ذہنیت
وسی بابا
کچھ سوالات ہیں جن کا ادبی طور پر جائزہ لیا جاسکتا ہے اورعلمی سانچوں میں جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ جمہوری عمل سے بننے والا پاکستان آمریت کے شکنجے میں کیوں اور کیسے جکڑ کر رہ گیا؟ وافر پانی اور زرخیز میدانوں کے حامل ملک میں بھوک اور بیماری کیوں؟ پینسٹھ فیصد آبادی اگر غذائی قلت کا سامنا کر رہی ہے تو حق رائے دہی کا آزادانہ استعمال کیوں کر ممکن ہے؟ معیشت مسلسل زوال کا شکار ہے تو انجام کیا ہوگا؟ کس کا نام لیں ؟ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ کون ڈالے؟ کسی کا نام نہیں لیتے ہم اس ذہنیت کو قصور وار قرار دیتے ہیں جو نوآبادیاتی نظام کی پیداوار اور اس کے تسلسل کی ذمہ دار ہے۔ نوآبادیاتی ذہنیت معاشرتی جمود کو برقرار،حقیقی ترقی اور اصلاحات میں رکاوٹ اور ایک منصفانہ معاشرے کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے۔ اس کی جڑیں ان اندرونی رویوں اور عقائد میں گہری پیوست ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتے چلے آرہے ہیں۔ اگر پچھلے پچھتر سال اشرافیہ کے جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ، طاقت، تسلط اور نوآبادیاتی وراثت کے تحفظ سے عبارت ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ تمام عوامل ناپید ہیں جو حریت فکر اور، نتیجتاً ، پائیدار ترقی کا راستہ کھول سکتے ہیں۔ تعزیراتی قوانین، کمرشل زراعت اور مقامی جمہوریت کا فقدان ایک چھوٹے سے طبقے کو عوام پر مسلط رکھتے ہیں۔ وہ نظریات جو پاکستان کی تخلیق کا باعث بنے ۔ نمائندگی، خود مختاری اور بنیادی حقوق کا تحفظ… آزادی کے فوراً بعد ہی کمزور پڑ گئے کہ حکمران طبقے نے اپنے سابقہ نوآبادیاتی آقاؤں کے نقش قدم پر چلنا شروع کر دیا۔ آزادی کا تو مطلب یہ تھا کہ نوآبادیاتی عہد کی رسومات کو ترک کردیا جاتا۔ قانونی ، انتظامی اور معاشی ڈھانچہ جو وراثت میں ملا تھا تبدیل ہوتا تو ہی طوقِ غلامی سے نجات ملتی۔ بانی پاکستان کے پہلی آئین ساز اسمبلی سے خطاب کی روشنی میں آئین بنتا تو ملک کی ایک منزل متعین ہوجاتی۔ اصول ِمساوات پر مبنی شہریت کا تصور صوبائیت ، فرقہ واریت، لسانیت اور نسل پرستی کی حوصلہ شکنی اور قومیت کے تصور کو اجاگر کرتا۔ لیکن جو کچھ ہوا سب اْلٹ، ریاست کے وجود کے تقاضوں کے عین خلاف۔ ہم مشرقی پاکستان کی علیٰحدگی سے ہوتے ہوئے چارقومیتی وفاق تک پہنچ گئے ہیں لیکن ذہنیت نہیں بدلی کیونکہ نوآبادیاتی نظام اپنی جگہ پر قائم ہے۔پاکستان کا قیام ایک یادگار لمحہ تھا، لاکھوں نے جمہوری امنگوں سے لیس ہوکر برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی کی کوشش کی تھی لیکن اس آزادی کا جوش قلیل مدتی ثابت ہوا۔ پاکستان کے ابتدائی سال سیاسی عدم استحکام سے عبارت رہے، نوزائیدہ ریاست نسلی، لسانی اور علاقائی تنوع کی موجودگی میں مربوط قومی شناخت قائم کرنے کی جدوجہد میں پھنس گئی۔ تقسیم ہند کے دباؤ اور مہاجرین کی آمد سے ایک ایسا ماحول پیدا ہواجہاں نوآبادیاتی روایات کی امین افسر شاہی کمزور سویلین حکومتوں کے خلا کو پر کرنے کے لیے میدان میں کود پڑی اور جلد ہی سیاسی منظر نامے پر غلبہ حاصل کرلیا۔ وہ قانونی اور انتظامی ڈھانچہ جو جمہوریت کی آبیاری کرنے والے عوامل — ایک آزاد عدلیہ، آزاد پریس، اور نمائندہ حکومت — سرے سے وجود میں ہی نہ آسکا۔ 1958، 1977 اور 1999 کے مارشل لاوں کو ملک ملکی مفاد میں جائز قرار دیا گیا۔آمریت کے مکروہ پہلوؤں میں سے ایک نوآبادیاتی دور کے قوانین کا تحفظ اور تقویت رہا ہے ۔ 1860 کے تعزیراتی قوانین، بغاوت اور امن عامہ سے متعلق اپنی دفعات کے ساتھ، حزبِ اختلاف کو خاموش کرنے اور اظہار رائے کی آزادی کو کم کرنے کا ہتھیار بن کر رہ گیا۔ یہ قوانین، جو اصل میں انگریزوں نے مزاحمتی تحریکوں کو کچلنے کے لیے استعمال کیے تھے، اب پاکستان کے حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کیے۔ خوف اور جبر کا ماحول پیدا ہوا جس نے مباحثے اور بحث کا راستہ بند کردیا۔لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894 ایک اور نوآبادیاتی میراث ہے جو اشرافیہ کی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ یہ قانون ریاست کو عوامی مقاصد کے لیے زبردستی نجی زمین حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ترقی کی آڑ میں چھوٹے کسانوں اور مقامی برادریوں سے زمین چھین کر سیاسی طور پر منسلک افراد یا کارپوریشنوں کے حوالے کی جانے لگیں۔مارشل لاء کے نفاذ سے لے کر انتخابات میں دھاندلی تک، اشرافیہ نے مسلسل اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ سیاسی اقتدار ان کے ہاتھ میں رہے۔ یہاں تک کہ سویلین حکمرانی کے ادوار میں بھی، جمہوریت ایک ڈھکوسلہ ہی ثابت ہوئی ہے کہ نظامِ کہن اپنی جگہ برقرار رہا ہے۔ چند لوگوں کے ہاتھوں میں اقتدار کے ارتکاز سے پالیسیوں اور فیصلوں میں عوام کی خواہشات دب کر رہ گئی ہیں۔ معاشی ناہمواریاں گہری ہو گئی ہیں، اشرافیہ دولت اور وسائل پر قابض ہے جبکہ عوام بھوک اور غربت کی دلدل میں پھنسی ہے۔ایک طرف معاشی عدم مساوات کو فروغ دیا گیا ہے تو دوسری طرف مقامی جمہوریت سے متعلق آئین کی خلاف ورزی سے لوگوں کو بنیادی سہولیات تک رسائی بھی مشکل بنادی گئی ہے۔ صوبائیت پرستی کی آڑ میں اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم سے مسلسل انکار کیا جا رہا ہے۔مقامی جمہوریت نہ ہونے سے سیاسی پارٹیاں عوام سے کٹ گئی ہیں اور طبقاتی مفادات کی ترجمان بن کر رہ گئیں ہیں۔ نوآبادیاتی ذہنیت سے نجات کا حل یہی ہے کہ آئین کو قائدِ اعظم کے پہلی آئین ساز اسمبلی سے خطاب کی روشنی میں ترتیب دیا جائے۔ مساوات پر مبنی شہریت کے تصور اور اس کے اطلاق ، نوآبادیاتی دور کے تعزیراتی قوانین کو جمہوری اقدار سے ہم آہنگی اور آئین کی روح کے مطابق مقامی حکومتوں (سیاسی ، انتظامی اور مالیاتی طور پر خودمختار) کا قیام نہ صرف قومیت کے تصور کو اجاگر کرے گا بلکہ ملک کو پائیدار ترقی سے بھی روشناس کرائیگا۔