2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

سب کا پاکستان ایک خواب

محمد عامر رانا
09-09-2018

گوجرہ ہنگاموں‘ جن میں عیسائی برادری کو ٹارگٹ کیا گیا تھا‘ کے بعد کچھ مسلمان دانشوروں نے اس معاملہ پر قابو پانے کے لیے آئینی حدود میں رہتے ہوئے کوششوں کا آغاز کیا تھا۔ فیصل آباد واقعہ نے ملک کا بین الاقوامی سطح پر تاثر بری طرح متاثر کیا تھا۔2009ء تو ایسا سال تھا جس میں اقلیتوں پر سب سے زیادہ حملے ہوئے۔ ماہرین اس بات پر گہرائی سے غور و فکر کر رہے تھے کہ ایک ایسا ملک جس کے پاس مذہبی قومی نسلی تعصبات سے بالاتر ہو کر شہریوں کو باہم شیر و شکر کرنے والا آئین ہو اس ملک کے بدترین مذہبی تعصب میںمبتلا ہونے کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں ۔کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ماضی میں ریاست کی طرف سے علاقائی حالات کے باعث ملک میں مذہبی عصبیت کے فروغ دینے کا ردعمل ہے۔ کچھ اس صورت حال کو نظریاتی انتہا پسندی کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو کچھ کا خیال ہے کہ اس کی وجہ عسکری اور سیاسی قیادت میں عدم توازن کے باعث معاملہ پر توجہ نہ دیا جانا ہے۔ تاہم تمام مباحثے پاکستانی معاشرہ میں انتہا پسندی کی وجوہات کا احاطہ کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ تاہم مجموعی طور پر اس قسم کے غورو فکر کے نتیجے میں اس بات پر اتفاق دکھائی دیتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ میں شدت پسندی اور تقسیم کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معاشرہ اور ریاست مجموعی طور پر جدت پسندی اور قدامت پسندی کے مابین بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ ایک عام پاکستانی ایک مخصوص فریم میں رہتے ہوئے ترقی پسند بننا چاہتا ہے۔ ریاست بھی بین الاقوامی کمیونٹی میں اپنے اداروں میں اصلاحات کے بغیر اہم مقام کی خواہاں ہے یہ ظاہری تضاد ہمارے رویوں میں دوغلا پن پیدا کر رہا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک شخص اپنے گزشتہ موقف سے ہٹے بغیر ہی مکمل یوٹرن لے لیتا ہے۔ اسی سنڈروم میں بظاہر ہماری نئی حکومت مبتلا محسوس ہوتی ہے۔ پہلے اقتصادی کونسل میں ایک ممبر کی تقرری کا دفاع کیا گیا۔ پھر اس کے احمدی ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والے عوامی ردعمل کے خوف کی وجہ سے فیصلہ کو واپس لے لیا گیا۔جبکہ عام طور پر اس قسم کے حکومتی فیصلوں کی روشنی میں سیاسی عملیت کا نقشہ کھینچا جاتا ہے۔ اس قسم کے فیصلے مستقبل میں ریاست اور حکومت دونوں کو کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے ریاست نے ایسے اقدامات بھی کئے ہیں جن سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ماضی کی غلطیوں کی تصحیح کا فیصلہ کیا جا چکا ہے اور معاشرہ میں اجتماعیت کے رویہ کے فروغ کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس طرح کی ایک کوشش رواں برس کی ابتدا میں پیغام پاکستان کی صورت میں کی گئی۔ پیغام پاکستان معاشرہ میں بڑھتی انتہا پسندی اور تشدد کے خلاف متبادل بیانیہ ہے جو مذہبی علماء کے فتوئوں پر مشتمل ہے۔ اس ڈیکلریشن میں ملک بھر کے 1800سے زائد علماء کا اتفاق ہوا تھا ۔پیغام پاکستان کو ریاست اور معاشرہ کی مشترکہ اجتماعی سوچ کا عکاس قرار دیا جا رہا تھا اور یہ کام آئین پاکستان اور قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب کیا گیا تھا۔ پیغام پاکستان کے بعد ہی سکیورٹی اداروں نے تعلیمی اداروں میں شعور کی بیداری کی مہم کا آغاز کیا تھا جس کو پاکستان کا روڈ میپ قرار دیا جا رہا تھا۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اس ڈیکلریشن کو چند کالعدم تنظیموں نے یرغمال بنانے کی کوشش بھی کی۔ ان تنظیموں کی قیادت اس ڈیکلریشن کی افتتاحی تقریب کے وقت صدارتی محل میں بھی موجود تھی تاہم اس پیغام کو پھیلانے کیلئے ملک بھر میں سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ بظاہر یہ ایک مثبت عمل محسوس ہو رہا تھا کہ کالعدم تنظیمیں اور تشدد پسند تنظیمیں بھی پیغام پاکستان کی پاسداری اور حمایت پر آمادہ ہیں مگر اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ ردعمل میں ایک فرقہ نے اس ڈیکلریشن کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اس ڈیکلریشن کی صورت میں کالعدم تنظیموں کو محفوظ راستہ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ جو اس وقت شدید دبائو میں تھیں۔ تحریک لبیک پاکستان کا شمار بھی ان جماعتوں میں ہوتا ہے جنہوں نے پیغام پاکستان کی تائید و حمایت نہیں کی۔ بہت سے مذہبی حلقوں کا خیال تھا کہ کالعدم تنظیمیں اہل سنت والجماعت اور جماعت الدعوہ اس دستاویزکو عوام میں اپنی قانونی حیثیت کے لیے استعمال کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ’’ پیغام پاکستان‘‘ ملک میں کوئی واضح تاثر پیدا کرنے میں ناکام رہا۔ جہاں تک پیغام پاکستان کے مواد کا تعلق ہے‘یہ جامع اور مذہبی دلائل سے بھر پور ہے مثال کے طور پر اس میں پاکستانی معاشرہ کی تنظیم نو کی بات کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ پاکستانی نہ دوسروں کے مذاہب کی تذلیل کریں گے نا ہی ان مذاہب کے پیشوائوں کی بے توقیری اور توہین کی جائے گی۔ مسلمانوں پر لازم ہو گا کہ وہ دوسرے مذاہب کے افرادکو تبلیغ اور دلائل سے قائل کر کے اسلام کی جانب راغب کریں گے۔ جبکہ دیگر مذاہب کو اپنے مذہبی عقائد اور عبادات کی مکمل آزادی ہو گی۔ پیغام پاکستان میں آئین پاکستان میں مذہبی آزادی کی شقوں کوبھی قرآن و سنت کے عین مطابق اور ہم آہنگ قرار دے کر ان کی تائید کی گئی ہے۔ پیغام پاکستان میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ریاست اخلاقی اور قانونی حدود میں رہتے ہوئے دیگر تمام مذاہب کو مذہبی آزادی کی گارنٹی دیتی ہے۔ ان حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ ریاست کی نظر میں تمام شہری برابر ہوں گے، سب کو مساوی مواقع حاصل ہوں گے۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہوں گے، ان کو برابر سماجی معاشی حقوق‘ سیاسی انصاف‘ آزادی اظہار اورعبادت کی آزادی حاصل ہو گی۔ اسی طرح اس ڈیکلریشن میں فرقہ وارانہ تعصب ‘مسلح تصادم اور بزور طاقت دوسروں پر اپنے مخصوص عقائد مسلط کرنے کی مذمت بھی کی گئی ہے۔ اس ڈیکلریشن ‘جس پر تمام علماء کے دستخط موجود ہیں‘ میں یہ لکھا گیا ہے کہ وہ معاشرہ میں جمہوری اصول کے فروغ کے لیے مل کر کام کریں گے اس سماج کی بنیاد رکھنے میں اپنا حصہ ڈالیں گے جس میں آزادی ‘ مساوات، برداشت، ہم آہنگی اور باہمی احترام موجود ہو اور انصاف کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کے رویے کو فروغ دینے میں معاونت فراہم کریں گے۔ ڈیکلریشن کے تناظر میں دیکھا جائے تو پیغام پاکستان یہ دعویٰ کرتا دکھائی دیتا ہے کہ آج کے جدید دور میں پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مجموعی طور پر قانون سازی بھی اسلامی قوانین اور تعلیمات کی روشنی میں کی گئی ہے۔ ڈیکلریشن کی تفصیل میں اہم شقیں شامل ہیں مگر مجموعی طور پر مذہبی حلقے اس دستاویز کو اپنے مدارس اور مساجد میں ضابطہ کار کے طور پر لاگو کرنے سے احتراز کرتے محسوس ہوتے ہیں۔پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف ایک کامیاب جنگ لڑی ہے مگر بدقسمتی سے بہت سے مذہبی رہنما اس جنگ کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دینے پر تلے ہوئے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک مخصوص اور مقبول فرقہ کے خلاف جنگ تھی۔ اس بیانیہ کے ذریعے ملک میں مختلف تشدد پسند تنظیموں کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہی بیانیہ دوسرے مسالک اور مذاہب کے خلا ف نفرت کو بڑھوتری، معاشرہ میں تقسیم اور تشدد پسند مذہبی گروہ کو تقویت دے رہے ہیں۔ جبکہ ملکی ادارے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے اس بیانیہ کے رد کے لیے اقدامات کے حوالے سے گریزاں ہیں۔ پاکستان اس وقت مختلف اقسام کی انتہا پسندی کی زد میں ہے۔ مخصوص مذہبی رہنما اور گروپ معاشرہ کو ایک تباہی کے دھانے اور بحران کی طرف لے جانے کی قیادت کر رہے ہیں ریاست ہمیشہ سے سٹیٹس کوکو برقرار رکھنے اور بحران کو قابو کرنے میں جتی ہوئی ہے مگر اب تک ریاست کی یہ حکمت عملی موثر ثابت نہیں ہو سکی۔ ریاستی سطح پر صورتحال اس سے بھی بدتر ہے مگر معاشرہ کی سطح پر تشدد کی مذمت کی جاتی ہے۔ اس کے پیچھے خاص طور پر مختلف عقائد کے حامل لوگوں کے خلاف نفرت کی سوچ کارفرما ہے جو کبھی کبھار معاشرہ میں ظاہر ہوتی ہے۔ جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ عقائد کی بنیاد پر امتیاز کی یہ فکر کسی ایک طبقہ فرقہ یا تعلیمی پس منظر یا گروہ تک محدود نہیں یہاں تک کہ یہ صورتحال اپنی ہیئت میں بھی متضاد محسوس ہوتی ہے۔عوام الناس میں مذہبی تعصب اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ نفرت کا یہ بیانیہ اکثریتی مائنڈ سیٹ کو فروغ دے رہا ہے۔