دربار حضرت ایشاں اور مسجد شہید گنج
ڈا کٹر طا ہر رضا بخاری
دربار حضرت ایشاں ؒ سے متصل وقف پراپرٹی پر کمرشل سکیم کی تشکیل سے مقامی سطح پر کوئی بے چینی پیدا ہوئی تو اس کے ازالہ کے لیے گزشتہ روز موقع ملاحظہ اور دربار شریف پہ حاضری مقصود تھی ، ہمارے ہاں اسٹیٹ لینڈ اور وقف اراضی پر ہر ایک کی نظر ہوتی ہے کہ کب کسی کا دائو چلے اور وہ اس کو ہتھیالے ،چنانچہ خطّے کی اس نفسیات کے سبب سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف ایڈ منسٹریٹر اوقاف پنجاب کو ہدایت کی کہ ایسی وقف لینڈ ،جو کاروباری اعتبار سے منافع بخش ہوسکتی ہو ، اس کی کمرشل سکیمزتیار کر کے ، اس کا نیلام ِعام کا اہتمام کریں ، تاکہ اوقاف کے ذرائع آمدن میں اضافہ اورمزارات کی زمین قبضہ مافیا سے محفوظ رہے ۔ چنانچہ گورنمنٹ کی منظور شدہ پالیسی کے مطابق یہ ایکسرسائزاوقاف ڈیپارٹمنٹ میں جاری ہے ، جو کہ محکمہ کے لیے سود مند اور نتیجہ خیز ہے ۔ دربار حضرت ایشاںؒ جی ٹی روڈ پر انجینئرنگ یونیورسٹی سے ذرا آگے بیگم پورہ علاقہ سے متصل شمال کی طرف ہے ،روایت ہے کہ انجینئرنگ یونیورسٹی کی تشکیل میں ، اس مزار کی وقف اراضی بھی شامل ہوئی ۔ مزار قدیم ، عالی شان بہت بلند ، انتہائی پختہ ، چونہ گچ اور ہشت پہلو ہے ۔شاہ جہاں کے عہد کی تعمیر ہے ، صاحب ِ مزار نقشبندی سلسلے کی انتہائی جلیل قدر ہستی ہیں ،حاضری کی ایک اپنی کیفیت ہے، وہاں کا جذب، سکون اور سکوت آپ کو اپنے وجود میں اُتر تا محسوس ہوتا ہے ۔ حضرت ایشاںؒ کے مزار کی شرقی سمت میر جاں شاہ اور سیّدمحمود آغا کی قبریں ہیں ۔ آپؒ ابتدائی طور پر بخاراسے تھے ، کابل اور کشمیر سے ہوتے ہوئے لاہور تشریف فرما ہوئے ، میری وجہ موانست ان کا بخاری اور پھر نقشبندی ہونا بھی ہے ۔ میرے آبأ کرام بھی یہاں حاضری دیتے رہے ۔ گزشتہ سے پیوستہ میں "گنجِ شہیداں" کے تذکرے میں" شہید گنج" کا ذِکر ابھی باقی تھا ، جواَب صرف لاہور کے قدیم تذکروں کی حدتک ہی محدود ہے ، جبکہ عملی طور پر معدوم، یہ مسجد ، حضرت شاہ کاکوچشتی ؒ، جو پندرھویں صدی عیسوی کے بزرگ تھے ، کے مزار سے متصل تھی ،یہ مزار اَب ، ایک عدالتی حکم کے تحت مقفل ہے ، وجہ تقریباً ایک صدی قبل والا سکھ مسلم نزاع ہے ، مقفل احاطہ 4/5 کنال اراضی پہ محیط ہے ، اسی احاطے میں سکھوں کا عَلم نَصب ہے ، جو کہ قدیم ہے ،ساتھ ہی چھوٹی سی مسجد ہے ، جس کا حجم تقریبا ً5 مرلہ ہے ، اس سے متصل ہی مزار شریف ہے ۔ صحن میں ایک طرف سکھ جبکہ دوسری طرف مسلمانوں کی مذہبی رسومات کا مقام ہے ۔ صدیوںقبل یہاں مقبرہ میر معین الملک عرف میر منواور اس کی بارہ دری تھی، جبکہ مسجد مغل طرزِ تعمیر سے آراستہ تھی ، یعنی تین گنبد اور تین محرابیں، جو داراشکوہ کے خانساماں عبد اللہ خاں نے 1064ھ میں بنوائی ، عبد اللہ خاں لاہور کاکو توال بھی رہا ۔ سکھ عہد میں اس خیال سے مسجد اور مقبرہ کو مسمار کر کے ، یہ احاطہ گوردوارہ میں تبدیل کر دیا گیا کہ اس جگہ مغلوں کے آخری گورنر نواب میر معین الملک عرف میر منونے فرخ سیر بادشاہ کے زمانے میں سکھوں کو قتل کیا تھا اور وہ اس کی یاد باقی رکھنا چاہتے تھے ۔اگر آپ ریلوے اسٹیشن سے نولکھا بازار ،جسے عرفِ عام میں لنڈا بازار بھی کہتے ہیں، کی طرف آئیں ،تو شہید گنج چوک کی لوہا مارکیٹ میں گوردوارہ شہید سنگھ سنگھنی ، کوئی رُبع صدی قبل از سر نوتعمیر سے آراستہ ہوا ، اس گنجان آبادی میں تقریباً 7کنال کا احاطہ کافی وسعت کا منظر پیش کرتا ہے ۔ اس کے اندر کھڑے ہوں تو مشرق کی طرف مندر مون چند کا گنبد فضائوں میں بلند ہے ، گوکہ عملی طور پر فنگشنل نہ ہے ۔ حضرت شاہ کاکو کاؒ، جن کا اصل نام نورالدین تھا ، کا مزار ، جو کسی دور میں علاقے کا نیوکلس تھا ،صدیوں قبل مرجع خلائق تھا ، یہ محلہ ، آپؒ کے نام سے بھی موسوم رہا ۔ ازاں بعد داراشکوہ کی حویلی اور تعمیرات کے سبب یہ ایریا محلہ دارا شکوہ اور چوک داراشکوہ سے منسوب ہوگیا ۔ حضرت شاہ کاکو ؒنے اپنے باطنی مقام کو ہمیشہ چھپائے رکھا ، رہن سہن عام دنیا داروں کی طرح تھا ، آپؒ کے مزار سے ایک مرتبہ حضرت میاں میرؒ کا گذر ہوا ، انہوں نے کچھ دیر قیام کیا ، فاتحہ خوانی کی ، روانہ ہوتے وقت حاضرین اور اپنے احباب سے فرمایا، یہ مزار ایک صاحبِ کمال ہستی اور بہت بڑے ولی اللہ کا ہے، چنانچہ ازاں بعد خلقِ خدا کا ہجوم ہوگیا۔1798ء میں رنجیب سنگھ کے لاہور پر قبضے کے نتیجہ میں جو مسلم شرائنز متاثر ہوئے ، ان میں یہ ایریا بھی شامل تھا۔ یہ مسجدجولائی 1935ء میں فسادات کے نتیجہ میں شہید ہوگئی ، جس پراسلامیانِ لاہور سراپا احتجاج بن گئے ۔سخت ہیجان اور زبر دست طوفان برپا ہوگیا ۔ مولانا ظفر علی خاں اور اس سطح کے دیگر قائدین نظر بند ہوگئے ۔شہید گنج کے نام سے ایک تحریک لائونچ ہوگئی ، جہاں سے شورش کشمیری جیسے شعلہ نوا پیدا ہوئے، اُس نے اپنی سوانح میں لکھا کہ:’’ یہ 14جولائی 1935ء کا ذِکر ہے ، منٹو پارک (اَب یادگارِ پاکستان)کی طرف شاہی مسجد کے کُھلے حصوں میں کچھ دوست بزمِ ادب کا سالانہ انتخاب کرنے جمع ہوئے تھے ، کئی دوست جاچکے تھے ۔ لیکن مرزاادیب، بدر محی الدین ،شمس ملک ، حفیظ قندھاری اور مَیں آپس میں حالات ِحاضرہ پر تبصرہ کر رہے تھے ،اُدھر مسجد کے صحن میں ہزار ہا آدمیوں کا ہجوم کسی رہنما کا منتظر تھا ۔ میرا معاملہ یہ تھا کہ پچھلے اڑھائی تین سال میں سیاسیات کا چسکا مدھم پڑچکا تھا ۔ حالات کی مار نے ہر چیزبھُلادی تھی ، بیدم وارثی کے میزبان حافظ معراج دین جو ان دنوں انجمن فرزند ان توحید کے جنرل سیکرٹری تھے ، ہجوم سے نکلے اور میرے پاس آگئے ،و ہ کسی صدر اور مُقررکی تلاش میں تھے ۔۔۔کہنے لگے : "بھائی اُٹھو،خدمت کا وقت ہے ، صرف تین ماہ قید ہے اور وہ بھی اسلام کے لیے ؟"ـ ـ" آپ کا مطلب ؟"مَیں نے کہا، کہنے لگا؛ ـ"لوگ مُضطرب ہیں ، اَحرار آئے نہیں ،ظفر علی خاں اور ان کے ساتھی قید ہوچکے ہیں ، اب ہمیں لیڈر بننا چاہیے ۔" "اس لیڈ ری کو دُور ہی سے سلامـ"،مَیں نے مَسکراکر عرض کیا ۔ انہوں نے تقاضا اور اصرار کیا۔ مَیں نے پھر کہا کہ "مَیں یہ بوجھ اُٹھانے کے قابل نہیں ، آپ ہی اسے سنبھالیں ـ"۔ بدر محی الدین اور شمس ملک بھی حافظ کے ساتھ شریک ہوگئے ، گھر سے کتاب لے کر نکلا تھا اور معمول یہ تھا کہ شاہی مسجد کے حُجرے میں بیٹھ کر پڑھا کرتا ۔ میرے ذہن کے کسی دُور افتادہ گوشے میں بھی اس کا تصوّر نہ تھا ، یہ گویا ایک حادثہ تھا جو کسی مسافر کو اچانک پیش آگیا ہو، یکا یک طبیعت آمادہ ہوگئی ۔ حافظ معراج دین نے نعرہ ٔ تکبیر بلند کیا اور تحریک کی : "حضرات!مَیںاس جلسہ کی صدارت کے لیے پنجاب کے مشہور ادیب حضرت آغا شورش کاشمیری کا نام پیش کرتا ہوں۔" چودھری مولا بخش نے تائید کی ---مَیں نہ تو پنجاب کا مشہور ادیب تھا نہ خطیب ، ادب سے محض آشنائی تھی، رہ گئی خطابت تو مَیں یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ اس کے مبادی کیا ہیں ۔ کبھی تقریر کا حوصلہ ہی نہ تھا ہوا تھا ،بلکہ دوچار دوستوں میں بھی بولنے سے ہچکچاتا تھا ، دو ایک دفعہ بزمِ ادب میں حوصلہ کیا تو قدم لڑکھڑانے لگے ، الفاظ رہ گئے ۔یہ معرکہ میرے لیے انتہائی سنگین اور یہ مرحلہ فی الواقع ہو شربا تھا ۔