دی اینڈ فار ٹرمپ؟
راحیل اظہر
امریکہ پچھلے سترہ سال سے پاکستان کا ہمسایہ ہے! بظاہر، یہ ہمسایہ، بہت جلد بوریا بستر سمیٹ، رخت ِسفر باندھنے والا ہے اور کوس ِرحلت بجنے کو ہے۔ مگر اس میں نہ صرف مبالغہ ہے، بلکہ اس "ہمسائیگی" کے مستقبل قریب میں ختم ہونے کا امکان، بہت کم ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے، ایک نظر، اس ٹنٹے کے پس منظر پر کرتے چلیے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جنگیں چھڑے رہنے میں امریکن اشرافیہ کا، فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اس ملک کی پہلی تین میں سے دو امیر ترین اور خوشحال کائونٹیاں، واشنگٹن ڈی سی کے بالکل قریب، ریاست ِورجینیا میں ہیں۔ ان کائونٹیوں میں بسنے والے ہر دوسرے چوتھے خوشحال آدمی کا تعلق، دفاعی انڈسٹری سے ہے۔ اور چونکہ پچھلے پانچ چھے برسوں سے ع اسی نواح میں سودا برہنہ پا بھی ہے ان معاملات کو، بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ جنگ چھِڑتے ہی، تازہ نوکریوں کے یہاں اشتہار چھپنے لگتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ہمہ وقت یہاں ع ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق کہا جاتا ہے اور بجا کہ امریکہ کے اصل مالک اور مقتدر، یہیں رہتے ہیں۔ پچھلے سترہ برسوں میں ان لوگوں نے، اربوں ڈالرز کمائے ہیں۔ یہ اَور بات کہ جتنے کما لیے ہیں، اس سے کہیں زیادہ کی ہوس باقی ہے! ایسے میں امریکن صدر کا شام سے فوج واپس بلانا، انہیں ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہیں ہو گا۔ اس سے بڑھ کر ان کی روزی پر، یہ لات پڑ رہی ہے کہ افغانستان سے بھی روانگی کا، انہیں عندیہ مل گیا ہے۔ وزیر ِدفاع جنرل جیمز میٹس کا پروانہ رخصتی بھی، اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ در پردہ، جس مافیا کو ٹرمپ نے للکارا ہے، وہ جوابی وار ضرور کرے گا۔ اقتدار میں آنے سے پہلے، ٹرمپ انہی کا آموختہ دہرایا کرتے تھے۔ بڑے فخر اور مسرت سے، انتخابی جلسوں میں جنرل میٹس کا تعارف، یوں کراتے کہ میٹس کی سخت گیری نے انہیں "میڈ ڈاگ" کا لقب دلوایا ہے! یاد رہے کہ جنرل میٹس کو صدر اوباما نے انتہا پسندی ہی کی وجہ سے برطرف کیا تھا۔ ٹرمپ اس کے بعد ایک جھوٹی اور نفرت انگیز کہانی سنایا کرتے۔ جس کے مطابق، بیسویں صدی کے اوائل میں، کوئی جنرل پرشنگ ہوا کرتے تھے۔ انہیں بھی "اسلامی دہشت گردی" کا سامنا تھا۔ جنرل نے پچاس دہشت گرد پکڑ کر، انہیں گولیوں سے مروا دیا۔ لیکن پہلے ان کے سامنے، گولیوں کو نجس جانور کے خون میں ڈبویا گیا۔ یہ کہانی سراسر جھوٹی ثابت ہوئی۔ خیر، اب وہی لالوں کے لال جنرل میٹس برخاست کر دیے گئے ہیں۔ ٹرمپ کے غصے کا عالم یہ ہے کہ پہلے انہیں فروری کے آخر میں نکالنا تھا، مگر اب یہ کام، یکم جنوری کو کیا جا رہا ہے۔ افغانستان سے روانگی کو، طالبان کی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن سخت زیادتی ہے کہ پاکستانی حکمت ِعملی کی داد نہ دی جائے۔ اس خاکسار کا شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ اس پرائی جنگ میں کودنا، سخت غلطی تھی۔ حتمی تجزیے میں یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ بعد کی حکمت ِعملی بہت ٹھیک بیٹھی۔ "ڈو مور" کے حامیوں سے کوئی پوچھے کہ اگر طالبان کے خلاف بھی، پاکستان آخری حد تک چلا جاتا، تو ہاتھ کیا آتا؟ آج صورت ِحال یہ ہے کہ طالبان کا بول بالا ہو رہا ہے۔ انہیں یقین ہے کہ آنے والا وقت ان کا ہے اور امریکہ کو اپنی گھڑیوں سمیت رخصت ہونا ہو گا! بقول ِشورش کاشمیری وزارتیں تو کھِلونا ہیں، ٹوٹ جائیں گی چٹان آئے گا، آخر ضرور آئے گا ٭٭٭٭٭ سہل ِممتنع یا صرف سہل؟ چند روز پہلے، مشہور شاعر جون ایلیا کی برسی تھی۔ ان کا ایک ایسا شعر، انہی دنوں نظر سے گزرا، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شاعر بَس دو ہی ہوئے ہیں۔ میر تقی اور "میر جون"۔ میر کو سہل ِممتنع کا بادشاہ تسلیم کیا گیا ہے۔ گویا اسی بادشاہی کے ایک دعوے دار، اب جون ایلیا بھی ہیں! ممتنع کہتے ہیں دشوار یا محال کو۔ سہل ِممتنع کے معنی ہوئے بظاہر آسان، مگر حقیقت میں نہایت مشکل۔ جون مرحوم کے مداحوں کو بھی، یہی مغالطہ ہے کہ صرف سچے جذبے اور بے ساختگی سے، شعر اس درجے کو پہنچ جاتا ہے۔ مگر اچھے شعر کے اجزائے ترکیبی کچھ اَور بھی ہیں۔ اس کے لیے صرف اچھا خیال، موزوں الفاظ بھی کافی نہیں۔ اچھے شعر کی طرف سب سے زیادہ رہنمائی، شاعر کا وجدان یا مذاق ِصحیح کرتا ہے! اکثر شعرا کو سوجھی بھی خوب اور زبان بھی جانتے تھے۔ لیکن چونکہ صحیح مذاق نہیں تھا، بھلے بْرے میں تمیز نہیں کر سکے اور اچھے خیال کو بھی الفاظ میں، ڈبوتے رہے۔ صرف ایک آدھ لفظ سے بھی، شعر چمکا ہے یا تباہ ہو گیا ہے۔ میر کہتے ہیں ع ہائے جوانی! کیا کیا کہیے، شور سروں میں رکھتے تھے صاحب ِنظر دیکھ سکتے ہیں کہ "ہائے جوانی! کیا کیا کہیے" کہنے میں، کیا کیا خون تھْوکا گیا ہو گا! اَور سنیے۔ فلک نے "آہ" تری رہ میں ہم کو پیدا کر برنگ ِسبزہ نورستہ، پائمال کیا یہ "آہ" کہنے یا کرنے میں، اساتذہ کا بھی سانس پھْول جائے! ع ایسے وحشی، کہاں ہیں؟ اے خوباں! کہاں" کا لفظ کلیدی ہے! اب جون صاحب کا سب سے نمائندہ شعر دیکھیے۔ میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں "اتنا" اور "بَس" کسی مبتدی کے کہنے کی چیزیں تھیں۔ یعنی رتی بھر نہ زیادہ نہ کم، "میں بس اتنا عجیب ہوں"! "اتنا" کی جگہ "ایسا" یا "کیسا"، سامنے کے لفظ تھے، مگر وجدان؟ میر کی تِہ داری اوپر دی گئی مثالوں سے بہت زیادہ ہے۔ اور جون صاحب کے بیشتر شعر، ان کے "بہترین" شعر سے زیادہ کاواک ہیں! جون صاحب کے ہاں بے ساختگی اور میر کے یہاں, صرف بظاہر بے ساختگی ہے۔ غور کرنے پر، ساخت ہی ساخت نظر آئے گی! شیشے کے مانند، جون صاحب کے شعروں کے بھی آر پار دیکھا جا سکتا ہے۔ میر کے شعر بحر ِعمیق ہیں۔ ان میں، اْترنا پڑتا ہے۔ ع عشق کی کَون انتہا لایا کے مصداق، میر کی انتہا کو پہنچنا، ہر ایک کے بس کا کام نہیں! میر کی ہفت پہلو شعریت کا، جون ایلیا میں صرف ایک پہلو نظر آتا ہے۔ جون اگر یہ کہتے کہ میں بھی میر کے رستے پر چلنے والوں میں ہوں، تو چل جاتا۔ مگر خود کو ان کے برابر رکھنا ع سورج کو چراغ ہے دِکھانا جون ایلیا کی شاعری سہل تو ہو سکتی ہے، ممتنع ہرگز نہیں!