2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

ذوالفقار علی بھٹو تاریخ کا ایک نام

05-01-2019

بھٹو صاحب نے سیاست میں اْس دن ہی قدم رکھ دیا تھا جب انہوں نے اپنے دورطالبعلمی میں قائداعظم کو 26اپریل 1945ء میں ایک خط لکھا تھا۔بھٹو صاحب وہ سیاستدان ہیں جنھوں نے اس خط میں ملک کی خاطر اپنی جان دینے کی بات کی اور اس پر عمل کرکے بھی دکھایا۔انہوں نے اپنے خط میں لکھا: ’’جناب والا! آپ نے مسلم قوم کو ایک پرچم تلے جمع کیا ہے،میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی آرزو ہر مسلمان کے دل میں ہونی چاہیے کیونکہ پاکستان ہمارا مقدر ہے، ہمارا مقصد ہے۔ہمیں پاکستان کے قیام سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔برصغیر میں ہم بحیثیت قوم وجود رکھتے ہیں۔آپ نے ہمیں متحرک کیا جس پرہمیں فخر ہے۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے میں ارض پاک کے حصول میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب میں پاکستان کیلئے جان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرونگا۔‘‘ اس خط کا جواب قائداعظم نے یکم مئی 1945ء کو دیا انہوں نے لکھا ’’ تمہارا 28اپریل کا خط پڑھ کر اور یہ جان کر کہ تم مختلف سیاسی تقریبات میں شامل ہوتے رہے ہو بہت خوشی ہوئی۔اگر تم سیاست میں دلچسپی رکھتے ہو تو میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ پہلے اس کا بخوبی مطالعہ کرو لیکن اپنی تعلیم کو نظر انداز نہ کرنا۔اگر تم ہندوستان کے سیاسی مسائل کا مکمل طور پر مطالعہ کرتے ہو تو مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تم تعلیم مکمل ہونے کے بعد زندگی کی جدوجہد میں کامیاب فرد کے طور پر داخل ہوگے۔‘‘ بھٹو صاحب اکثراپنے جلسوں میں خطاب کرتے ہوئے عوام سے کہتے تھے کہ ملک کے لیے لڑوگے، جان دو گے جس پرعوام پرجوش انداز میں کہتے تھے کہ ہاں ہم ملک کے خاطر لڑیں گے،جان دیں گے۔ جس پر بھٹوکے ناقدین ان پر تنقید کرتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ اپنے جلسوں میں جوش و خروش پیدا کرنے، گرمانے اور عوام کو جذباتی بنانے کے لیے اس طرح بات کرتے تھے،لیکن وہ شاید بھول گئے کہ انہوں نے 1945ء میں قائد اعظم کو لکھے گئے خط میں بھی یہ لکھا تھا کہ وہ ضرورت پڑنے پر ملک کے لیے جان بھی دے دیں گے۔بھٹو صاحب کے سیاسی سفرکاباقاعدہ آغاز 1957ء میں صدرا سکندر مرزاکے زمانے میں شروع ہوا جب انھیں پہلی دفعہ بیرون ملک جانے والے وفد میں شامل کیا گیا۔وہ اس وفد کے سب سے کم عمر ممبر تھے لیکن انہوں نے وہاں انتہائی مدبرانہ اور متاثر کن تقریر کی جس سے تمام وفود کے اراکین بہت متاثر ہوئے۔انھیں پہلی دفعہ وزرات صدر ایوب خان کے دور میں ملی جب انھیں وفاقی وزیر تجارت بنایا گیا۔وہ ایوب کابینہ میں سب سے کم عمروزیر تھے۔ اس کے بعد انھیں وزیر معدنیات وقدرتی وسائل پھر ایندھن، بجلی و آبپاشی اور امو ر کشمیر کی وزرات دی گئی۔ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ایوب خان نے انھیں وزیر خارجہ بنایا۔جہاں انہوں نے ملک کے لیے بے پناہ و بے مثال خدمات انجام دیں۔ پاک چین دوستی کے حقیقی معمار بھٹوصاحب ہی ہیں۔انہوں نے چین اور اس کی کمیونسٹ پارٹی سے پاکستان کے لیے خصوصی تعلقات استوار کرائے، جس کے نتیجہ میں آج بھی کہا جارہا ہے کہ پاک چین دوستی پہاڑوں سے بھی بلند ہے۔ انہوں نے ملک کی خارجہ پالیسی کی ایک راہ متعین کی۔1965ء کی جنگ میں تاشقند میں روس نے پاکستان اور بھار ت کے درمیان جنگ بندی کے لیے مذاکرات کرانے کی میزبانی کی۔ پاکستانی وفد میں صدر ایوب خان کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ کی حیثیت سے تاشقند گئے تھے جبکہ بھار تی وفد کی سربراہی وزیراعظم لعل بہادر شاستری نے کی۔ مذاکرات کے بعد جب معاہدہ تاشقندپر دستخط کاوقت آیا تو بھٹو صاحب کو اس کے نکات پر شدید اعتراضات تھے۔ جس پرانہوں نے نہ صر ف دستخط کی تقریب میں شرکت سے انکار کردیابلکہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے اْسی وقت استعفیٰ دے دیا۔اْن کا موقف اصولی تھا کہ ہم جنگ جیتے ہیں پھر ہم ہارے ہوؤں (ہاری ہوئی قوم) کی طرح کیوں معاہدہ کریں؟وہ جس وقت ایئر پورٹ پر اترے تو عوام میں انھیں زبردست پذیرائی ملی جو ان کی توقعات سے کہیں بڑھ کرتھی۔ اس عوامی پذیر ائی اور ان کی محبت نے انھیں مجبور کردیا کہ و ہ سامراجی گماشتوں کے چنگل سے عوام کو آزاد کرائیں اور ملک کو تعمیر و ترقی اور کامیابیوں کے سفر پر گامزن کردیں۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا دو واضع بلاکس میں بٹی ہوئی تھی۔روسی کمیونسٹ گروپ(بائیں بازو)اور امریکی سامراج گروپ(دائیں بازو)۔ان دنوں پاکستا ن بھی واضع طور پر دائیں بازو اور بائیں بازو،ترقی پسند اور رجعت پسند،سرخ اور سبز، رائٹ اور لیفٹ بلاکس میں تقسیم ہوچکا تھا۔ ملک بھر کی دولت و سائل پر 22خاندان قابض تھے۔ان ہی کی اجارہ داری تھی۔ملک استحصالی اور استحصا ل زدہ طبقوں میں تقسیم ہوچکا تھا بلکہ مذہبی طبقوں میں بھی تقسیم ہوچکا تھا۔اس صورتحال میں عوام مایوسی کا شکار ہوگئے تھے۔ان حالات میں بھٹو صاحب نے ملک و قوم کو مایوسی کے گہرے گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لیے ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیااور اس کے قیام کے لیے اپنے دوستوں، ساتھیوں اور مختلف سیاسی شخصیات سے ملاقاتوں کا طویل سلسلہ شروع کیا جو مارچ 1967ء سے نومبر 1967ء تک جاری رہا۔ اس دوران بھٹو صاحب نے طلبہ، مزدوروں، محنت کشوں، کسانوں، ادیبوں، شاعروں اور ترقی پسند دانشوروں سے رابطے کیئے اور اپنے ہی جاگیردارانہ طبقے سے حقیقی عوامی انقلاب کیلئے بغاوت کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کی بنیادی دستاویز نمبر1کا عنوان بھی یہی ہے "ایک نئی پارٹی کیوں" اس دستاویزمیں اس وقت کے تمام سماجی، معاشی، داخلی، خارجی، دفاعی مسائل کی صورتحال پر حقائق پر مبنی مکمل جائزہ پیش کیا گیا۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں راقم بہت چھوٹا تھااس لیے مجھے ان کا دور یاد نہیں ہے لیکن میرے والدپیپلز پارٹی بننے کے بعد ان کے ابتدائی دور کے ساتھیوں میں سے تھے اور اب تک پیپلز پارٹی میں ہی ہیں۔