2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

دہشت گردی کا خطرہ بدستور موجود ہے!

محمد عامر رانا
27-08-2018

باوجود اس کے کہ 2018ء میں بھی دہشت گردی کے ہولناک واقعات رونما ہوئے پھر بھی گزشتہ چند برسوں میں دنیا بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے البتہ دہشت گردی کے واقعات میں کمی سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ حال ہی میں داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کا آڈیو پیغام منظر عام پر آیا ہے جس میں انہوں نے اپنے پیروکاروں کو جنگ جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی کا خطرہ کم ضرور ہوا ہے مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ یقینا اکثر دہشت گردوں کے گروہ کمزور ہو گئے ہیں مگر اس کے باوجود بھی وہ فکری اور جسمانی طور پر نہ صرف موجود ہیں بلکہ نامعلوم مقامات سے پاکستان میںآپریٹ بھی کرتے رہتے ہیں۔ یہ دعوی درست ہے کہ پاکستان نے ملک بھر میں دہشت گردوں کی کمین گاہوں کا صفایا کر کے ان کی کمر توڑ دی ہے مگر اس کے باوجود بھی ان میں اتنا دم خم باقی ہے کہ وہ گاہے بگاہے کارروائیاں کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ گو ان کی کارروائیوں میں ماضی کی نسبت کافی حد تک کمی ضرور واقع ہوئی ہے گزشتہ مہینے جولائی میں انتخابات کے دوران دہشت گردوں نے کارروائیاں کر کے اس تاثر کو زائل کر دیا ہے کہ پاکستان داخلی سلامتی کے خطرات سے موثر انداز میں نمٹ رہا ہے۔ ابوبکر البغدادی کے حالیہ بیان سے یہ اندازہ اور تاثر بھی غلط ثابت ہو چکا ہے کہ وہ مارا جا چکا ہے بغدادی کی مغرب میں کارروائیاں تیز کرنے کی دھمکی یورپ میں خوف کی نئی لہر میں اضافہ پیدا کر دے گی۔ اس بیان سے ان مسلمان ممالک میں بھی دہشت گردی کا خوف مزید بڑھ جائے گا جن میں بغدادی نے ایک مخصوص فرقہ کے مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں کرنے کی ہدایت کی ہے ان میں پاکستان اور افغانستان اہم ممالک ہیں۔ جہاں مختلف ممالک کے مختلف گروہ سرگرم ہیں ان کے لیے داعش تحریک کا موجب بن رہی ہے۔ رواں ماہ میں افغانستان میں 2تباہ کن حملے ہو چکے ہیں۔ ان حملوں میں 80بے گناہ لوگ شہید ہوئے تھے اور ان کی ذمہ داری خورستان صوبے میں داعش نے قبول کی تھی یہ حملے گردیز اور دشت بارچی کے علاقے میں کیے گئے جو کابل کے نواح میں واقع ہیں ۔دہشت گردوں کی جانب سے کائونٹر ٹیررازم کے اداروں کو چکما دینے کے لیے اہداف بدلنا پرانا حربہ ہے۔ تاکہ خوف اور بحران کی فضا قائم کی جا سکے۔ دہشت گرد جہاں ایک طرف سکیورٹی فورسز اور قومی اداروں کو نشانہ بناتے ہیں وہاں دوسری طرف مخالف مسالک اقلیتوں کو بھی ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کا ماضی میں بھی یہی حربہ رہا ہے جو اب وہ افغانستان میں بھی استعمال کر رہے ہیں ۔گاہے بگاہے وہ اس تسلسل کو توڑنے کے لیے عوامی مقامات کو بھی ہدف بناتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ دہشت گردوں کی جانب سے کسی ایک ہدف کو مسلسل نشانہ بنانے سے آپریشنل فوائد تو حاصل نہیں ہوتے مگر اس سے عوام میں حکومت پر اعتماد بری طرح متاثر ہوتا ہے کہ حکومت دہشت گردی کے انسداد اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتی جس کے نتیجے میں سیاسی بحران پیدا ہوتا ہے۔ اگر دولت اسلامیہ خورستان افغانستان میں مخالف مسلک کو ہدف بنانا جاری رکھتی ہے تو اس افغانستان میں رواں برس ہونے والے انتخابات میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔پاکستان میں 2014ء کے بعد مسلکی دہشت گردی کے واقعات میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ جو یقینا ایک مثبت تبدیلی ہے مگر پھر بھی پاکستان میں مسلکی تنائو کی ایک تاریخ بہرحال موجود ہے۔ پاکستان میں کائونٹر ٹیررازم کی کارروائیوں اور نیشنل ایکشن پلان کے دبائو کے علاوہ داخلی طور پر ملک میں مختلف مسالک کے مثبت کردار کی وجہ سے ملک میں فرقہ وارانہ تشدد میں کمی میں کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں داعش کی طرف سے مسلکی تشدد کو ہوا دینے کا ایجنڈا بہرحال موجود ہے اور اس کے پنپنے کے امکانات بھی موجود ہیں پاکستان میں لشکر جھنگوی اور جند اللہ ایسے انتہا پسند گروہ موجود ہیں جو ملک میں دولت اسلامیہ کو اہداف کے حصول میں سہولت کاری مہیا کرتے ہیں پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں جن کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے ان کے اعداد و شمار سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ پاکستان میں داعش بلوچستان اور شمالی سندھ میں موجود ہے یہی علاقے پاکستان میں مسلکی دہشت گردی کی فالٹ لائن سمجھے جاتے ہیں۔ بلوچستان بالخصوص کوئٹہ کی وادی میں ہزارہ کمیونٹی آباد ہے تو شمالی سندھ میں شیعہ مسلک کی بھاری اکثریت موجود ہے۔ یہاں تک کہ ان علاقوں میں موجود سنی مسلک کے لوگوں پر بھی شیعہ مسلک کا اثر نمایاں ہے۔ ان علاقوں میں بھی خانقاہیں موجود ہیں۔ غیر موثر صوبائی سرحدوں کے کنٹرول کے باعث خانقاہوں کے علاوہ ایران کی زیارتوں کو جانے والا روٹ خاص طور پر دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2015ء سے 2018ء تک پاکستان میں داعش نے 16حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جن میں سے 11حملے خانقاہوں چرچ اور سیاسی اجتماعات اور سکیورٹی فورسز پر کئے گئے جس کا مطلب ہے کہ دولت اسلامیہ نہ صرف ایسے حملوں میں اہداف تبدیل کرتی ہے بلکہ پاکستان میں مخالف مسالک پر حملوں کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان میں دہشت گرد کسی طرح بغدادی کی ہدایات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ کا اندازہ ہمارے سکیورٹی اداروں کو بھی تھا مگر آئی ایس کی طرف سے مستونگ اور کوئٹہ کے قریب حملوں جن میں 182بے گناہوں کی جان لی گئی سکیورٹی اداروں سمیت سب کے لیے حیران کن تھے۔ ابتدائی اندازے تو یہی لگائے جا رہے ہیں کہ ان کارروائیوں میں کچھ مقامی تنظیمیں شامل ہو سکتی ہیں جو انتخابات کو سبو تاژ کرنا چاہتی تھیں۔ مگر یہ سوچ یہ بھی ہے کہ دہشت گردوں نے اپنی قوت اور اہداف تبدیل کرنے کی صلاحیت کا پیغام دیا ہے کہ داعش بلوچستان میں یہ کر سکتی ہے۔ دہشت گردوں نے انتخابات میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ سے اپنی قوت کا اظہار اپنی طرف دینا کو متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گزشتہ چند برسوں سے جاری کائونٹر ٹیررازم کے آپریشن نے دہشت گردوںکے نیٹ ورک کو خاصا نقصان پہنچایا ہے اور ان کو اپنے انسانی وسائل سے رابطے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد تنظیم کی طرف سے ردعمل کے طور پر دہشت گردی کی کارروائیاں کی گئی ہیں مگر یہ تنظیم کوئی بڑی کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ملا فضل اللہ کی جون میں ہلاکت کے بعد تحریک طالبان پاکستان پشاور میں صرف ایک کارروائی کرنے میں کامیاب ہو سکی جس میں عوامی نیشنل پارٹی کے ہارون بلور شہید ہوئے۔ بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں اپنے وسائل اور استعداد کار کو بہت محتاط انداز میں استعمال کر رہی ہیں تاکہ اپنی موجودگی کا احساس اور سکیورٹی ایجنسیوںکو مصروف رکھیں سکیں۔ آئی ایس آئی ایس سیاسی اجتماع پر حملہ کر کے پاکستان میں اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہتی تھی مگر اس کی طرف سے حملوں کی تعداد دوسری تنظیموں کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔ اسے حملوں میں بھاری جانی نقصان ہوتا ہے اور حقیقتاً اس قسم کے اکثر حملے شدید جانی نقصان کا باعث بنے ہیں جس میں 7خود کش حملے بھی شامل ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں نے چینی انجینئرز ‘حکومت کے حامی قبائل‘ عسکری اداروں اور میڈیا پرسنز کو ہدف بنایا ہے مگر اس کے باوجود بھی ان کا پہلا ہدف مذہبی مقامات اور خانقاہیں ہی رہی ہیں۔ ان تنظیموںکی اصل قوت ان کے بارے میں پیشین گوئی نہ کر پانے کی صلاحیت ہے ایک پاکستانی سکیورٹی افسر نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ گروپ پاکستان کے لیے ایک مسلسل خطرہ بنے ہوئے ہیں مگر پاکستان کے سکیورٹی ادارے ان کو ریڈار میں لانے کے لیے بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