2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

دسمبر کی یادیں

ظہور دھریجہ
12-12-2018

گزشتہ سال دسمبر میں ن لیگ کی حکومت تھی اور تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی ، اب تحریک انصاف برسر اقتدار ہے اور ن لیگ اپوزیشن میں ہے، گزشتہ سال اسی مہینے دھریجہ نگر کی سرائیکی کانفرنس کے موقع پر جو قراردادیں منظور کی گئیں ، ن لیگ کی حکومت نے ان پر عمل نہ کیا اور وعدے کے باوجود دو صوبے نہ بنائے ، حالانکہ 2013ء کے پارٹی منشور میں انہوں نے بہاولپور جنوبی پنجاب کے نام سے صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا ، کسی بھی جماعت کا منشور اس کی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ، بعد میں ن لیگ نے ملتان میں سب سول سیکرٹریٹ کا لولی پاپ دیا مگر وہ وعدہ بھی پورا نہ کیا۔ اب تحریک انصاف نے بھی صوبے کا تحریری وعدہ کیا اور وسیب کے مسئلے حل کرنے کا کہا مگر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ۔ ن لیگ کی طرح تحریک انصاف بھی سب سول سیکرٹریٹ کا کہہ رہی ہے مگر سب کچھ جوں کا توں ہے اور وسیب کے لوگ اسی طرح سراپا احتجاج ہیں ، جس طرح گزشتہ دسمبر میں تھے ۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کو وعدہ وفا کر کے تبدیلی کا ثبوت دینا چاہئے ۔ دسمبر کا ذکر آیا ہے تو عرض کرتا چلوں انگریزی کیلنڈر میں دسمبر اور دیسی کیلنڈر میں مگھر جسے ہم سرائیکی میں ’’مانگھ‘‘ کہتے ہیں، کو یادوں کا مہینہ کہا جاتا ہے۔جونہی یہ مہینہ شروع ہوتا ہے تو سرد ہوائیں چلتی ہیں اور ہر انسان یادوں کی دنیا میں کھو جاتا ہے۔ سرائیکی کے عظیم شاعر خواجہ فرید نے کہا’’اج مانگ مہینے دی یارہی وے کیوں ،بیٹھیں یار وساری وے‘‘ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آج مگھر کی گیارہ تاریخ ہو گئی ہے تو نے اپنے محبوب کو کیوں بھلایا ہوا ہے۔ اسی طرح سرائیکی دھرتی کے ایک اور عظیم شاعر محسن نقوی نے اردو میں کیا خوب کہا۔ ٹھنڈی ہوائیں کیا چلیں مرے شہر میں محسن ہر طرف یادوں کا دسمبر بکھر گیا دسمبر بہت ستم گر ہے، اس کی یادیں ہمارے لئے خوشگوار نہیں، اسی مہینے سقوط ڈھاکہ ہوا، لاکھوں لوگ مارے گئے اور ہم اپنے لخت جگروں کے ساتھ آدھے ملک سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے، اسی مہینے سندھ ماں دھرتی کی عظیم بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کا المناک حادثہ ہوا۔ اسی مہینے سانحہ پشاور پیش آیا ،جس کے نتیجے میں ہمارے سینکڑوں لخت جگر ہم سے جدا ہوئے ، اسی موقع پر کہا گیا کہ ’’ جنازوں پر پھول ہمیشہ دیکھے ، مگر پھولوں کے جنازے پہلی مرتبہ دیکھے۔‘‘ صحافت کے طالب علم اور محرومی کا شکار’’ پس افتادہ‘‘ سرائیکی علاقے سے تعلق رکھنے والے پاکستانی کی حیثیت سے پاکستانی تاریخ پر غور کرتا ہوں تو کوئی لمحہ، کوئی دن اور مہینہ ایسا نہیں جو زخموں سے چور لہورنگ نہ ہو لیکن آج دسمبر ہے تو کیوں نہ اس کی یادیں تازہ کریں۔ دسمبر کی ستم ظریفیوں میں ایک ستم جنرل ضیاء الحق کا ریفرنڈم بھی ہے ۔ جنرل ضیاء الحق نے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اپنی نشری تقریر میں تین ماہ کے اندر الیکشن کرانے کا اعلان کیا، تین ماہ گزرنے پر انہوں نے نئی تاریخ دیدی، نئی تاریخ کا وقت آیا تو وہ اس سے بھی مکر گیا۔ الیکشن کے سلسلے میں کوئی وعدہ وفانہ ہوا۔ ضیاء الحق کسی صورت الیکشن نہ کرانا چاہتا تھا، لیکن مطالبہ بڑھ رہا تھا، ایک طرح سے الیکشن کا لفظ ضیاء الحق کی ’’چڑ‘‘ بن گیا۔اس سلسلے میں ایک چھوٹا سا لطیفہ بھی وجود میں آیا، وہ اس طرح کہ شیو کرنے والے حجام نے ضیاء الحق سے پوچھا ’’جنرل صاحب الیکشن کب کرا رہے ہیں؟