدم تنظیم سے مذاکرات کا اختیار وزیر اعلیٰ کے پی کے کو دینا اور وفاقی وزیر داخلہ کا امن کے قیام میں ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کا عزم خوش آئند اور سیاسی اختلاف کے حل کی نوید ہو سکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی قیادت باہمی اختلاف ختم کر کے ملک کے لئے مل کر بیٹھے ایسا اسی صورت ممکن ہو گا جب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ کے پی کے اور بلوچستان کی تمام سیاسی قیادت مل کر بیٹھے گی اور ملک دشمنوں کو واضح پیغام جائے گا کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ پاکستان اور عوام کے مفاد کے لئے تمام پاکستانی ایک پیج پر ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی صورت کھڑے ہیں۔ بہتر ہو گا وفاق حکومت پاکستان میں امن اور ترقی کے لئے تمام سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کا عمل شروع کرے خاص طور پر قومی دھارے سے باہر جماعتیں اور تنظیمیں جو آئین پاکستان اور وفاق پاکستان کو تسلیم کرتی ہیں ان کے جائز خدشات دور کئے جائیں تاکہ ملک میں امن قائم ہو اور جمہوریت اور جمہوری طرز عمل فروغ پا سکے۔