2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

روہی اور خواجہ فریدؒ ( 1 )

ظہور دھریجہ
02-11-2018

پاکستان کے وسیع صحرا چولستان کو مقامی سرائیکی زبان میں روہی کہتے ہیں ۔ یہ پیاس اور افلاس کا صحرا ہے ‘ یہاں زندگی کی کوئی بنیادی ضرورت میسر نہیں ۔ سابقہ حکمرانوں میں سے کسی نے اس کے مسائل پر توجہ نہیں دی ۔ آج وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کا تعلق اس علاقے سے ہے تو ضروری ہے کہ وہ چولستان کے مسائل پر توجہ دیں ۔ یہ بات اپنی جگہ حقیقت کہ چولستان پیاس اور افلاس کا صحرا ہے لیکن خواجہ فرید نے اسے محبتوں کا مرکز بنا دیا ہے ۔ چولستان کے بارے میں خواجہ فرید نے اپنی شاعری میں اس کا ذکر کتنے دلپذیر انداز میں کیا ہے ‘ اس پر تحقیق اور ریسرچ کی ضرورت ہے ۔ اگر یونیورسٹیوں کے سرائیکی شعبہ جات اس بارے متوجہ ہوں تو یہ بہت بڑا کام ہوگا ۔ بہاول پورسے تعلق رکھنے والے معروف ریسرچ سکالر احمد غزالی اپنی کتاب ’’چولستان‘‘ کا آغاز ان لفظوں میں کرتے ہیں۔ ’’تقریباً چار ہزار سال (قبل مسیح) کی بات ہے صحرائے چولستان کے وسط میں دریائے سرسوتی ٹھاٹھیں مارتا ہوا گزرتا تھا اسی دریا کو آج ہاکڑہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ چولستان کے باسی اس دریا کے روپوش ہو جانے کا ذکر کرتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس دریا کا خشک ہو جانا صدیوں پرانا واقعہ ہے لیکن اسے بیان کرتے وقت چولستان کا ہر شخص یوں بات کرتا ہے جیسے اس کا آنکھوں دیکھا واقعہ ہو۔‘‘ سینکڑوں میلوں پر پھیلے ہوئے سرائیکی وسیب کے عظیم صحرا کو سرکاری زبان میں چولستان اور مقامی زبان میں روہی کہتے ہیں۔روہی کا لفظ روہ سے مشتق ہے ۔ سرائیکی میں روہ کے معنی پہاڑ کے ہیں اور روہی روہ کی تصغیر ہے ۔’’حاصل ساڑھو‘‘ (بہاولنگر کا قدیم نام )سے لیکر کوٹ سبزل (صادق آباد) تک پھیلے ہوئے صحرائے چولستان میں ریت کے پہاڑ نما سینکڑوں ٹیلے موجود ہیں ۔ ان ٹیلوں کو مقامی زبان میں ’’روہ‘‘ کہا جاتا ہے اور روہ کی تصغیر روہی ہو گئی ۔ یہی اس کی وجہ تسمیہ ہے ۔ سرائیکی زبان کے عظیم شاعر حضرت خواجہ غلام فریدؒ نے اپنی شاعری میں خطہ چولستان کیلئے صرف ایک مرتبہ لفظ چولستان باقی تمام دیوان میں لفظ روہی استعمال کیا ہے ۔ روہی کے ٹیلے اور ان ٹیلوں سے نکلنے والی سپیا ں موتی دوسری نواردات گواہی دے رہی ہیں کہ یہ خطہ بہت بڑے دریا کا انمٹ نقش اور عظیم تہذیبی وادی کی یادگار ہے ۔ پاکستان میں تین صحرا ہیں ان میں سے دو تھل اور روہی کا تعلق سرائیکی وسیب سے اور تھر سندھ میں ہے ۔ تھل چالیس لاکھ ، روہی(چولستان)66لاکھ اور تھر 105لاکھ ایکڑ پر مشتمل ہے مگر ان دونوں میں سے صحرائے چولستان اپنی تاریخی ، جغرافیائی اور معروضی خصوصیات کے اعتبار سے بے مثال و لاجواب ہے ۔ سرائیکی دھرتی کے عظیم شاعر خواجہ غلام فرید کو روہی سے بے پناہ محبت تھی ۔ انہو ںنے کلام میںاس کا بار بار ذکر کرکے اسے امر کردیا ہے ۔ دیوان فریدؒ میں ریت کے ذرات سے لیکر روہی کے پہاڑ تک کاذکر موجود ہے ۔ خواجہ فریدؒ نے جہاں روہی کی دوسری چیزوں کا ذکر کیا ہے وہاں روہی کے نباتات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے ۔ان نباتات میں ان جڑی بوٹیوں کا ذکر بھی کیا ہے جو اس دھرتی کا حسن ہی نہیں بلکہ یہ بوٹیاں غذا اور دوا کے کام بھی آتی ہیں ۔ آپ اگر روہی میں سفر کر رہے ہوں اور خوشبو آپ کی سانسوں کو مہکار ہی ہو اور ایسے لگے کہ آپ روہی میں نہیں بلکہ فرانس کے کسی عطر بازار میں موجود ہیں تو سمجھ لیجئے کہ آپ روہی کے ’’کترن زون‘‘ سے گزر رہے ہیں۔ چونکہ حکومت کی اس طرف توجہ نہیں لیکن یہ بات دعوے سے کہی جا سکتی ہے کہ کترن اور روہی کے خوشبودار پودوں اور جھاڑیوں کے کشید کرکے عطر بنایا جائے اور اسے عالمی منڈی میں فروخت کیا جائے تو کروڑوں کی آمدنی ہو ، کترن بارے خواجہ فریدؒ نے فرمایا: خوش کترن عطروں بھنڑی گز لائی ساوی سنڑی کھا ساگ پوسی دی پھنڑی نبھ ویندے وقت سکھیرے پوری انسانی تاریخ دریا اور صحرا کے گرد گھومتی ہے ۔ جہاں اور جس علاقے میں دریا زندہ ہوتے ہیں وہاں صحرا قدم نہیں رکھتے اور جب کسی خطے کا دریا مر جائے (جیسے دریائے ہاکڑہ) یا اسے مار دیا جائے یا فروخت کر دیا جائے (جیسے ریاست بہاول پور کا دریائے ستلج) تو پھر وہاں صحرا کی شاہی قائم ہو جاتی ہے ۔ آپ اور ہم جس خطے کو روہی چولستان کہتے ہیں ۔ آج سے ہزاروں سال پہلے یہاں بستیاں اور شہر آباد تھے ۔ لہلہاتی فصلیں اور باغات تھے ۔ یہاں زندگی چہچہاتی اور گنگناتی تھی مگر دریا ختم ہوا تو یہاں کی آبادی اور تہذیب بھی ملیا میٹ ہو گئی ۔ دریائے ہاکڑہ کے ختم ہونے کی کہانی تو نہ جانے کب سمجھ آئے مگر ستلج جس کو ہماری آنکھوں کے سامنے ختم کیا گیا اور جس تیزی کیساتھ یہ دریا بھی صحرا میں تبدیل ہو رہا ہے ۔ آنے والے برسوں میں اس کے نتائج بہاولنگر، وہاڑی ، بہاول پور ، لودھراں اور رحیم یارخان کے اضلاع پر مشتمل علاقے کیلئے چولستان سے مختلف نہ ہوں گے مگر خواجہ فریدؒ کے بغیر اس کا نوحہ کون لکھے گا؟ یہ ایک سوال ہے ۔ اب ہم بات کرتے ہیں خواجہ فریدؒ کی روہی اور چولستان کی۔ عالمی شہرت یافتہ ماہر آثارِ قدیمہ ڈاکٹر رفیع مغل نے 1974ء سے لیکر1977ء تک چولستان کا سروے کیا ۔ سروے کے دوران 424قدیم شہر اور بستیوں کے آثار ظاہر ہوئے ہیں اور یہ آثار تین ہزار سے چار ہزار (قبل مسیح) سے تعلق رکھتے ہیں ۔ڈاکٹر رفیع مغل نے ہاکڑہ تہذیب کو موئن جودڑو اور ہڑپہ سے بھی قدیم قرار دیا ہے اور یہاں سے ملنے والے آثار سے ثابت کیا ہے کہ روہی (چولستان) کے لوگ اعلیٰ تہذیب یافتہ تھے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر رفیق مغل کے تحقیقی کام کو بند کیوں کرایا گیا؟ کہیں مقتدر لوگوں کی یہ سازش تو کارفرما نہیں کہ سرائیکی وسیب کی قومی شناخت کیساتھ اس کی عظیم تہذیب کے آثار کو بھی مٹی میں دفن رہنے دیا جائے۔؟خواجہ فریدؒ کو روہی کے حسن اور اس کی خاموشی اور سکوت سے محبت تھی ۔ وہ صحیح معنوں میں روہی شناس تھے ۔ بوئی ، پھوگ ، دھامن ، کھار ، کترن ، سنھ ، کھپ ، جال ، جلوٹے ، کرڑ ، کنڈا ، کرینہ ، گز اور گزلائی لانے کا ذکر دیوان فریدؒ میں ایک بار نہیں بلکہ کئی بار ہوا ہے اوریہ ذکر گل و گلستان سے زیادہ چاہت اور محبت کیساتھ کرکے خواجہ فریدؒ نے روہی کے ساتھ روہی کے نباتات کو بھی معتبر بنا دیا ہے ۔ دیوان فریدؒ کی کافی نمبر173کا مطالعہ کریں تو اس میں آپ کو روہی کے علاوہ کوئی دوسری بات نظر نہیں آئے گی ۔ کافی کی چند لائنیں دیکھیں: اِتھ درد منداں دے دیرے جتھ کِرڑ کنڈا بٖوئی ڈھیرے کھپ ، کھاراں، تے لائی لانْے سنبھ پھوگ بہوں من بھانْے تھل ، ٹبٖڑے ، ڈٖہر ٹکانْے ہر بھٹ بھٹ نال بسیرے (جاری ہے)