ست رنگا صندوق
اشرف شریف
گلی میں داخل ہوتے پہلا گھر ہمارا تھا یعنی گلی ہمارے گھر سے آغاز ہوتی تھی۔یہ غربا کی گلی تھی جدید زبان میں اسے Area Slum کہا جاتا ہے۔یہ گلی نشیب میں واقع تھی اور اونچائی پر بازار تھا جہاں مالدار ہندؤوں کے محلات،حویلیاں، کریانے کی دکانیں، بیٹھکیں اور کنوئیں تھے۔گلی میں کنوؤں کا تصور اب عجیب لگتا ہے مگر ایسے ہی تھا اور ایسے ہی ایک کنوئیں کو بے انت سنگھ دی کھوہی کہا جاتا تھا۔ ہندؤوں کے چلے جانے کے کئی عشروں بعد تک شاید اسی کے دہائی تک یہ کنواں آباد رہا اور پھر کسی الاٹمنٹ کے نتیجے میں یہ جگہ کسی گھر میں تبدیل ہو گئی۔اس دیدہ زیب اور عالیشان کھوہی کے غسل خانوں میں ہم خود کئی بار نہائے۔تازہ پانی نکالنے کے لیے ایک چرخی بھی تھی جہاں سے عورتیں تازہ پانی حاصلکرتی تھیں۔چبوترے پر بنے اس کنوئیں کے ساتھ ان کی ایک اور شاندار حویلی تھی جس کے اختتام پر ہماری گلی شروع ہو جاتی تھی یعنی بازار سے آتے ہوئے یہ آخری گلی تھی اور اس گلی کا آخری گھر ہمارا تھا۔اس غریبوں کی گلی اور گھر کو قبلہ والد کی استھیٹک سینس نے باغ و بہار بنا دیا تھا۔رات کے ٹھنڈے ٹھار اندھیرے میں گلی میں کھلنے والے دروازے کے اوپر ایک قمقمہ ٹائپ بلب تھا جو پوری گلی کو روشن کر دیتا اور لڑکے لڑکیاں عین اس روشنی کے نیچے رات کو دیر تک کھیلتے۔ہمارے ماں جی رات کو دروازہ کھول کر بچوں کو کھیلتے دیکھ کر خوش ہوتے۔ادھر بلب آف ہوا ادھر لڑکے لڑکیاں شور مچاتے اپنے اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے۔ اس چھوٹے سے گڑیا کے سے گھر میں تین کمرے تھے جن میں ایک بیٹھک تھی اسی میں قبلہ کا پلنگ تھا اور اس کے سرہانے ایک ست رنگا صندوق تھا۔صندوق کیا تھا علم کے رنگوں کی ایک دنیا تھی۔باہر سے وہ صندوق خوبصورت تھا ہی اندر سے اس بھی زیادہ خوبصورت تھا۔کسی استکار استاد کے فن کا شاہکار صندوق۔اس صندوق میں کتابوں اور مخطوطوں کا ڈھیر تھا۔یہیں سے مجھے ظاہر اور باطن کی خوبصورتی کا احساس ہوا اور معلوم ہوا کہ جس کا ظاہر خوبصورت ہے وہ اندر سے کبھی بدصورت نہیں ہو سکتا۔حسن سچ ہے تو سچ کیسے بدصورت ہو سکتا ہے۔ یہ صندوق آدھے اندھیرے اور آدھے اجالے میں ڈوبا رہتا تھا۔یعنی اس کے فرنٹ پر روشنی پڑتی تو اس کے ساتوں رنگ جھلملا اٹھتے جیسے کوئی قوس قزح کمرے میں بن جاتی۔البتہ اس کا اندر اتنا گہرا تھا جب اس کو کھولا جاتا تب بھی روشنی اس کے پیٹ تک نہ پہنچ پاتی۔ اس کا پیٹ کتابوں سے بھرا پڑا تھا۔اس میں عربی اور فارسی شعرا کے دیوان، اردو کے تمام قدیم اساتذہ کے دواوین، ہمارے بزرگوں اور بالخصوص دادا ابو چن میاں ٹوپی والے کے ملکیتی مخطوظے اور دستی نسخے موجود تھے۔وہاں سے پسند کی کتاب اٹھانا امر ِمحال تھا۔یہ صندوق ہم بہن بھائیوں کی چھوٹی سے لائبریری تھا۔جب بھی کتاب پڑھنے کو جی کرتا صندوق کا ڈھکنا یعنی اوپر والا حصہ اٹھاتے اور ہاتھ اس خزانے کے اندر جاتا تو جو کتاب ملتی اسے اٹھا لیتے۔اب یہ اٹھانے والے کی قسمت کہ اس کے نصیب میں کون سی کتاب ہے۔