رائٹ سائزنگ
پروفیسر تنویر صادق
حکومت نے اخراجات میں کمی کا فیصلہ کیا ہے۔ رائٹ سائزنگ کمیٹی نے ڈیڑھ لاکھ اسامیاں ختم کرنے کی سفارش کی ہے۔ یہ وہ آسامیاں تھیںجو صرف کاغذوں میں تھیں۔ان آسامیوں پر کوئی کام نہیں کر رہا تھا۔ لیکن وہ لوگ جو دفتروں میں کام کر رہے ہیں ، سنا ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کی چھٹی ہو جائے گی۔مگر کیسے۔ کسی ایک شخص کو فالتو قرار دینا تو ممکن ہے مگر اسے نکالنا ایک پورے خاندان کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ پھر وہ لوگ جو کسی دفتر میں کچھ وقت گزار لیتے ہیں انہیں وہاں سے ہٹانا خاصا دشوار ہوتا ہے ۔ وہاں کی یونین اور ان کے ساتھی، ایسی کسی بھی کوشش کے آگے ان کے لئے ایک ڈھال بن جاتے ہیں۔مجھے ایک دفتر جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے دفتر کے گیٹ کے پاس گاڑی کھڑی کی۔ابھی میں باہر نکلا نہیں تھا کہ ایک رکشا تیزی سے آیا اور گاڑی کے آگے تھوڑی سی دستیاب جگہ گھس گیا اور رکشے کو چلانے والا شخص اس سے اتر کر اندر دفتر میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد میں دفتر کے انچارج سے ملا تو میں نے دیکھا کہ ایک میز پر وہ رکشا ڈرائیور سر ٹکائے مزے سے سو رہا تھا۔میرا خیال تھا کہ چلیں انچارج کا واقف ہو گا ۔ تھوڑی دیر آرام کرکے چلا جائے گا۔مجھے تین دن بعد دوبارہ جانا ہوا ۔ وہ صاحب اس دن بھی اسی میز پر سر رکھے سو رہے تھے۔ میں تیسری دفعہ اس دفتر گیا ۔انچارج صاحب کے پاس بیٹھا تھا کہ اس سوئے ہوے ڈرائیور صاحب نے انچارج کو بتایا کہ فلاں میڈم نے بلایا ہے، میں ان کے ساتھ جا رہا ہوں۔ یہ بتا کر وہ چلے گئے۔ میں نے انچارج سے پوچھا کہ بھائی یہ رکشا ڈرائیور خود آپ نے رکھا ہوا ہے یا واقف ہونے کی وجہ سے اسے یہاں سونے کی اجازت ہے۔انچارج ہنسنے لگاکہ ہم نے کیا رکھنا ہے۔جب سے یہ کمپیوٹر اور اسکو چلانے والے کمپیوٹر ایکسپرٹ آئے ہیں، ساری برانچ فارغ ہو گئی ہے۔ کل نو بندے ہیں۔ ایک کمپیوٹر والا اور دوسرا میں،جو آپ کے سامنے بیٹھے ہیں، ایک رکشے والا اور چھ دوسرے صبح حاضری لگا کر چلے گئے ہیں۔ہر طرح کی درخواست کمپیوٹر میں ہے۔ میں نام ، پتہ اور دیگر کوائف لکھ کر اسے دے دیتا ہوں کہ فلاں موضوع کا لیٹر نکال دو اور یہ کمپیوٹر والا دو منٹ میںتیار چیز مجھے دے دیتا ہے۔رکشے والا ہمارا ہیڈ کلرک ہے۔ آج کل پوری طرح فارغ ہے۔ صبح سے آکر سویا رہتا تھا۔ اب اس نے رکشا لے لیا ہے۔ ہماری وہ خواتین جن کے پاس گاڑی نہیں۔ ان کو گھر سے لانا اور چھوڑنا اس کا کام ہے اس کے علاوہ رکشے میںانہیں جہاں جانا ہو چھوڑ آتا ہے۔ ٔکمیٹی کی دیگر سفارشات میں متعدد اداروں کی بندش اور انضمام اورکچھ سرکاری اداروں کی نجکاری وغیرہ شامل ہیں ۔یہ جو ڈیڑھ یا دو لاکھ اسامیاں ختم کی جا رہی ہیں۔ زیادہ تر چھوٹے لیول کی ہوں گی۔ یہ زیادتی اور ظلم ہے کہ غریب کا روزگار چھینا جا رہا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ غریب کا وظیفہ بند کیا جا رہاہے۔ چند سال پہلے کی بات ہے میں اپنے آبائی علاقے مزنگ میں گیا ہوا تھا۔ ایک میرا ہم عمر مجھے دیکھ کر بھا گتا ہوا مجھے ملنے آیا۔ وہ الیکٹریشن ہے۔ میں نے پوچھا کیا کر رہے ہو؟ کہنے لگا کہ اپنی دکان بنا لی ہے ، وہاں بجلی کا تمام ضروری سامان رکھا ہے۔ شام تک بڑی معقول سیل ہو جاتی ہے ۔ کسی کے گھر بجلی کی کوئی خرابی ہو جائے تو وہ میں خود صحیح کر آتا ہوں۔اس کا بھی معاوضہ معقول مل جاتا ہے ۔باتیں کرتے ہوئے میں نے پوچھا کہ تم ایک سرکاری نوکری کر رہے تھے، وہ چھوڑ دی ہے کیا۔جواب ملا کیوں چھوڑنا تھی۔ وہ کوئی تکلیف نہیں دیتی، تو کیوں چھوڑوں۔میں نے پوچھا کہ اگر نوکری کرتے ہو تو دکانداری تو شام کو کچھ وقت ہی کرتے ہو گے۔ کہنے لگا کہ نہیں نوکری پر میں صرف مہینے میں ایک د ن جاتا ہوں۔ صرف ایک دن، تمہیں کوئی پوچھتا نہیں۔ ہنس کر کہنے لگا کیوں پوچھے گا۔ میں مہینے کی ابتدا میں دو یا تین تاریخ کو اپنے دفتر جاتا ہوں۔ تنخواہ مجھے مل جاتی ہے اور میرا اوور ٹائم و ہ خود و صول کر لیتے ہیں۔ کیا خوبصورت معاہدہ ہے ۔ وہ کام پر نہیں جاتا مگر اوور ٹائم بھی بنتا ہے ۔ لاہور میں ریلوے کی بہت بڑی ورکشاپ ہے جس کے کئی حصے ہیں۔اس کے تمام ملازم اپنے پاس ریلوے کا جاری کردہ ایک ٹوکن جس پر اس ملازم کا نام ہوتا ہے ،رکھتے تھے۔ڈیوٹی شروع ہوتے وقت ورکر اس نمبر کو گیٹ پر لٹکا دیتے کہ جو آئے اسے پتہ چل جائے کہ فلاں نمبر کا ملازم اندر موجود ہے۔ویسے ریلوے کے اپنے ہی اصول ہیں۔ریلوے کا ہر ملازم خود کو ریلوے کا مالک ہی ظاہر کرتا ہے۔ ایک دفعہ میں اور میرے ساتھی مرحوم ظہیر الدین لاہور سے ساہیوال جا رہے تھے۔کوٹ لکھپت سٹیشن پر ٹکٹ ملنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو سوچا راستے میں ٹکٹ چیکر جب آئے گا اس سے لے لیں گے۔گاڑی پر سوار ہونے کے بعد ہم سیکنڈ کلاس کے ڈبے میں بیٹھنے کی جگہ دیکھ رہے تھے۔ایک آمنے سامنے والی سیٹ پر کوئی صاحب قابض تھے، اس طرح کہ ایک طرف خود لیٹے ہوئے تھے اور سامنے والی سیٹ پر اپنا سامان رکھا ہوا تھا۔ہم نے سوچاکہ اس سے کسی طرح بیٹھنے کی جگہ لیتے ہیں۔اس کو مخاطب کیا تو اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ ظہیر صاحب کا پرانا واقف تھا۔بڑے تپاک سے ملا۔ لاہوری سٹائل میں کہنے لگا ۔بیٹھیں۔ آپ کے لئے تو حکم کریں ڈبہ خالی کرا لیتے ہیں۔ہم بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں ٹی ٹی صاحب آ گئے۔ میں نے پیسے نکالے کہ ٹکٹ لوں ۔مگر انہوں نے ٹی ٹی صاحب کو کہا۔جناب کیا کر رہے ہیں۔ میں نے بتایا ہے، میرے مہمان ہیں۔آ پ دیکھنے کے باوجود ٹکٹ مانگ رہے ہیں۔ میں ٹکٹ کے لئے شور مچاتا رہ گیا مگر ٹی ٹی صاحب غائب ہو چکے تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ وہاں کی روٹین ہے۔جس سے ہم بھی فیض یاب ہوئے،بس یوں سمجھیں کہ اس دن ریلوے کی لوٹ مار میں ہم بھی شامل تھے۔ ٭٭٭٭