2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

خطے کو جوڑنے کا خواب

محمد عامر رانا
02-07-2018

پاکستان آج بھی ایسے ویژن کا متلاشی ہے جو اس کی معاشی ‘سماجی اور ثقافتی آرزوئوں کی شاندار عکاسی کر سکے۔ آج بھی ہمیں مضبوط قومی کردار کی ضرورت ہے جیسی قیام پاکستان کے وقت تھی۔ باوجود اس کے کہ ہمارے مقتدر حلقے مختلف اوقات میں مختلف نظریات سے متاثر بھی ہوئے مگر بدقسمتی سے ان خیالات کو عملی جامہ پہنانے کا حوصلہ نہ جتا سکے۔ مغربی سکالرز پاکستان کے اہل اقتدار کے رویہ میں نظریاتی شدت کی بجائے مستقبل بینی کی جانب پیش رفت محسوس کرتے ہیں ۔مگر اس کے باوجود بھی اس رویہ کو اپنے وجود میں مختلف تضادات کا سامنا ہے اور شدت پسند طبقہ بہرحال موجود ہے ۔ریاست ان مسائل کے حل میں جتی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ چین نے ون بیلٹ ون روڈ تصور پیش کیا جس میں پاکستان کے معاشی اور سکیورٹی مسائل کے حل کا وعدہ بھی شامل ہے مگر پاکستان کی اشرافیہ کی اس منصوبے میں بھی دلچسپی خطے میں رابطے بڑھانے کی بجائے معاشی فوائد سمیٹنے تک محدود ہے۔ بہت سے لوگ ون بیلٹ ون روڈ کے تصور کے ذریعے خطے کے جڑنے کو پاکستان کے بہت سے معاشی اور جغرافیائی مسائل کا حل سمجھتے ہیں ۔ان کی رائے ہے کہ ہمیں اپنی پالیسیوں کو اس انداز میں ترتیب دینا چاہیے جن کے ذریعے ہم خطہ کے باہمی رابطوں کو فروغ دے کر زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کر سکیں۔ یہاں تک کہ جب چین میں بی آر آئی( بیلٹ روڈ انیشیٹیو )کی نوک پلک درست کی جا رہی تھی تو اس وقت بھی چین اس روٹ کے ذریعے دنیا کی معیشت کو جوڑنے کا خواب دیکھ رہا تھا ۔اس وقت بھی پاکستان میں کچھ حلقے اس منصوبے میں پاکستان کا کردار محض راہداری تک ہی دیکھ رہے تھے۔ مثال کے طور پر سی پیک کی تکمیل کے بعد پاکستان ایک ٹرانزٹ روٹ بن جائے گا۔ ایک ٹرانزٹ اسٹیٹ کے اپنے فائدے اور نقصانات ہوتے ہیں مگر کیا یہ کسی ملک کے قومی رویوں ‘ سماجی نظریات اور دنیا بارے اس ملک کی سوچ کو بھی تبدیل کر سکتے ہیں؟ یہ ایسا سوال ہے جو گہری سوچ بچار کا متقاضی ہے۔ کچھ مغربی تجزیہ کاروں کے نزدیک بی آر آئی پاکستان کے لیے اپنی نظریاتی اساس پر نظرثانی کرنے کا ایک بہترین موقع ہو سکتا ہے۔ مگر جب اس منصوبہ کو پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو یہ طے کرنا مشکل محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان خود خطے سے جڑنے اور اپنے بطورٹرانزٹ ملک کی حیثیت کو کس طرح دیکھتا ہے۔ یہ ایسا سوال ہے جو پاکستان کی بنیادی دفاعی حکمت عملی خاص طور پر ہمسایہ ممالک بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات سے جڑا ہوا ہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی کے سابق مشیر جنرل (ر) ناصر جنجوعہ جنہوں نے گزشتہ دنوں اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا انہوں نے پاکستان کو خطے سے جوڑنے کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور پاکستان کے رابطوں کی بحالی کے تصور کو نکھارنے اور سنوارنے کے لیے دن رات محنت کی ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم نے ان کے ذمہ پاکستان کے لیے نئی اور پہلی نیشنل سکیورٹی پالیسی کے خدوخال طے کرنے کا کام لگایا تھا۔ گو کہ اس بارے میں بہت کم ہی علم ہے کہ وہ کس حد تک اور کہاں تک یہ کام کر سکے یا پھر نہیں۔ جنرل جنجوعہ کا میڈیا سے جتنا بھی مکالمہ ہوا یا پھر مختلف تقاریب اور تھنک ٹینکس میں انہوں نے کچھ کہا اس سے یہ اندازہ لگانامشکل نہیں کہ وہ پاکستان کو خطے کے ممالک سے جوڑنے ‘ ایک ٹرانزٹ سٹیٹ بنانے‘ خطے اور دنیا سے ہم آہنگ پاکستان کے متمنی تھے۔ ان کا جو میڈیا اور سول سوسائٹی سے گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں مکالمہ ہوا اس میں انہوں نے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اور جنوبی اور وسطی ایشیا کو بحر ہند سے جوڑنے کے فوائد کا ذکر کیا تھا۔ پاکستان کی داخلی سلامتی کی پالیسی کا ڈرافٹ 2018-23ء کے مسودہ میں بھی پاکستان کی داخلی سلامتی کو خطے سے جوڑنے والے بنیادی عوامل پر استوار کیا گیا ہے۔ پاکستان کی سٹرٹیجک پالیسی میں نئی تبدیلی کا انحصار اب اس بات پر ہو گا کہ نئی آنے والی حکومت پاکستان کی سلامتی اور پاکستان کی داخلی سلامتی کی پالیسی کو کس زاویہ سے دیکھتی ہے ۔ ملک کے تجزیہ نگار پرامید ہیںاور اس پالیسی کو ایکشن پلان فار پیس کے طور پر دیکھتے ہیں ‘وہ افغانستان بارے پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی کو بھی اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین کسی بھی بحرانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے دو طرفہ مینجمنٹ میکنزم بنانے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چین نے ماضی میں اس طرح کی کم ہی کوشش کی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنائو کم کرنے کے لیے سہ فریقی سفارتی بندوبست پر توجہ دے جس سے خطہ میںاستحکام کو یقینی بنایا جا سکے‘جو بی آر آئی اور سی پیک کی کامیابی کے لیے لازمی جزو ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چین پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے حوالے سے بھی اس قسم کی سہولت کاری کی پوزیشن میں ہو گا؟ عام حالات میں بھی چین کے لیے سفارتی سطح پر اس قسم کا کردار ممکن نہ ہو گا مگر کسی حد تک سی پیک یہ کام ضرور کر رہا ہے ۔پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت پہلے ہی بھارت کو سی پیک میں شامل ہونے کی پیش کش کر چکی ہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر بھی اس بات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ سی پیک سے بھر پور فائدہ بھارت کو راہداری مہیا کیے بغیر حاصل کرنا مشکل ہو گا۔ بھارت کو سی پیک کے حوالے سے مثبت ردعمل دینا چاہیے کہ نہیں ‘اس حوالے سے بھارت میں پہلے ہی بحث کا آغاز ہو چکا ہے۔ کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی تو پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ سی پیک سے خطہ معاشی سرگرمیوں کا مرکز بن جائے گا۔ پاکستان کی بھی یہی رائے ہے کہ سی پیک کے ذریعے بھارت سے رابطوں کی بحالی اور سنگین نوعیت کے پیچیدہ تنازعات کے حل کی راہ نکل سکتی ہے۔ پاکستان میں سکیورٹی سٹیٹ کا تصور پہلے ہی موجود ہے اور پاکستان کے سکیورٹی تصورات کو ٹرانزٹ سٹیٹ کے تصور میں تبدیل کرنے میں براہ راست تضادات ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کی حالیہ حکومت کے خطہ کے حوالے سے تصورات خطہ کو جوڑنے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اب تک تو بھارت نے اس حوالے سے سرد مہری کا ہی مظاہرہ کیا ہے۔ایسا ہی باہمی مذاکرات کے بارے میں ہے۔ باوجود اس کے کہ بھارت نے پاکستان کو عالمی تنہائی کا شکار کرنے کی بہت کوشش کی جس میں وہ بری طرح ناکام بھی رہا‘ یہاں تک کہ بھارت کو افغانستان سے اپنے تعلق کی بھی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ مگر اس کے باوجود بھی بھارت نے پاکستان کے بارے میں اپنی سوچ تبدیل نہیں کی۔ پاکستان کے سابق مشیرقومی سلامتی نے ایک دلچسپ انکشاف یہ بھی کیا کہ جب ان کے بھارتی ہم منصب اجیت دول سے طویل مذاکرات بنکاک میں ہوئے تو ان کے مطابق دونوں نے یہ طے کیا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کی مخالفت میں دلائل دینے کے بجائے اس بات پر غور کریں گے کہ دونوں ممالک عدم اعتماد کی خلیج کو کس طرح پاٹ سکتے ہیں۔ دونوں اس بات پر متفق تھے کہ دونوں ممالک میں سے کوئی بھی جنگ نہیں جیت سکتا اس لیے بہتر ہو گا کہ اب آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے سوچا جائے۔ ورنہ آنے والی نسل ہمیں اس ناکامی کا ذمہ دار قرار دے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس قسم کی کھلے دل سے بات چیت سے بھی جامع مذاکرات کی راہ ہموار نہ ہو سکی۔ بی آر آئی اور سی پیک نے خطہ کے باہمی رابطوں کے تصور میں نئی روح پھونک دی ہے۔ مگر اس کے باوجود بھی خطہ میں ہم آہنگی بڑھانے کے ماضی کے اقدامات کو بھی بالخصوص سارک تنظیم کے تلخ تجربات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سارک بھی انہی مسائل کی وجہ سے غیر موثر ہو چکی ہے۔ ممکن ہے کہ بھارت کے لیے سٹریٹجک معاشی اور جغرافیائی اہمیت ہو مگر پاکستان کے لیے تو یہ فزیکل اور نان فزیکل ذرائع کے استحکام کا معاملہ ہے۔