البتہ ایک طرف قبلہ ابا جی کی اپنی شاعری کے مسودے پڑے ہوتے وہ آسانی سے مل جاتے۔اس صندوق کے پاتال میں قدیم کتب تھیں جیسے حضرت علی کا دیوان، نہج البلاغہ، حضرت عبدالقادر جیلانی کا دیوان اور فقیر سہا کا دیوان غالب یعنی اصل ہیرے جواہرات اس صندوق کے سمندر کی تہہ میں پڑے تھے۔ہم نے اپنے غیر نصابی مطالعے کا آغاز اسی صندوق کی کتب سے کیا۔اساتذہ کے جیبی سائز کے دواوین وہیں سے اٹھائے ایک دیوان استاد ضامن کا بھی موجود تھا۔بعد میں اور اب تک ہم نے کہیں استاد ضامن کی شاعری نہیں دیکھی اور نہ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ جب ہم بڑے ہوئے تو قبلہ والد نے کچی سڑک کنارے اٹھ آئے اور یہیں شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا۔آج سے پچاس سال پہلے انہوں نے ایک وسیع جگہ پر گھر بنایا اور پرانے گھر کا سارا سامان نئے گھر میں لایا گیا۔تب ایسے گھر کم کم تھے اب ہمارا وہ گھر غیر ممالک گئے ہوئے لڑکوں کی دیو ہیکل کوٹھیوں کے درمیان مشکل سے سانس کھینچتا نظر آتا ہے۔پہلے وہ گھر ایک دو میل سے نظر آ جاتا تھا اب ان خوبصورت اور ماڈرن کوٹھیوں اور بڑے بڑے پورچوں میں وہ گھر ڈھونڈنے سے نظر آتا ہے۔اس گھر میں بہت سارا سامان نئے کمروں میں آ گیا۔صندوق میں پڑی تمام کتابیں الماریوں میں منتقل ہو گئیں۔نئے صندوقچے، صندوق، ڈائینگ ٹیبل اور صوفے نما جیسی الم غلم چیزوں نے سارے کمروں کو گھیر لیا۔نئے گھر میں ایک سٹور بھی بنوایا گیا جس میں ڈر کے مارے سارا سامان سمٹ سا گیا۔پرانے گھر میں بڑے کمرے میں پڑچھتیاں تھیں جن پر چھوٹے بڑے رنگا رنگ برتن پڑے ہوتے تھے۔وہ برتن تو از کار رفتہ تھے ہی پڑچھتیوں کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں تھی۔ان پڑچھتیوں کو اردو میں کیا کہتے ہیں ہمیں معلوم نہیں۔اندرون پنجاب اب بھی وہ پڑچھتیاں اور برتن موجود ہیں۔تھالیوں کی جگہ ڈنر سیٹ، کوزوں کی جگہ واش بیسن، پانی پینے کے کولوں کی جگہ واٹر سیٹ اور چارپائی کی جگہ ڈائننگ ٹیبل آ گیا۔ رسوئی کہ جگہ کچن، نلکے کی جگہ موٹر اور ہندؤوں کی کھوئی کہ جگہ گھر میں ہی باتھ روم بن گئے۔پہلے ایک تولیہ سارے گھر والوں کے لیے کافی ہوتا تھا اب واش روم میں ایک تولیے کے علاوہ ہر فرد کا الگ تولیہ آ گیا۔ماں جی نے کہا پہلے مجھے غسل خانہ کہنا یاد کرنے میں سال لگا جب غسل خانہ زبان پر چڑھ گیا تو یہ باتھ روم ہو گیا۔باتھ روم یاد ہوا تو یہ واش روم ہو گیا۔ان کی پوتی بولی دادو اسے ریسٹ روم کہتے ہیں۔ہنس پڑیں کہا ہا ہائے پرانا گھر کیا چْھوٹا سارے لفظ بھی اور ہو گئے ہیں۔نئے گھر میں سٹور کے علاوہ کھلے صحن کے ایک احاطے میں پرانے گھر کی ناقابل استعمال بلکہ ناکارہ چیزیں رکھ دی گئیں۔اسی احاطے میں کبھی کتابوں سے بھرا پرا صندوق بھی رکھ دیا گیا۔میری نظر میں اس کا ایک ٹوٹا ہوا پایہ اب بھی جھلملا اٹھتا ہے۔اس احاطے کے چھپر تلے ایک دو سالوں تک ست رنگا صندوق کافی دیر اپنی بے بسی پر چپ اور اداس کھڑا رہا۔ اس صندوق کی گہری چپ اور اداسی اب بھی میرے چوگرد گھیرا ڈالے کھڑی ہے۔مجھے چپ سی لگ گئی ہے۔