‘‘ جنرل صاحب نے جواب دیا بہت جلدی، دوسرے دن حجام نے کل والی بات دہرائی جنرل صاحب نے بھی کل والا جواب دہرایا لیکن غصے کی تھوڑی سی آمیزش کے ساتھ۔ حجام نے تیسرے دن اپنی بات دہرائی تو جنرل صاحب سخت طیش میں آگئے اور حجام سے کہا تو سیدھی بات بتا تیرا بار بار پوچھنے کا مطلب کیا ہے؟ کیا تو سیاستدان ہے یا الیکشن لڑے گا؟ حجام نے ہاتھ جوڑ کر کانپتے ہوئے کہا حضور جان کی امان پائوں، میں سیدھی بات عرض کرتا ہوں کہ مجھے الیکشن سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی میں سیاستدان ہوں اصل بات یہ ہے کہ’’ جب میں الیکشن کا ذکر کرتا ہوں آپ کی جلد کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں اور میرے لیے شیو کا کام آسان ہو جاتا ہے‘‘ لطیفے سے پہلے میں عرض یہ کر رہا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کی دوسری بے شمار ستمگریوں میں ایک19 دسمبر 1984ء کو کرایا جانیوالا ریفرنڈم بھی تھا، اس فراڈ ریفرنڈم میں یہ نہ پوچھا گیا کہ صدر کون ہو؟ بلکہ ایک سوال نامہ جاری کیا گیا جس کا ’’ ہاں‘‘ یا ’’ناں‘‘ میں جواب دیناتھا، ریفرنڈم میں واضح کیا گیا تھا کہ’’ہاں‘‘ کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ آئندہ پانچ سال کیلئے ضیاء الحق آئینی طور پر ملک کے منتخب صدر ہوں گے۔ سوال یہ تھا کہ’’کیا آپ صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کے اس عمل کی تائید کرتے ہیں جو انہوں نے پاکستان کے قوانین کو قرآن حکیم اور سنت رسولؐ کے مطابق اسلامی احکامات سے ہم آہنگ کرنے اور نظریہ پاکستان کے تحفظ کیلئے شروع کیا ہے‘‘ پاکستانی عوام نے جنرل ضیاء الحق کے’’فراڈ‘‘ کو مسترد کیا اور وہ پولنگ اسٹیشنوں پر ہی نہ گئے اور سرکاری اہلکاروں نے پرچیوں پر مہریں مارنے کا فریضہ سرانجام دیا، یہ اس جنرل ضیاء الحق کا ریفرنڈم تھا جو منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 1977ء کے الیکشن میں ’’جھرلو‘‘ کے الزام میں برطرف کیا تھا۔ضیاء کے بعد مشرف کا ریفرنڈم بھی اسی طرح کا تھا، اب حکومتی حلقوں کی طرف سے سرائیکی صوبے کی حدود اور سرائیکی صوبے کے نام پر ریفرنڈم کی تجویز آتی ہے تو ہم کانپ جاتے ہیں۔ دوسرے طبقوں کے ساتھ ساتھ ضیاء الحق نے صحافیوں کے ساتھ بھی بہیمانہ سلوک کیا اس سلسلے میں دسمبر کی ستمگری اور جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ اقدامات کا ذکر چلا ہے تو یہ بھی سنیئے کہ 18 دسمبر1979ء کو جنرل ضیاء نے ازالہ حیثیت عرفی کے قانون کی رو سے کسی شخص کے خلاف ہتک عزت مواد کی اشاعت ممنوع قرار دی ،خاص بات یہ ہے کہ آرڈی نینس میں یہ بھی لکھا گیا ، ’’شائع شدہ مواد کتنا بھی سچا حقیقی اور مفاد عامہ کے حق میں ہی کیوں نہ ہو‘‘ جنرل ضیاء الحق کے اس قانون کو اخبارات کی عالمی تنظیموں نے کالا قانون کا نام دیا تھا، جنرل ضیاء الحق کے عرصہ اقتدار میں مساوات، ہلال پاکستان، صداقت، قاصد، اعتماد (بلوچستان) آزاد کشمیر کے کار زار، مشیر، انجان آزاد، نیلم، قائد، مبصر شعلہ اور ان کے چھاپہ خانہ المدینہ پرنٹنگ پریس مظفر آباد، الفتح کراچی، تمثل الحمید، سائنس ڈائجسٹ، سرگزشت، انگریزی، آرٹس انٹرنیشنل اور میڈیکل سپیکڑم سمیت مزید درجنوں اخبارات کے ڈیکلریشن منسوخ ہوئے باقی تمام اخبارات پر مکمل سنسر کے علاوہ مساوات اور حیدر کے پرٹنگ پریس کی سرعام بولی لگوا دی گئی، جنرل ضیاء الحق کے دور میں الطاف حسن قریشی، نذیر ناجی، محمود شام جیسے نامور صحافی صرف گرفتار ہی نہیں ہوئے انہیں ذہنی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا، روز نامہ صداقت کراچی میں اندھے کی لاٹھی لکھنے پر بشیررانا کو بغیر وارنٹ گرفتار کیا گیا سرعام تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