2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت

سعد الله شاہ
22-12-2018

دل چاہتا ہے کہ کچھ مزے مزے کی باتیں ہو جائیں چونکہ جملہ ہم نے دل سے شروع کیا ہے تو کیوں نہ دل کی بات آگے چلائیں۔ ویسے بھی دل جو ہے وہ ہمارے کہنے میں تھوڑا ہی ہے۔ حالی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’دل چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں!‘‘ شاعروں نے تو دل پر پہلے ہی اتنی طبع آزمائی کی ہے کہ اگر شاعری سے دل نکال دیا جائے تو باقی کچھ نہیں بچتا۔ اچانک اپنا ایک بھولا بسریٰ شعر یاد آگیا: اک دل بنا رہا ہوں میں دل کے مکین میں مشکل سے بات بنتی ہے مشکل زمین میں خیر پہلے ایک فون کال کا ذکر ہو جائے۔ میجر عامر نے ہمیں بیٹے عمیر بن سعد کی شادی کے سلسلہ میں مبارکباد دینے کے لیے فون کیا اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ وہ تو دو ماہ ہسپتال میں رہے کہ ان کے دل کے چاروں والو بند تھے۔ ڈاکٹروں نے بائی پاس کا مشورہ دیا مگر کسی دوست ڈاکٹر نے چار سٹنٹ ڈالنے کو ترجیح دی۔ جب وہ گھر آئے تو آتے ہی 92 نیوز میں میرا کالم پڑھا تو فوراً مباکباد دینے کا فیصلہ کیا۔ میجر عامر کے تعارف کی چنداں ضرورت نہیں کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔ جہاں وہ سیاسی اور عسکری اعتبار سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا مرکزی کردار رہے ہیں وہیں وہ مرنجاں مرنج قسم کے آدمی بھی ہیں۔ جہاں تک ان کے دل کا معاملہ ہے کہ اس کے چاروں والو بند ہو گئے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ وہ خود ہی خوش خوراک نہیں، ان کا دستر خوان بھی بہت وسیع ہے۔ آخر دل کہاں تک مرغن غذائیں برداشت کرسکتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب ہم اسلام آباد میں ڈاکٹر انعام الحق کے بک میلہ پر گئے تو میجر عامر نے ناصر علی سید کے ساتھ ہمیں بھی اپنے گھر مدعو کیا۔ باقی گپ شپ بھی کمال تھی مگر اہتمام کام و دہن دیکھ کر ہم حیران رہ گئے۔ یہ تو بعد میں ناصر علی سید نے بتایا کہ وہ ہمیشہ ایسے ہی اہتمام کرتے ہیں اور ان کے عشائیہ کو عشائیہ نہیں شہنشاہیہ کہا جاتا ہے۔ اکثر نامور کالم نگار اوراینکر یہیں پائے جاتے ہیں۔ گویا ان کے گھر کو ایک مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ اندر کی خبریں بھی یہیں ڈسکس ہوتی ہیں۔ بتانا میں یہ چاہتا تھا کہ اہل دل ایسے ہی ہوتے ہیں کہ دوستوں کے لیے دل فرش راہ کرتے ہیں اور دل کھول کر ان کی تواضع کرتے ہیں۔ روز مرغن کھانے ہوں گے تو پھر دل بھی آخر دل ہے۔ کوئی کرے تو کیا کرے جتنی بھی مزیدار چیزیں ہیں، ان میں کولیسٹرول ہے اور یہ دل کے لیے زہر ہے۔ آپ پائے ہی لے لیں، اب اس سے زیادہ لذیذ کون سی ڈش ہوگی۔ ابھی کل ہی علی صدف نے ہمیں دعوت دی تو اس میں ایک ہی ڈش تھی بڑے پائے جو ویسے بھی بڑے پائے کے پکے ہوئے تھے۔ چھوٹے پائے میں تو ہڈیوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ جو پائیوں کا ذوق رکھتے ہیں وہ بڑے پائے ہی پکواتے ہیں اور ساتھ نہاری کا سازوسامان۔ اچھا ہوا کہ یہ ایک ہی ڈش تھی، اگر کوئی اور اضافی ڈش ہوتی بھی تو اسے کون ہاتھ لگاتا۔ مزے کی بات یہ کہ علی صدف کو ہم کوئی لڑکی سمجھتے رہے۔ چند ایک نے تو اسے صغریٰ صدف کی چھوٹی بہن سمجھا۔ نام بڑے مغالطے ڈالتے ہیں مثلاً ہمارے روحی کنجاہی، ناہید شاہد اور زیبا ناروی اپنے ناموں کے باعث کئی مسائل کا شکار رہے۔ خیر یہ بات تو ضمناً آ گئی۔ ورنہ علی صدف تو باریش شاعر ہیں۔ ان کی بیگم بھی مشاعرہ میں تھیں۔ سب نے ان کی خانہ داری کی تعریف کی کہ پائے اس قدر لذیذ تھے کہ منہ سے اترتے نہیں تھے۔ میں نے انہیں قدرت اللہ شہاب کا واقعہ سنایا کہ جب انہوں نے اپنے انگریز مہمان کا کھانا کیا اور کھانے کے بعد قدرت اللہ شہاب نے اپنی امی کو ہنستے ہوئے بتایا کہ وہ انگریز کہہ رہا تھا کہ جس نے اتنا لذیذ کھانا بنایا ہے جی چاہتا ہے اس کے ہاتھ چوم لوں۔ ماں جی بولے ’’میں اس کی مونچھیں نہ اکھاڑ دوں گی‘‘ بڑا آیا ہاتھ چومنے والا۔ ویسے اپنے دل کا خیال رکھنا چاہیے کہ یہ دھڑکتا ہی اچھا لگتا ہے۔ خوش خوراکی کریں مگر ساتھ ہی کچھ سیر ویر بھی کرلیں۔ ہوتا یہ ہے کہ زیادہ کھانے والے ویسے ہی سیر کے قابل نہیں رہتے۔ مرغن غزائیں کم استعمال کریں اور ان میں بھی آئل استعمال کروائیں۔ دل کا مسئلہ ہو جائے تو پھر مونگی مسروں کی دال ہی کھانا پڑتی ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ وہی چیز کھانے کو دل چاہتا ہے جو اس کے لیے مضر ہے۔ ویسے سبزیاں استعمال کی جائیں تو بچت رہتی ہے مگر سبزیاں کھانے کو دل نہیں چاہتا۔ مجھے قتیل شفائی یاد آئے جوکہتے تھے کہ انہیں چکن اتنا پسندتھا کہ سبزیوں میں بھی چکن ہی پسند کرتے تھے۔ شہزاد احمد بھی بہت خوش خوراک تھے۔ ان کا دل کا حملہ ہوا تو ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دے دیا تھا۔ ان کی لاش مردہ خانے کے لیے بھیجی جانے لگی تو جسم میں جنبش ہوئی اور وہ معجزانہ طور پر بچا لیے گئے۔ انہوں نے اپنا شعری مجموعہ اپنے ڈاکٹر کے نام کیا تھا ’’ٹوٹا ہوا پل‘‘ کہ زندگی منقطع ہو کر پھر مل گئی۔ اس زبردست واقعہ نے ان کا سارا خوف ہی ختم کردیا۔ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر پائے، جوائنٹ اور کباب کھاتے۔ ایک تکہ شاپ پر میں بھی ان کے ساتھ جاتا۔ بھٹی صاحب کہتے جناب میرے کباب تو قصاب بھی آ کر کھاتے ہیں۔ دل کا استعمال میں نے سب سے اچھا غالب میں دیکھا: دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں مگر درد کے شعر کا تو جو اب ہی نہیں: دونوں جہاں کہاں تری وسعت کو پا سکے اک دل ہی وہ جگہ ہے جہاں تو سما سکے کیوں نہ مومن کو بھی ایک شعر پر داد دیں: حال دل یار کو لکھوں کیونکر ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا ایک شعر اور ستا رہا ہے: دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں کچھ علاج ان کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں بہرحال دل ہے تو اس کا علاج بھی ہے مگر پرہیز علاج سے کہیں بہتر ہے۔ صبح کی ہوا خواہی اس کے لیے زیادہ بہتر ہے کہ تازہ آکسیجن خون میں پہنچے۔ ویسے دل کا استعمال کم ہی کرنا چاہیے کہ ہر جگہ تو آ جاتا ہے بلکہ ہر کسی پر بھی۔ چلیے آخر میں دو شعر اور اجازت: دل سے کوئی بھی عہد نبھایا نہیں گیا سر سے جمال یار کا سایہ نہیں گیا ہاں ہاں نہیں ہے کچھ بھی میرے اختیار میں ہاں ہاں وہ شخص مجھ سے بھلایا نہیں گیا